Inquilab Logo

سوڈان کے دارفر میں اب بھی تشدد جاری، مہلوکین کی تعداد ۱۵۹؍ ہوگئی

Updated: January 22, 2021, 9:52 AM IST | Agency | Washington

گزشتہ ۴؍ دنوں سے نسلی تعصب اور انتقامی کارروائی کے نام پر مسلسل قتل وغارت گری جاری، فوج بھی تشدد پر قابو پانے سے قاصر

Violence - Pic : INN
تشدد ۔ تصویر : آئی این این

 سوڈان کے مغربی دارفر  علاقے میں مقامی قبائل کے درمیان ہونے والی لڑائیوں میںایک روز قبل تک جاری تھی جس میں  ہلاکتوں کی تعداد ۱۵۹؍ تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ ۲۰۰؍  سے زیادہ افراد زخمی بتائے جا رہے  ہیں۔ کمیٹی آف ویسٹ دارفر ڈاکٹرس نے بتایا ہے کہ مختلف نسلی گروپوں کے درمیان ہونے والی یہ لڑائیاں کم از کم تین روز سے جاری ہیں۔
  یاد رہے کہ مغربی دارفر میں تشدد کی تازہ لہر کا آغاز گزشتہ سنیچر کو ہوا تھا جب  ایک عرب قبیلے کے شخص کا وہاں قتل ہو گیا جسے رپورٹ کے مطابق ایک افریقی قبیلے مساک  سے تعلق رکھنے والے  ایک شخص نے  آپسی تنازع میں مار دیا تھا۔جس کے بعد مسلح عرب انتہا  پسندوں نے بدلہ لینے کے لئے اگلے روز منظم انداز میں حملہ کیا، جس کا ہدف کیرنڈگ کا پناہ گزینوں کا کیمپ تھا جہاں مساک قبیلے کے افراد رہ رہے ہیں۔ اس کے بعد سے دونوں جانب سے ایک دوسرے پر مسلسل  حملے ہو رہے ہیں اور الزامات لگائے جا رہے ہیں۔
 ایک اور واقعہ میں پیر کے روز ریاست جنوبی دارفر میں افریقی فلاتا قبیلے اور عرب قبیلے رزیقات کے اراکین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس میں سوڈان کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطا بق ۵۰؍ سے زیادہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ اندرون ملک بے گھر ہونے والے ایک شخص محمد راجا نے جو حملے کے وقت کیرنڈنگ کیمپ میں رہائش پذیر تھا، بتایا ہے کہ یہ حملہ سنیچر کے روز ہوا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ پیر کے روز مغربی دارفر میں تازہ جھڑپیں شروع ہوئیں لیکن اب صورت حال پہلے کے مقابلے میں پرسکون  ہے۔
 محمد راجا کا کہنا تھا کہ کیمپ میں رہائش پذیر ہزاروں افراد کو، جنہیں اپنی جانیں بچانے کے لئے کیمپ سے بھاگنا پڑا تھا، خوراک اور چھت کی اشد ضرورت ہے۔اس نے بتایا کہ مسلح حملہ آور منگل کے روز تک پناہ گزین کیمپ پر قابض تھے۔ اور مسلح افراد کا پورے کیمپ پر قبضہ تھا۔ انہوں نے ہماری فصلوں اور اناج کو  جلا ڈالا ہے۔ ہم کیمپ میں واپس نہیں جا سکتے، وہاں پولیس اور فوج بھی نہیں جا سکتی۔ واضح رہے کہ دارفر سے براہ راست خبریں موصول نہیں ہو رہی ہیں اس لئے ان کے پہنچنے میں کافی تاخیر ہو رہی ہے۔
 یہاں اقوام متحدہ اور افریقی یونین کا امن مشن گزشتہ سال ۳۱؍دسمبر کو مکمل ہو گیا تھا، جس کے بعد امن مشن نے دارفر سے اپنے فوجی دستے نکال لئے تھے۔امن مشن کے ترجمان اشرف عیسیٰ کا کہنا ہے کہ فوج  نکالنے کے بعد سوڈان کی حفاظتی افواج کو علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لینا چاہئے تھا۔ اب وہاں امن و امان قائم رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔ واضح رہے کہ ان ہلاکتوں پر اقوام متحدہ بھی تشویش ظاہر کرچکا ہے۔

africa Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK