Inquilab Logo

افغانستان میں امریکی مشن ۳۱؍ اگست تک ختم کرنے کااعلان

Updated: July 10, 2021, 12:41 PM IST | Agency | Washington

امریکہ کے صدر نےکہا کہ ہم ۲۰؍ سال کے دوران وہاں اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ، اب افغان عوام اور لیڈروں کو خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا

Joe Biden.Picture:INN
جو بائیڈن۔تصویر :آئی این این

مریکہ کے صدر جو بائیڈن نے  اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کا فوجی مشن ۳۱؍ اگست کو ختم ہو جائے گا۔انہوں نے گزشتہ روز وہائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکی فوجیوں کے تحفظ کے پیش نظر افغانستان میں امریکہ کا فوجی مشن۳۱؍ اگست تک مکمل کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں جنگ کو سمیٹنے  کیلئے اپنی انتظامیہ کی کوششوں سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان کی موجودہ سیکوریٹی صورتحال صرف اس بات کی  نشاندہی کرتی ہے کہ وہاں امن و امان کے قیام  کیلئے  ایک سال نہیں بلکہ غیر معینہ مدت تک رہنا پڑے گا جس کا اب امریکہ متحمل نہیں ہوسکتا۔ بائیڈن نے کہا کہ  ہم افغانستان کی قومی تعمیر کیلئے نہیں گئے تھے۔ ۲۰؍ سال کے دوران امر یکہ  افغانستان کے لئے جو کچھ کرسکتا تھا اس نے کیا اور اب افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ ازخود کرنا ہوگا، افغانستان کے  لیڈروں کو بھی اکٹھا ہو کر مستقبل کی جانب بڑھنا ہو گا۔ تاہم امر یکہ افغانستان کی مدد کرتا رہے گا۔ افغانستان میں طالبان کے بڑھتے اثر و رسوخ کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال کو جوبائیڈن نے نظر انداز کیا لیکن وہاںامریکی فوجی آپریشن  میں توسیع کا مطالبہ کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے  بائیڈن نےکہا کہ افغانستان میں مزید امریکی فوجی رکھنے سے وہاںکے مسائل حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔ مَیں کسی معقول توقع کے بغیر امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغان جنگ میں دھکیلنا نہیں چاہتا اور نہ ہی کسی کو  وہاں بھیجنے کا خواہش مند ہوں۔ انہوں نے اپنے اس اقدام کی مخالفت کرنے والوں سے  سوال کرتے ہوئے انہوںکہا کہ آپ اپنے کتنے ہزار مزید بیٹوں اور بیٹیوں کو خطرے میں ڈالنا چاہتے ہیں؟
  صدراپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا مشن   اسی وقت مکمل ہو گیا تھا جب ہم نے اسامہ بن لادن کو ڈھونڈ نکالا تھا۔افغانستان میں امریکی افواج کے حملے اور دوعشرے سے موجودگی کا مقصد امریکی سرزمین پر نائن الیون جیسے کسی دوسرے حملے کو روکنا تھا اور یہ ہدف ہم حاصل کرچکے ہیں۔اب  اس خطے سے دہشت گردی نہیں پھیل ر  ہی  ہے۔ اس لئے اب امریکہ کو دیگر عالمی چیلنجز پر اپنی توجہ مبذول کرنی ہوگی۔
 صدر بائیڈن نے افغانستان میں طالبان کا مکمل قبضہ ہونےکے امکان سے متعلق کہا کہ انہیں امریکی حمایت یافتہ افغان  فوج  پر اپنی حکومت کا دفاع کرنے کی صلاحیت پر بھروسہ ہے۔جو بائیڈن نے خطے کے دیگر ممالک سے  بھی مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں فریقین کے درمیان ایک جامع سیاسی تصفیہ کیلئے مدد کریں۔ امریکی صدرنے اپنے خطاب میں افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔  قابلِ غور ہے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا متعلق  یہ جو بائیڈن نے  اب تک کا نہایت واضح اور تفصیلی  موقف  ظاہر کیاہے۔ ذرائع کے مطابق اس اعلان سے قبل صدر بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس نے افغانستان سے فوجیوں کے انخلا سے متعلق قومی سلامتی کے عہدیدواروں سے  اس صورتحال پر گفتگو کی تھی۔ اس سے قبل وہائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے کہا تھا کہ صدر جوبائیڈن کا ماننا ہے کہ اس ۲۰؍ سالہ جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔  امر یکہ  افغانستان کے تنازع کو سفارتی بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتا ہے اور وہ فوجی انخلا کے بعد وہاں سفارتی اور انسانی ہمدردی کے کاموں سے متعلق اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ بائیڈن کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب  گزشتہ روز برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے  بھی کہا تھا کہ برطانیہ کی بیشتر فوج افغانستان سے  لوٹ چکی ہے۔جانسن نے برطانوی پارلیمان میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں نیٹو کے مشن پر مامور تمام برطانوی فوجی وطن پہنچ رہے ہیں اور ان میں سے بیشتر وہاں سے نکل چکے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ کسی کو بھی پچھلے  ۲۰؍ برسوں میں وہاں کی جانے والی کوششوں کے ثمرات  پر شک نہیں کرنا چا ہئے۔ ہم آج کی حقیقی صورتحال کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ وہاںاب حالات پہلے کے مقابلے میں `بہت مختلف ہیں۔  واضح رہے کہ نیٹو کے دیگر رکن ممالکنے بھی افغانستان سے اپنی فوج کا انخلاء مکمل کرلیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK