Inquilab Logo

سال۲۰۲۰ء میں سی اے اے اور این آرسی کےخلاف سخت احتجاجی مظاہرے، ممبئی باغ احتجاج

Updated: December 28, 2020, 11:42 AM IST | Saeed Ahmed Khan

سال۲۰۲۰ء میں اپنی مختلف تلخ اور شیریں یادوں کے حوالے سے عوام الناس کے ذہنوں میں محفوظ رہے گا۔ اس دوران متعدد منفی اور مثبت پہلو سامنے آئے اور لوگوں نے اس پر کھل کر اظہار خیال کیا تو بہت سی باتوں کو نظر انداز کیا۔ اسی حوالے سے رواں سال کی کچھ جھلکیاں ذیل میں درج کی جارہی ہیں ۔

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

سال۲۰۲۰ء اپنی مختلف تلخ اور شیریں یادوں کے حوالے سے عوام الناس کے ذہنوں میں محفوظ رہے گا۔ اس دوران متعدد منفی اور مثبت پہلو سامنے آئے اور لوگوں نے اس پر کھل کر اظہار خیال کیا تو بہت سی باتوں کو نظر انداز کیا۔ اسی حوالے سے رواں سال کی کچھ جھلکیاں  ذیل میں درج  کی جارہی ہیں ۔ 
 آئین مخالف سے اے اے اور این آر سی 
قوانین کے خلاف عوام سینہ سپر ہو گئے
 حکومت کی جانب سے بنائے گئے سی اے اے ، این پی آر اور این آر سی قوانین کے خلاف بلاتفریق مذہب لوگ میدان میں آئے اور ۶؍ جنوری کی شب میں خواہ گیٹ وے آف انڈیا ہو، اگست کرانتی میدان ہو ، تاریخی آزاد میدان ہو، ناگپاڑہ جنکشن ہو یا ممبئی شہر اور مضافات کے تمام مسلم علاقے، کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں عوام نے ان سیاہ قوانین کے خلاف کھل کر آواز نہ بلند کی ہو۔ عوام کی اس جرأت اور بے باکی پر الگ الگ پولیس اسٹیشنوں میں معاملات بھی درج کئے گئے  اور اب بھی وہ  معاملات چل رہے ہیں، اس کے باوجود عوام نے زبردست اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا اور اپنی طاقت کے ذریعے حکومت کو بھید بھاؤ پر مبنی آئین مخالف ان قوانین کے تعلق سے باز رہنے پر مجبور کیا۔
  ۲۶؍  جنوری وہ تاریخ ہے جب شاہین باغ کی حمایت میں ممبئی کی پرعزم خواتین نے مورلینڈ روڈ پر’ ممبئی باغ‘ میں احتجاج شروع کر دیا ۔ ان کی حمایت میں مضافات کی خواتین بھی اس میں شریک ہوئیں اور ان کی آواز کو تقویت دینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد ممبرا اور دیگر علاقوں میں بھی ’ممبئی باغ‘ شروع کیا گیا اور باحوصلہ خواتین نے اس میں حصہ لے کر حکومت کے آئین‌ مخالف قدم کو روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ ان مظاہروں میں اہم شخصیات نے حوصلہ مند خواتین کی رہنمائی کی، انہیں سی اے اے، این آر سی کے بارے میں سمجھایا اور پر امن احتجاج کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ۔ چنانچہ ۲۰۲۰ء کے تعلق سے یہ ناقابل فراموش بلکہ یادگار احتجاج بن گیا۔
مساجد، مدارس اور عصری تعلیمی ادارے بند
  رواں سال میں کورونا کے سبب پہلی دفعہ انسانی تاریخ میں ایسا ہوا جب تقریبا ً ۸؍ ماہ  تک مساجد میں عوام الناس کیلئے عبادت کا سلسلہ پوری طرح سے موقوف رہا حتیٰ کہ جمعہ ، تراویح اور عیدین بھی گھروں میں ہی ادا کرنی پڑی‌۔۲۴؍ مارچ سے شروع ہونے والا یہ کربناک اور قلبی و روحانی اعتبار سے انتہائی تکلیف دہ مرحلہ۱۶؍ نومبر کو اس وقت ختم ہوا جب حکومت نےمساجد اور دیگر   مذہبی مقامات کھولنے کا اعلان کیا۔ چنانچہ کچھ شرائط کے ساتھ رحمٰن کے بندوں نے  پہلے کی طرح  اپنی پیشانی ٹیک کر اللہ کے گھر کو آباد کیا۔اسی طرح مدارس میں تعلیم کا سلسلہ اب بھی موقوف ہے اور ۸؍ماہ سے مدارس میں پوری طرح سے سناٹا ہے۔ کورونا سے پیدا شدہ حالات کی سبب مدارس کے سفراء مالی‌ فراہمی کے سلسلے میں عروس البلاد یا ملک کے دیگر شہروں میں بھی نہ جاسکے جس سے مدارس کا زبردست مالی نقصان ہوا اور اساتذہ کی تنخواہیں بھی رک گئیں۔ اس کے برخلاف عصری تعلیمی اداروں میں دیوالی کے بعد تعلیمی سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا اور آن لائن تعلیم شروع کرکے طلبہ کے نقصان کا ازالہ کرنے کی کسی قدر کوشش کی گئی۔  
لاک ڈاؤن میں بے مثال انسانی خدمات 
 رواں سال اب تک لاک ڈاؤن کے اثرات سے پوری طرح سے ابھر نہیں‌ سکا‌ ہے۔ ۲۲؍ مارچ سے شروع ہونے والے لاک ڈاؤن میں ضرورت مندوں کی مدد کے لئے حکومت کی جانب سے راشن اور کھانے پینے کی اشیاء کی تقسیم تو کی ہی گئی،  مذہبی  ، ملی ، سماجی اور رفاہی تنظیموں کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اپنی استطاعت کے مطابق ضرورت مندوں کی مسلسل مدد کے لئے نہ صرف دست تعاون دراز  کیا اور ان کی خبرگیری کی بلکہ اس دوران انسانی بنیا دوں‌ پر  ایسی خدمات انجام دیں جس کی مثال ملنا مشکل ہے ۔ 
سب سے کم حج درخواستیں 
 کورونا اور لاک ڈاؤن نے ہر شعبے کو بری طرح متاثر کیا۔چنانچہ حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے لئے بھی حالات اور رکاوٹیں آئیں۔ حج فارم کا اجراء۷؍نومبر کو کیا گیا لیکن آخری تاریخ۱۰ ؍ دسمبر تک محض۴۳؍ہزار درخواستیں ہی موصول ہوئیں اور پھر۱۰؍ جنوری تک تاریخ میں توسیع کی گئی۔ حج کمیٹی کی تاریخ میں اب تک موصول ہونے والی درخواستوں کی یہ سب سے کم تعداد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کورونا‌ کے سبب مختلف پابندیاں، عمر کی قید اور سفر حج خرچ میں زبردست اضافہ ہے۔
قبرستانوں میں تدفین کے مسائل
  کورونا‌ کے سبب ہونے والی اموات کی کثرت کے سبب قبرستانوں میں تدفین کے سنگین مسائل پیدا ہوئے ۔کچھ قبرستانوں میں‌ تو گنجائش نہ ہونے کا بورڈ بھی لگادیا گیا۔ کورونا سے ہونے والی ایک شخص کی موت کے بعد اسے  مالونی  قبرستان میں تدفین کی اجازت نہ دیئے جانے کے سبب اسے جلادیا گیا جس پر زبردست صدائے احتجاج بلند کی گئی اور لوگوں میں‌ شدید ناراضگی پھیل گئی۔ اسی طرح سب سے پہلے کووڈ باڈی دفنانے کے لئے مرین لائنس بڑا قبرستان میں ایک حصے کو مختص کیا گیا۔ اس کے علاوہ کووڈ‌باڈی کو بغیر برگے اور چٹائی کے یوں ہی دفن کیا جارہا تھا اور اس کے لئے بی ایم سی کی ہدایات کا حوالہ دیا گیا تھا لیکن بی ایم سی ہیلتھ ڈپارٹمنٹ سے معلومات‌ حاصل کرنے پراس نے پلہ جھاڑ لیا اور کہا کہ ہم‌ نے صرف احتیاط کی بات کہی ہے، بقیہ تدفین کس طرح سے کرنی ہے، یہ آپ کے اپنے مذہبی معاملات ہیں۔ یہ پریشانیاں اور مسائل بھی ۲۰۲۰ء  کے حوالے سے ممبئی کے شہریوں کے ذہنوں میں محفوظ رہیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK