Inquilab Logo

شیوسینا کس کی؟ الیکشن کمیشن میں زوردار بحث، دلائل پیش

Updated: January 21, 2023, 1:52 PM IST | New delhi

ادھو گروپ کے وکیل کپل سبل نےشندے گروپ کے ہر دعوے کے بخیے ادھیڑ دئیے ، جلد فیصلہ متوقع

photo;INN
تصویر :آئی این این

  شیو سینا کس کی ہے ؟ اس معاملے پر الیکشن کمیشن میں سماعت جاری ہے جس میں  ادھو ٹھاکرے گروپ کے وکیل کپل سبل نے زوردار دلائل پیش کرتے ہوئے شندے گروپ کے تمام دعوئوں کے بخیے ادھیڑ دئیے ۔ انہوں نے الیکشن کمیشن میں شنوائی کے دوران کہا کہ شندے گروپ کا شیو سینا پارٹی ، اس کے انتخابی نشان او ر اس کی وراثت پر کوئی دعویٰ نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ پارٹی بالا صاحب ٹھاکرے کی بنائی ہوئی ہے اور اس وقت ادھو ٹھاکرے اس کے صدر ہیں۔ جو لیڈران الگ ہوئے ہیں وہ پارٹی چھوڑ کر گئے ہیں ، انہوں نے نہ نئی پارٹی بنائی ہے اور نہ ایسا کوئی دعویٰ کیا ہے بلکہ ان کے پا س نے کوئی مجلس عاملہ ہے اور نہ کوئی صدر ہے۔ ساتھ ہی یہ لوگ صرف  ایک گروپ بناکر پارٹی سے الگ ہوگئے ہیں۔ ان کے خلاف تادیبی کارر وائی بھی کی جاچکی ہے۔ ایسے میں کس بنیاد پر وہ اپنی سابقہ پارٹی پر دعویٰ کررہے ہیں ؟ شندے گروپ شیو سینا نہیں ہےبلکہ یہ کوئی الگ ہی گروپ ہے جس نےاپنی سابقہ پارٹی سے غداری کرتے ہوئے  دیگر پارٹی سے ہاتھ ملالیا ہے۔ 
 کپل سبل نےپوچھا کہ کیا ماضی میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ  کسی پارٹی سے کوئی گروپ الگ ہوا تو   اس نےاسی پارٹی پر دعویٰ کردیا اور کیا الیکشن کمیشن نے ایسا کوئی فیصلہ سنایا ہے ؟ کپل سبل جو الیکشن کمیشن میںسماعت میں ہونے والی تاخیر پر خاصے برہم نظر آرہے تھے ، نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اس معاملے پر کمیشن فوری طور پر فیصلہ کرے ۔ اسے موخر نہ کرے کیوں کہ وقت بیت رہا ہے اور دوسرے گروپ کو سرکار میں رہنے کا وقت مل رہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ بی ایم سی کے الیکشن بھی  سر پر ہیں۔ ایسے میں جلد فیصلہ دونوں ہی گروپس کے لئے مفید ثابت ہو گا۔ سبل نے شیو سینا کی وراثت سنبھالنے کے شندے گروپ کے دعوئوں پر کہا کہ جو وراثت بالا صاحب نے قائم کی تھی اسے بخوبی سنبھالنے کا کام ادھو ٹھاکرے کررہے ہیں۔ شندے گروپ کے لوگ نہ بالا صاحب کے قریبی ہیں اور نہ ادھو ٹھاکرے ان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بھی پیدا نہیں ہو تا ہے۔ کمیشن نے دونوں فریقوں کے دلائل پر سماعت مکمل کرلی ہے اور اب دونوں سے تحریری جواب مانگا ہے۔ اس کے بعد فیصلے کا امکان ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK