Inquilab Logo

ملک سےغداری کا قانون ختم کیوں نہیں کردیا جاتا ؟

Updated: July 16, 2021, 9:23 AM IST | New Delhi

چیف جسٹس آف انڈیا نے ’غداریٔ وطن قانون‘ کو جمہوری اداروں کی سرگرمیوں کیلئے خطرہ قرار دیا، کہا کہ’’ اس قانون کا استعمال کرکے کوئی بھی حکومت یا تفتیشی ایجنسی ان سے اختلاف رکھنے والے کسی بھی شخص کو پھنساسکتی ہے ‘‘، یاد دلایا کہ یہ قانون کو انگریزوں کےدور کا سیاہ قانون ہے ، اپوزیشن اور سماجی تنظیموں نے عدالت کے تبصروں کا خیرمقدم کیا

The Supreme Court has made very strong comments on the law of treason.Picture:PTI
سپریم کورٹ نے غداری کے قانون پر نہایت سخت تبصرے کئے ہیں

ملک سے غداری کی تعزیرات ہند کی دفعہ۱۲۴؍ اےکو چیلنج کرنے والی  عرضیوں پر سماعت کے دوران  سپریم کورٹ نے اس قانون کی اہمیت اور ضرورت پر ہی سوال اٹھادیے ۔ ساتھ ہی واضح کیا کہ  یہ انگریزوں کے زمانے کا سیاہ قانون ہے جس کا استعمال مجاہدین آزادی کے خلاف کیا جاتا تھا ۔ اس لئے آزادی کے ۷۵؍ سال بعد بھی ملک کو ایسے سیاہ قانون کی ضرورت کیوں ہے ؟چیف جسٹس آف انڈیا این سی رامنا کی  سہ رکنی بنچ  جس میں جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس رشی کیش رائے بھی شامل تھے ،نے اس معاملے میں ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا اور میجر جنرل(ریٹائرڈ) ایس جی ووم بٹکیرے کی عرضیوں پر آن لائن سماعت کرتے ہوئے غداری کے قانون پرکئی سخت تبصرے کئے اور حکومت پر یہ واضح کردیا کہ سپریم کورٹ اس قانون کے غلط استعمال کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔
  چیف جسٹس رامنا نے کہا کہ ملک سے غداری کے قانون کا استعمال برطانوی راج میں آزادی کی تحریک کو دبانے اور اختلافات کی آواز کو خاموش کرانے کے لئے ہوتا تھا۔ مہاتما گاندھی ، گوکھلے اور تلک پر بھی اس کی  دفعات کا اطلاق کیا گیا تھا، کیا حکومت آزادی کے ۷۵؍ سال بعد بھی اس قانون کو برقرار رکھنا چاہتی ہے؟ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس قانون کے تحت سزا بھی بہت کم ہوتی ہے اور ان معاملات میں تفتیش کرنے والے یا کیس تیار کرنے والے افسران کا احتساب بھی نہیں کیا جاتا جبکہ یہ بہت ضروری ہے۔ اس قانون کے غلط استعمال کی بہت سی وجہیں ہیں اور مثالیں موجود ہیں۔ یہ قانون کسی بھی ایسے شخص کو پھنسانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے حکومت وقت یا تفتیشی ایجنسیاں اختلاف رکھتی ہیں۔ ایسے میں نہ حکومت کو روکا جاسکتا ہے اور نہ تفتیشی ایجنسی کے افسران کے خلاف کارروائی ہو پاتی ہے بلکہ جب تک متاثرہ شخص بے گناہ ثابت ہو تا ہے اس کی زندگی کا بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو چکا ہو تا ہے۔ اسی لئے ہمارا پوچھنا ہے کہ اس قانون کی ملک کو کیا ضرورت ہے۔
  چیف جسٹس نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ دفعہ ۶۶؍اے کو ہی دیکھیں، اسے منسوخ  کردئیے جانے کے بعد بھی ہزاروں مقدمات اسی دفعہ کے تحت درج  کئے گئے ہیں۔ ہماری تشویش قانون کے غلط استعمال کی ہے۔ چیف جسٹس  نے کہا کہ حکومت پرانے قوانین کو قانون کی کتابوں سے نکال رہی ہے تو اسےختم کرنے پر غور کیوں نہیں کیا گیا؟سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ’غداری‘ کے اس قانون کی موزونیت کا جائزہ لے گا۔ اس  معاملہ میں مرکزی حکومت کو نوٹس دیا گیا ہے اور دیگر عرضیوں کے ساتھ ہی اس عرضی پر سماعت کی جائے گی۔ 
 سپریم کورٹ نے کہا کہ غداری کا قانون اداروں کے کام کاج کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے۔یہ قانون اظہار رائے کی آزادی پر خوفناک اثر ڈالتا ہے اور بنیادی حق پر غیر ضروری قدغن لگاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس قانون کی دفعات غیر ضمانتی ہیں جس کی وجہ سے یہ اور بھی خطرناک اور شخصی آزادی کو دبانے والا قانون بن جاتا ہے۔ حال کے دنوں میں اس کے استعمال کے خلاف مسلسل آوازیں اٹھ رہی ہیں کیوں کہ اس وقت متعدد سماجی کارکنان ، صحافیوں ، طلبہ لیڈران اور کچھ سیاسی لیڈروں کے خلاف اسی قانون کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان پر نہ صرف ملک میں بلکہ عالمی میڈیا میں بھی سخت ردعمل ظاہر کیا گیا ہے ۔ اس سے مودی حکومت کی بدنامی بھی ہو رہی ہے لیکن اب تک ایجنسیوں کی اس قانون کے استعمال کی روش تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
  بنچ نےکہا کہ اگرکسی  دور دراز علاقے کا کوئی پولیس افسرکسی سماجی کارکن یا حکومت سے اختلاف رکھنے والے فرد کو پھنسانا چاہے تواس کے لئے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے کیوں کہ غداری کے قانون کی دفعات کی مدد سے وہ ایسا بہت آسانی سے کر سکتا ہے۔ آپ اور ہم تک جب تک یہ معاملہ آئے گا اس شخص کے لئے بہت تاخیر ہو چکی ہو گی۔ اسی وجہ سے یہ بنچ فکر مند ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کے بہت سے راستے موجود ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا استعمال بھی کیا جارہا ہے ۔ اسی لئے ہم اٹارنی جنرل کے ذریعے حکومت سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ  وہ اس قانون کو کیوں برقرار رکھنا چاہتی ہے؟ اسے ختم کرنے پر غور کیوں نہیں کر رہی ہے

 اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے حکومت کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے وہی کیا جو حکومت کے وکیل کو کرنا ہو تا ہے۔ انہوں نے اس قانون کا پوری طرح سے دفاع کیا اور کہا کہ بنچ اسے ختم کرنے کی بات نہ کرے کیوں کہ کچھ معاملات میں یہ قانون اور اس کی دفعات بہت ضروری ہو جاتی ہیں لیکن بنچ چاہے تواس کے غلط استعمال کو روکنے کے لئے تفصیلی گائیڈ لائن جاری کرسکتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار بھی کیا اور کہا کہ آپ اتنی ساری مثالوں  اور اس کے غلط استعمال کے ثبوتوں کے باوجود اس قانون کا دفاع کیسے کرسکتے ہیں ؟  غداری کے  قانون  پر سپریم کورٹ کے سخت تبصروں کا اپوزیشن پارٹیوں نے خیر مقدم کیا۔  کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے تبصروں کا خیر مقدم کرتے ہیں کیوں کہ ہمارا بھی یہی موقف رہا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے اسی لئے اسے ختم کردیا جانا چاہئے۔ٹی ایم سی کی لیڈر شعلہ بیان لیڈر مہوا موئترا نے بھی ان تبصروں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ  یہ ستم ظریفی ہی ہے کہ ادھر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اس قانون کی دھجیاں اڑارہے تھے، مودی حکومت اور بی جےپی کو آئینہ دکھارہے تھے  اور ادھر ہریانہ میں اسی قانون کے تحت  ۱۰۰؍ کسانوں پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔ اس کے باوجود ہمیں امید ہے کہ مودی حکومت کے ہاتھوں کا کھلونا بننے والے اس قانون کو دریا برد کردیا جائے گا۔
 کسان لیڈر اور معروف سماجی کارکن یوگیندر یادو نے کہا کہ ’’ یہی سوال تو سپریم کورٹ نے اٹھایا ہے کہ اس کا غلط اور مجرمانہ استعمال ہو رہا ہے ، ہریانہ میں کسانوں کے ساتھ وہی ہوا جہاں انہیں بی جے پی لیڈر کے خلاف احتجاج کرنے پر غداری کے مقدمہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم سپریم کورٹ کے تبصروں کا خیرمقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ یہ قانون فوراً سے پیشتر ختم کردیا جائے گا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK