Inquilab Logo

یوپی پولیس کے سبب دنیا بھرمیں ملک کی بدنامی ہورہی ہے

Updated: January 28, 2020, 11:20 AM IST | Agency | Lucknow

شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)اورا ین آر سی مخالف مظاہرین کیخلاف پولیس کریک ڈائون پر ہائی کورٹ نے سخت رخ اپناتے ہوئے پیر کو ریاستی حکومت سے کہا کہ وہ اس معاملے میں اب تک کی گئی تمام کارروائیوں اور تحقیقات کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔

الہ آباد ہائی کورٹ ۔ تصویر : آئی این این
الہ آباد ہائی کورٹ ۔ تصویر : آئی این این

 لکھنؤ : شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)اورا ین آر سی مخالف مظاہرین کیخلاف پولیس کریک ڈائون پر ہائی کورٹ نے سخت رخ اپناتے ہوئے پیر کو ریاستی حکومت سےکہا کہ وہ اس معاملے میں اب تک کی گئی تمام کارروائیوں اور تحقیقات کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ 
 ۲؍ رکنی بینچ نے سخت تبصرے میں کہا کہ یوپی پولیس کے سبب دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہورہی ہے اور یوپی یونین ہمارے خلاف قراداد منظور کررہا ہے۔ فاضل ججوں نے کہا کہ ہم سب ایک سول سوسائٹی کا حصہ ہیں، اس لئے ہماری حکومت اور پولیس کا رویہ بھی مہذب ہونا چاہئے۔ عدالت نے ایف آئی آراور پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تفصیل بھی مانگی ہے۔ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دی ہے کہ متاثرہ ا ہل خانہ کو پوسٹ مارٹم رپورٹ فراہم کی جائے۔ معاملے کی اگلی سماعت ۱۷؍ فروری کو ہوگی۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے پیر کوسی اے اے اوراین آر سی مخالف مظاہرین کیخلاف پولیس کریک ڈائون  سے متعلق دائر عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے سخت رخ اپنایا ہے۔
  بامبےہائی کورٹ کےوکیل اجے کمار ایڈوکیٹ کی ای میل کو پی آئی ایل مان کر اور دیگر ۷؍ عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئےعدالتی بنچ نے ریاستی بی جے پی حکومت اس معا ملے میں اب تک کی تمام کارروائیوں اور تحقیقات کی تفصیل عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
  پیر کو عدالت  کے دوست فرمان نقوی کے علاوہ سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء محمود پراچہ اور کالن گونزالوز بھی پیش ہوئے۔گزشتہ دنوں ایڈوکیٹ اجے کمار کی ا ی میل پرجس میں انہوں نے سی اےا ے  اوراین آر سی معاملوں میں مظاہرین کیخلاف کریک ڈائون پر مبنی بین الاقوامی اخبارات ’نیویارک ٹائمز‘ اور ’ دی گارجین‘کی رپورٹ بھیجی تھی،کا نوٹس لیتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دنوں سید فرمان نقوی کو ’عدالت دوست‘مقرر کیا تھا۔
 پیر کو چیف جسٹس گووندماتھراور جسٹس سدھارتھ ورما پر مشتمل بنچ اسی ای میل کو پی آئی ایل مان کر اور اس کے ساتھ اس معاملے میں دائر باقی عرضیوں پر  سماعت کررہی تھی۔
 ایڈوکیٹ فرمان نقوی نے ’انقلاب‘ کو بتایا کہ فاضل ججوں کے سامنے انہوں نے سوالات اٹھائے تھے کہ جو ۲۳؍افراد مارے گئے ہیں ان میں سے صرف ایک بچہ  بنارس میں بھیڑ میں کچل کر مراتھا باقی تمام مہلوکین کی کمر اور سر کے درمیان   گولی لگی تھی ، کیا پولیس یہ بتائے گی کہ یہ گولی کیسے لگی اور کس نے چلائی تھی؟
 ان کے مطابق میرا دوسرا سوال یہ تھاکہ تمام مہلوکین کے اہل خانہ کو پوسٹ مارٹم رپورٹ کیوں نہیں دی گئی اور کب تک دی جائے گے؟  ایڈوکیٹ نقوی کے بقول، ان کے سوالات کے جواب میں ریا ست کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل منیش گوئل نے دلیل دی تھی کہ جو بھی مارےگئے ہیں وہ مظاہرین کی گولی  ہی کا نشانہ بنے تھے، پولیس نے کسی کو نہیں مارا ہے۔اس پر فاضل ججوں نےا ن سے پوچھا کہ ایک طرف آپ کہہ رہےہیں کہ مظاہرین نےپتھر بازی کرکے کئی پولیس اہلکاروں کو زخمی کردیا ، دوسری طرف کہہ رہے ہیں کہ مظاہرین  نے  ایک دوسرےکو گولی ماردی، ایسا کیسے ہوسکا ہے؟انہیں پولیس پر غصہ تھا تو پولیس پر گولی چلاتے،ایک دوسرے پر کیوں؟
  عدالتی بنچ نے منیش گوئل کو واضح  ہدایت دی ہے کہ آپ اگلی سماعت پر پولیس کارروائی، تحقیقات، پوسٹ مارٹم رپورٹ،ایف آئی آر اور دیگر تفصیلات لے کر آئیں۔ فرمان نقوی  کے مطابق  عدالت نے سخت تبصرہ بھی کیا۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ پولیس مظاہرین کا کھاناضبط کررہی ہے، کمبل چھین رہی ہے، ان کارروائیوں سے کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟فاضل ججوں نے کہا کہ یوپی پولیس کے ایسی ہی کارروائیاں ملک کی دنیا بھر میں بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔آج یورپی یونین ہمارے خلاف قرارداد منظور کررہا ہے ۔اس لئے، پولیس اپنی  کارروائیوں کو ریکارڈ پر لائے اور ہمیں فراہم کرے۔ عدالتی بنچ نےا گلی سماعت کےلئے ۱۷؍فروری کی تاریخ مقرر کی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK