حسن روحانی کے مطابق دنیا کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دبائو ڈالنا کار آمد نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: November 14, 2020, 3:45 AM IST | Tehran
حسن روحانی کے مطابق دنیا کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دبائو ڈالنا کار آمد نہیں ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہےکہ امریکی حکومت کی تہران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنےکی پالیسی جلد ہی ختم ہونے والی ہے، تاہم انہوں نے اپنے اس دعوے کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے۔روحانی نے جمعرات کے روز اپنے ریمارکس میں کہا کہ امریکہ ، یورپ اور دنیا کے دوسرے مقامات سے آنے والے تمام اشارے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دنیا کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ بیکار ہے اور یہ دباؤ اب ختم ہونے والا ہے۔جوبائیڈن کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی روزانہ کی بنیاد پر امریکی پالیسی میں تبدیلی کے امکانات پر بات کرتے نظر آرہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ایران کے حوالے سے سخت موقف پر مبنی پالیسی ختم ہونے والی ہے۔
موجودہ اور سابق امریکی سرکاری عہدے داروں کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق قوانین کے تحت پابندیوں کو دوبارہ عائد کرنے سے انہیں اٹھانا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ اس سے قبل بدھ کے روز ایرانی صدر نے اعلان کیا کہ وہ تہران سے پابندیاں ختم کرنے کے کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ان کا اشارہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد اگلے امریکی انتظامیہ سے مذاکرات کیلئے اپنی تیاری کو ظاہر کرتا ہے۔تاہم ایران کے متشدد اور سخت گیر حلقوں کی طرف سے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دینے پر روحانی کو سخت تنقیدوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایرانی صدر نے کہا تھا کہ امریکہ کی نئی انتظامیہ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کرے۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ بات چیت کی بحالی کا بھی عندیہ دیا تھا تاہم انہیں سخت گیر مذہبی حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ادھر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات سے انکار کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو درپیش معاشی اور اقتصادی مشکلات بد انتظامی کا نتیجہ ہیں امریکی پابندیوں کا اثر نہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی طرف سے ایران کو معاشی دبائو کے ذریعے اپنے سامنے جھکانے کا منصوبہ بری طرح ناکام رہا ہے۔ واضح رہے کہ ایران پر عائد نیوکلیئر پابندی گزشتہ اکتوبر میں ختم ہو چکی ہے لیکن امریکہ نے یہ پابندی نہیں ہٹائی ہے اور اس کے زیر اثر کام کرنے والے ممالک کو بھی اس پابندی کو قائم رکھنے کیلئے بھی آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حال ہی میں ہوئے صدارتی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کو شکست ہو چکی ہے جن کی وجہ سے یہ پابندیاں عائد ہوئی تھیں اور جوبائیڈن اقتدار میں آنے والے ہیں جو پہلے ہی ایران کے ساتھ نیو کلیئر معاہدے پر آمادگی ظاہر کر چکے ہیں ۔ ایسی صورت میں اس بات کی امید بڑھ گئی ہے کہ امریکہ کا ایران کے تئیں رویہ تبدیل ہو۔