Inquilab Logo

جامعہ میں پولیس کے تشدد کے متاثرین انصاف کے منتظر

Updated: January 03, 2021, 2:01 PM IST | Agency | New Delhi

حملے میں ایک آنکھ سے محروم ہوچکےایل ایل ایم کے طالبعلم کے مطابق اس واقعے کے ایک سال بعد بھی ملزمین پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے

Delhi Protest
پولیس کی بربریت کے خلاف یونیورسٹی اور متعدد مقامات پر احتجاج درج کرایا گیا تھا

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیر  تعلیم محمد منہاج الدین گزشتہ برس جامعہ کی لائبریری میں پولیس کے ذریعے کئے گئے تشدد میں اپنی بائیں آنکھ کی بینائی سے محروم ہونے کے بعد آج بھی پچھلے ایک سال سے انصاف کے منتظر ہے۔ واضح رہے کہ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو یونیورسٹی میں یہ سنگین بربریت کا  معاملہ پیش آیاتھا۔
  واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پارلیمنٹ  تک  مارچ کرنے والے طلبہ اور مقامی باشندوں کا پیچھا کرتے ہوئے پولیس نے جامعہ کیمپس پر شدیدجارحیت کا مظاہرہ کیا تھا  اس  کے نتیجے میں متعدد طلبہ سنگین طور پر زخمی ہو گئے تھے۔ ان میں ایل ایل ایم کےطالبعلم منہاج الدین بھی شامل  تھے۔
 ‘ انڈیا ٹومارو‘ کے سمستی پور کے رہائشی منہاج الدین بطور  لیکچرار برسرروزگار ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے  لاء ڈگری حاصل کی اوراس واقعے کے و قت  وہ اسی یونیورسٹی میں ماسٹر ان لاء کی تعلیم حاصل کررہی  تھے۔اس تکلیف دہ واقعے اور اپنی آزمائش کو بیان کرتے ہوئے منہاج الدین نے کہا کہ  انہوں نے کبھی  تصور بھی نہیں تھا کہ  پڑھائی کے دوران ان پر لائبریری میں اس طرح  حملہ کردیا جائے گا۔ یونیورسٹی  انتظامیہ نے اس واقعے میں ذمہ داری  کا مظاہر نہیں کیا کیونکہ طلبہ  کے تحفظ کی پوری ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ کے ہاتھ میں تھی۔ اُس  دن  مَیںلائبریری میں  ایل ایل ایم کی  پڑھائی  میں مصروف  تھا تب اچانک طلبہ پر حملہ ہوا تھا۔ اس واقعے کے ایک سال بعد بھی یہ اس بہیمانہ حرکت کرنے والے مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ تمام متاثرین نے معصوم طلبہ پر غیر انسانی حملے کی شکایت کی    اور اس حملے میں ملوث  ملزم پولیس اہلکاروں کے خلاف فوجداری کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن مجسٹریٹ نے اسے مسترد کردیا تھا۔ آج تک  متاثرین کے حق میں ان کےپاس کوئی آرڈر نہیں ہے۔
 اس رویے پر منہاج کا کہنا  ہے کہ انصاف   یہ اصول انوکھا ہے کہ ملزمین خود اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں ۔پولیس ہی نے طلبہ پر حملہ کیا اور اس کی ملزم پولیس خود اسی معاملے میں تفتیش کار ہیں۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آج تک تحقیقات میں کوئی انصاف کیوں نہیں کیا گیا۔
 منہاج الدین نے پولیس کے طرز عمل کو انسانیت سوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالتیں بھی انسانیت کے خلاف اس طرح کے سنگین جرم از خود  نوٹس نہیں  لیا ۔ یہ  رجحان مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اس سے  سماج کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ یہ شرمناک بات ہے کہ پولیس اہلکاروں نے طلبہ پر حملہ کیا، طالبات کے ساتھ بھی بدسلوکی اوربدتمیزی کی ۔اس دوران  پولیس نے پڑھائی میں مصروف  طلبہ  پر آنسو گیس کے گولے داغے  اور ان پر بے جا  تشددکیا۔
   منہاج نے الزام لگایا کہ طلبہ کے خلاف اس اچانک مجرمانہ آپریشن کے دوران ان میں سے( پولیس) کسی نے شناختی کارڈ نہیں پہنا ہوا تھا لیکن  وہ ہیلمٹ  پہنے ہوئےتھے تاکہ ان  کے غیرقانونی حملے  میں ان کی شناخت نہ ہو سکے۔
  منہاج نے روتے ہوئے بتایا کہ اس حملہ نے مجھے حیرت   میں ڈال دیا۔ مَیں لائبریری کے خصوصی پوسٹ گریجویٹ کے طلبہ کیلئے مختص اُس حصے میں پڑھائی میں مصروف تھا، جہاں عام طلبہ کو بھی داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ تب اچانک پولیس   وہاں داخل ہوئی۔ مجھ  پر اور دیگر طلبہ پر حملہ  کردیا۔ مَیں اس دھاوے اور لاٹھی چارج کی  بارش وجہ سے نیچے گر گیا  میری بائیں آنکھ زخمی ہو گئی اور دیگر طلبہ کو بھی شدید چوٹیں آئی تھیں۔
  منہاج کے مطابق پولیس  کے اس مظالم کے خلاف  ہماری قانونی کارروائیوں اور ایف آئی آرز کو ان  سنا کردیا گیا۔ مَیںنے ’ایمس ‘پولیس چوکی اور ایس ایچ او سے شکایت کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر میں  ہم نے اس وحشیانہ حملے کے خلاف انصاف کے حصول کے لئے عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ہم نے دہلی کورٹ  میں مقدمہ درج کیا ہے۔ اس میں مجرم پولیس اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں یونین آف انڈیا ، دہلی پولیس اور داخلی امور  فریق بنائے گئے ہیں لیکن یہ کیس ابھی تک زیر التوا ہے۔  یونیورسٹی کی جانب سے پولیس کے خلاف درج مشترکہ ایف آئی آرز  کا بھی اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے۔
  منہاج نے بتایا کہ جامعہ ایف آئی آر کیس میں  مجھے دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے ایک نوٹس دیا اور مجھے اپنے کیس کی میڈیکل رپورٹس کے ساتھ چونکیاپوری کرائم برانچ میں بیان طلب کیا۔ اس پر مَیں نے تمام دستاویزات پیش  کئے لیکن آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
آج تک کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا
 انتظامیہ نے اس سانحہ  کے ایک سال مکمل ہونے کے باوجود منہاج الدین سمیت متاثرین کو کوئی معاوضہ نہیں دیا۔ اس حملے  نے  کئی طلبہ کی زندگیوں کو شدید  متاثر کیا ہے  اور کچھ متاثرین کو  عمر بھی کیلئے معذور کردیا ہے۔ منہاج نے کہا  کہ اس حملے میں مَیں  اپنی  ایک  آنکھ مستقل طور پر کھو دی ہے اور پھر بھی مجھے اب تک  جامعہ اور حکام کی جانب سے کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔
  منہاج کی والدہ حشمت نسرین نے ۲۸؍ جنوری ۲۰۲۰ءکو جامعہ وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کو بھی اپنے بیٹےکو معاوضے دینےکے لئے  ایک خط لکھا تھا لیکن ان کے بقول آج تک کچھ نہیں ہوا۔اہل خانہ نے اپنے بیٹے کے لئے وائس چانسلر سے نوکری کی درخواست بھی کی تھی لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
  جامعہ وائس چانسلر کو لکھے گئے خط میں  طلبہ کے تحفظ کے لئے یونیورسٹی کی ذمہ داریوں پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔خط میں کہا گیا کہ طلبہ کی سیکوریٹی   یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے لیکن  انتظامیہ نے ا س کیلئے کچھ نہیں کیا۔اس لاپروائی   کے سبب  ان کا بیٹامستقل طور پر اپنی بینائی کھو چکا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK