Inquilab Logo

با رعب لیڈر جتیندر اوہاڑ آخر اتنے جذباتی کیوں ہو گئے کہ استعفیٰ دینے پر آمادہ ہوگئے؟

Updated: November 15, 2022, 11:38 PM IST | Mumbai

جتیندر اوہاڑ کا شمار مہاراشٹر کے مشہور اور با رعب سیاست دانوں میں ہوتا ہے لیکن جب پیر کو انہوں نے اپنی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تو وہ انتہائی بے بس لگ رہے تھے۔

Member of Assembly jitendra awhad
رکن اسمبلی جتیندر اوہاڑ

جتیندر اوہاڑ کا شمار مہاراشٹر کے مشہور اور با رعب سیاست دانوں میں ہوتا ہے لیکن جب پیر کو انہوں نے اپنی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ  دینے کا اعلان کیا تو وہ انتہائی بے بس لگ رہے تھے۔ ہمیشہ جارح انداز میں بات کرنے  والے این سی پی لیڈر میڈیاکے ہر سوال کا جواب انتہائی جذباتی انداز میں دے رہے تھے، ان کی آنکھیں چھلک آئی تھیں اور وہ ٹوٹے ہوئے سے محسوس ہو رہے تھے۔ حالانکہ بات اتنی سی تھی کہ بی جے پی کی ایک خاتون کارکن نے ان پر دست درازی کا الزام لگایا تھا۔ یہ کوئی ایسا الزام نہیں ہے جو کسی سیاستدا ں پر پہلی بار لگا ہو۔ سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر ملک کو بیچنے، دہشت گردوں کا ساتھ دینے  اور عوام کا پیسہ ہڑپ لینے جیسے سنگین ا الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ پھر اوہاڑ  پر جوالزام  لگایا گیا ہے اس کا ویڈیو بھی موجود ہے جس میں واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے کہ ان سے ایک غلطی ہوئی ضرور ہے ( کسی خاتون کو ہاتھ سے چھونا اور ایک طرف کرنا) لیکن ان کا ارادہ وہ نہیں تھا جس کا الزام ان پر لگایا جا رہا ہے۔ جو کچھ ہوا وہ بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے بے ساختہ ہوا۔ جتندر اوہاڑ خود وزیر رہ چکے ہیں اور قانون بہتر طریقے جانتے ہیں پھر آخر ان کی اس بد ظنی کا سبب کیا ہے؟  دراصل بات اتنی سی نہیں ہے جتنی دکھائی دے رہی ہے اور جتیندر اوہاڑ کی ناراضگی کی وجہ بی جے پی کارکن ردا رشید بھی نہیں ہیں جنہوں نے ان پر دست درازی کا الزام عائد کیا ہے۔
  اس پوری کہانی کی شروعات دراصل اتوار کی دوپہر ہی شروع ہو گئی تھی جب کلوا میں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے ہاتھوں ایک پل کا افتتاح عمل میں  آیا۔ افتتاح کے بعد وزیراعلیٰ ، رکن اسمبلی جتیندر اوہاڑ اور علاقے کے رکن پارلیمان شری کانت شندے ( جو کہ ایکناتھ شندے کے بیٹے ہیں) ایک ہی اسٹیج پر موجود تھے۔ جتیندر اوہاڑ میڈیا سے کہہ رہے تھے کہ میں نے اس پل کا مطالبہ اس وقت کیا تھا جب دیویندر فرنویس وزیراعلیٰ تھے۔ یہ پل اب جا کر تیار ہوا ہے۔ اس پر شری کانت شندے نے انہیں ٹوکا کہ لیکن ڈھائی سال جب آ پ کی ( مہا وکاس اگھاڑی کی ) حکومت تھی تب آپ نے کیا کیا ؟  جواب میںجتیند اوہاڑ نے ہنستے ہوئے کہا ’’ ڈھائی سال تو کورونا میں نکل گئے۔‘‘ اس پر ایکناتھ شندے نے بھی  ہنستے ہوئے اوہاڑ کو ایک ہاتھ مارا ، ٹھیک ویسے جیسے دو دوست باتوں باتوں میں ایک دوسرے کو مارتے ہیں۔ لیکن یہ صورتحال جتیندر اوہاڑ کیلئےخجالت والی تھی کیونکہ شری کانت شندے جو ان سے عمر میں کافی چھوٹے ہیں  اور ان کے دوست کے بیٹے ہیں بات بات میں انہیں ٹوک رہے تھے جیسے انہوں نے اوہاڑکو زچ کرنے کی ٹھان رکھی ہو۔ جیسا کہ جتیندر اوہاڑ نے خود میڈیا کو بتایا کہ ایکناتھ شندے سے ان کی بہت پرانی دوستی ہے۔ اور دونوں نے ایک دوسرے کی (سیاسی طور پر) کئی بار مدد کی ہے۔ تھانے کی سیاست میں پردے کے پیچھے کی معلومات رکھنے والے اکثر یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ ایکناتھ شندے کی جیت میں جتیندر اوہاڑ کا ہاتھ ہوتا ہے اور اوہاڑ ایکناتھ شندے کی مدد سے کامیاب ہوتے ہیں۔اتنی قربت کے بعدشری کانت شندے کا یوں جتیندر اوہاڑ کو بار بار ٹوکنا ا صولی اور اخلاقی طور پر معیوب معلوم ہو رہا تھا۔ اس کے بعد شام کو ممبرا میں بائی پاس سے متصل فلائی اوور کا افتتاح کیا گیا۔ اس موقع پر بے تحاشہ بھیڑ تھی۔ یہاں جتیندر اوہاڑ کے کارکنان کثیر تعداد میں موجود تھے اور ان کے ووٹروں اور حامیوں کا بھی جم غفیر موجود تھا۔ لیکن یہاں بھی شری کانت شندے نے اوہاڑ سے بے سبب بحث شروع کردی۔ حتیٰ کہ ایک موقع پر وہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ’’ ہم آپ کو پیسے دیتے ہیں تب آپ کام کرتے ہیں، آیا سمجھ میں؟‘‘ ٹھیک ویسے ہی جیسے کوئی مرتبے میں اپنے سے کم تر اور ناسمجھ آدمی سے بات کرتا ہو۔  یہ صورتحال یقیناً اوہاڑ کیلئے توہین آمیز تھی۔ یاد رہے کہ سیاستداں میڈیا کے سامنے ایک دوسرے پر بڑے سے بڑا الزام لگاتے ہیں لیکن کسی پروگرام میں جب انہیں اسٹیج شیئر کرنا ہو تو وہ پروٹوکول کا پورا خیال رکھتے ہیں اور حفظ مراتب کا لحاظ کرتے ہیں۔ شری کانت شندے بھلے ہی  رکن پارلیمان ہوں لیکن وہ سیاست میں اوہاڑ سے جونیئر ہیں اور اوہاڑ ان کے والد کے دوست ہیں۔یہ سب باتیں وہ جتیندر اوہاڑ کے پارٹی ورکروںکے سامنے اس طرح کر رہے تھے جیسے انہیں ان ورکروں کے سامنے نیچا دکھانا چاہتے ہوں۔اس سے بڑی بات یہ ہے کہ ایکناتھ شندے جو وہاں موجود تھے انہوں نے اشارتاً بھی شری کانت کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔  اس کے ٹھیک بعد جب اوہاڑ وہاں سے رخصت ہونے لگے تو ردا رشید والا وہ معاملہ پیش آیا جس کا ویڈیو وائرل ہو چکا ہے ، جتیندر اوہاڑ کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پروگرام کے بعد کسی کے گھر کھانا کھانے گئے تھے ، وہیں پر ردا رشید کو بھی بلایا گیا اور صبح ردا نے ممبرا پولیس اسٹیشن میں اوہاڑ کے خلاف شکایت درج کروائی۔ یعنی جو کچھ ہوا  وہ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا۔ اوہاڑ دبی زبان میں بار بار یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سیاست میں سازش تو ہوتی  رہتی ہے، چالیں تو چلی جاتی ہیں لیکن دوستی کا پاس رکھا جاتا ہے، مگر ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کے دوست ایکناتھ شندے کی موجودگی میں بلکہ ان کی رضامندی سے ہو رہا ہے حالانکہ شندے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر ہیں  ( یعنی مجبور نہیں ہیں)  بی جے پی اب تک اپنے حریفوں کو جانچ ایجنسیوں کے ہاتھوں دبانے کا کام کر رہی تھی لیکن اب انہیں انہی کے گھر میں ان کے اپنے لوگوں کے سامنے بے عزت کرنے پر اتر آئی ہے اور سیاستدانوں کی مجبوری کا عالم یہ ہے کہ وہ وزیراعلیٰ جیسے طاقتور عہدے پر ہوتے ہوئے بھی اپنے دوست کی مدد نہیں کر پا رہے ہیں۔ جتیندر اوہاڑ کے سیاست سے بدظن ہونے اور استعفیٰ دینے کی فی الحال تو یہی وجہ نظر آ رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK