فوجی اہلکاروں کے نام جاری میمو کے سبب صورتحال پر کئی طرح کے سوالات
EPAPER
Updated: January 14, 2021, 11:56 AM IST | Agency | Washington
فوجی اہلکاروں کے نام جاری میمو کے سبب صورتحال پر کئی طرح کے سوالات
بیس جنوری کو نومنتخب امریکی صدر کی حلف برداری کے دوران دوبارہ ہنگامہ آرائی کے خدشات کے پیشِ نظر امریکی فوجی قیادت نے فوجی اہلکاروں اور سروس ممبرز کو تحریری میمو جاری کیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ فوج آئینی اور جمہوری عمل میں کسی صورت مداخلت نہیں کرے گی۔فوجی قیادت کا کہنا ہے کہ ۶؍ جنوری کو کیپٹل ہل میں جو کچھ ہوا وہ غیر جمہوری اور مجرمانہ فعل تھا۔ آزادیٔ اظہار کسی کو تشدد کی اجازت نہیں دیتا۔اس میمو میں امریکی مسلح افواج کے تمام سربراہان کے دستخط موجود ہیں۔
میمو میں کہا گیا ہے کہ جو بائیڈن نو منتخب امریکی صدر ہیں اور وہ ۲۰؍ جنوری کو صدارت کا حلف اُٹھا رہے ہیں۔ کانگریس کی عمارت پر ۶؍جنوری کو ہو ئے حملے کے بعد دارالحکومت واشنگٹن میں سیکوریٹی بڑھا دی گئی ہے۔اس غیر معمولی میمو میں مسلح افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل مارک ملی کے دستخط بھی موجود ہیں۔اس میمو کو اس یادہانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس میں فوج پر واضح کیا گیا ہے کہ آئینی عمل میں کسی طور مداخلت نہیں کی جائے گی۔یہ میمو ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پولیس اور سیکوریٹی محکمے `کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کے دوران موجودہ اور سابق فوجی اہلکاروں کے کردار کی بھی جانچ کر رہے ہیں۔البتہ، یہ پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ۶؍ جنوری کی ہنگامہ آرائی میں کچھ سابق فوجیوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ تاہم ابھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ حاضر سروس فوجی اہلکار بھی ان ہنگاموں میں ملوث تھے یا نہیں۔
عراق جنگ میں خدمات سرانجام دینے والی سابق فوجی افسر سینیٹر ٹیمی ڈک ورتھ نے بھی ایف بی آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ ۶؍ جنوری کی ہنگامہ آرائی میں سابق یا موجودہ فوجی افسران یا اہلکاروں کی نشان دہی کی جائے۔ البتہ، فوجی قیادت کی جانب سے اہلکاروں کو بھجوائے گئے میمو میں ۶؍ جنوری کو کسی فوجی مداخلت کو حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔میمو میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم نے ۶؍جنوری کو کیپٹل ہل میں وہ مناظر دیکھے جو قانون کی حکمرانی کے منافی تھے۔ آزادیٔ اظہار اور لوگوں کے جمع ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تشدد اور بغاوت پر اُکسایا جائے۔‘‘میمو میں کہا گیا ہے کہ’’ بطور سروس ممبر ہمیں اپنے ملک کے آئین کی حمایت اور دفاع کرنا ہے۔‘‘ اس میمو سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ٹرمپ حامیوں نے دوبارہ توڑ پھوڑ کی یا خود ٹرمپ نے انتقال اقتدار ہی سے انکار کر دیا تو کیا ہوگا؟ اگر پولیس اور سیکوریٹی کے ہاتھ سے معاملہ نکل گیا، کیا تب بھی فوج خاموش کھڑی رہے گی؟