Inquilab Logo

امریکی فوج کے سربراہ کا افغانستان میں تشدد ختم کرنے پر زور

Updated: February 11, 2021, 11:57 AM IST | Agency | Washington

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر مختلف شدت پسند گروہوں کے الحاق کا انکشاف، دونوں ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافے کا خدشہ

Afghanistan - Pic : Agency
افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے (تصویر: ایجنسی

 امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینتھ میکنزی نے افغانستان میں تشدد کے خاتمے پر زور دیا ہے۔ جنرل میکنزی واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں آن لائن گفتگو میں شامل تھے۔انہوں کہا کہ’’ یہ واضح ہے کہ افغانستان میں تشدد کی سطح بہت بلند ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ اس صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور طالبان کی کارروائیوں کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ سب سے بہتر راستہ افغان فریقوں کے درمیان مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے کا حصول ہی ہے۔ اُن کے بقول اس مقصد کے حصول کیلئے تمام فریقوں کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔یاد رہے کہ دوحہ معاہدہ طے پانے کے بعد طالبان نے غیر ملکی فورس پر اپنے حملے روک دیئے تھے البتہ افغان فورس پر اس کے حملے جاری ہیں کیونکہ افغان حکومت سے اس کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ لیکن امریکہ طالبان پر زور دے رہا ہے کہ وہ افغان فوس پر بھی تشدد میں کمی کریں اور جنگ بندی کا اعلان کریں لیکن طالبان تاحال اس پر آمادہ نہیں ہیں۔
  کئی شدت پسندتنظیموں کا الحاق
 ادھر حال ہی میں جاری ہونے والی اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کالعدم دہشت گردتنظیم’ تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کا بعض دیگر گروپوں کے ساتھ ہونے والا اتحاد افغانستان، پاکستان اور خطے کیلئے خطرے میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔رپورٹ میں ایک ملک کا نام لئے بغیرکہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد ڈھائی ہزار سے ۶؍ ہزار کے درمیان ہے جبکہ ایک دوسرے ملک کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال جولائی اور اکتوبر کے درمیان ٹی ٹی پی نے سرحد پار سے ۱۰۰؍ زائد حملے کئے۔دوسری جانب پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ پاکستان کے اس دیرینہ مؤقف کی تائید کرتی ہے کہ افغانستان میں موجودہ ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار، حزب الاحرار جیسے شدت پسند گروپ پاکستان کیلئے خطرہ ہیں۔
 تاہم افغانستان کی حکومت کا کہناہے کہ کسی بھی شدت پسند گروپ کو وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی کبھی اجازت نہیں دیتے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شدت پسند تنظیمیں پاکستان اور افغانستان کی سلامتی کیلئے مشترکہ خطرہ ہیں۔ ان کے بقول دونوں ملکوں کو یہ کوشش کرنی ہو گی جہاں تک ممکن ہو سکے اس خطرے سے نمٹنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ان کے بقول تحریکِ طالبان کا دیگر شدت پسندوں کے ساتھ الحاق کے بعد یہ گروپ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اگر کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں افغانستان کے حالات نہ صرف بہتر ہو سکتے ہیں بلکہ اس کے مثبت اثرات پاکستان پر بھی ہوں گے۔ واضح رہے کہ مذکورہ تمام تنظیموںکا تعلق پاکستان سے ہے اور ان کا افغانستان کی طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK