Inquilab Logo

تھانے میونسپل الیکشن کیلئے وارڈوں کی نئی حدبندی سےممبرامیںوارڈکم ہونے کا اندیشہ

Updated: January 29, 2022, 8:22 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

دیوا یا کلوا میں وارڈوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے ، ووٹ تقسیم ہونے سےکسی پارٹی کو نقصان تو کسی کوفائدہ مل سکتا ہے۔ مقامی سیاسی لیڈروں نے اسے مسلم ووٹ بینک کونقصان پہنچانے کی سازش قرار دیا

It is being demanded not to reduce wards due to population growth in Membra.
ممبرا میں آبادی بڑھنے سے وارڈکم نہ کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ (تصویر: انقلاب)

ممبرا:عنقریب ہی تھانے میونسپل کارپوریشن ( ٹی ایم سی ) کے  انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس الیکشن میں متعدد تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔  ذرائع کے مطابق نئی تبدیلیوں اور وارڈوںکی نئی حد بندی میںمسلم اکثریتی علاقے ممبرا وارڈ کمیٹی کے  وارڈ وں کی تعداد کم کی جاسکتی ہے ۔ ایسی اطلاع ہے کہ ۳؍ وارڈ تک کم کئے جاسکتے ہیں۔ ممبرا جسے این سی پی کا گڑھ مانا جاتا ہے، سے وارڈ کم کرنے پر اس پارٹی کی طاقت کم ہو سکتی ہے۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ  دیوا یا کلوا میں وارڈ کی تعداد بڑھاسکتی ہے  جس سے  ان دونوں ہی وارڈ وںمیں شیوسینا کی طاقت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے ممبرا کے  ووٹرس تقسیم ہو جائیں گے ساتھ ہی ترقیاتی کام اور سہولتوں میں بھی کمی واقع ہو سکتی ہے۔  تھانے میونسپل کارپوریشن ( ٹی ایم سی) میں برسراقتدار شیو سینا کیلئے یہ تبدیلیاں فائدہ مند ثابت ہوںگی۔ اس ضمن میں ممبرا کے متعدد لیڈروں سے گفتگو کرنے اور ان کے تاثرات معلوم کرنے پر انہوں نے اسےممبرا کے مسلم ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے کی سازش قرار دیا۔ 
 آئندہ میونسپل کارپوریشن الیکشن میں پینل سسٹم میں تبدیلی کرنے کی تجویز ہے۔ ۴؍ وارڈوں  پر مشتمل پینل کو اب ۳؍ واڑوں پر مشتمل کیا جائے گا، کل  وارڈوں کی تعداد ۱۳۱؍ سے بڑھاکر ۱۴۲؍ کرنے کا اعلان کیا گیا  ہے۔ذرائع کے مطابق تجویز یہ تیار کی گئی ہے کہ کل ۴۷؍ پینل تشکیل دیئے جائیں گے جن میں ۴۶؍ پینل ۳؍ وارڈوں  والے جبکہ ایک پینل ۴؍ وارڈوں پر مشتمل ہوگا۔یہ تجویز الیکشن کمیشن کو بھیجی گئی ہے البتہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اب تک اس پر مہر نہیں لگائی گئی ہے  اور اس نے نئے وارڈ کی حد بندی کو قبول نہیں کیا ہے۔ البتہ اس کی منظوری کے بعد اس پر اعتراضات اور مشورے طلب کی جائیں گے ۔
  فی الحال ممبرا کلوا اسمبلی حلقہ کی ۲؍ وارڈ کمیٹیوں میں مجموعی طور پر ۳۴؍  کارپوریٹرس ہیں۔ان میں ۴؍ وارڈوں کا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ نئی تبدیلی کے سبب دیوا میں ایک کارپوریٹر کا اضافہ کیاجارہا ہے۔ اس سے دیوا وارڈ کمیٹی میں کارپوریٹروں کی تعداد ۱۱؍ سے بڑھ کر ۱۲؍ ہوجائے گی۔دیوا میں شیو سینا کے کارپوریٹروں کی اکثریت ہے جبکہ ممبرا میں این سی پی کے کارپوریٹرس زیادہ ہیں۔سیاسی حلقوں میں ایسی چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں کہ  این سی پی کی اس طاقت کو کم کرنے کیلئے ممبرا سے ۳؍ وارڈ وں کو کم کر کے ۱۸؍ سے ۱۵؍ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ شیوسینا کے غلبے والی کلوا وارڈ کمیٹی میں ۴؍ کارپوریٹروں کا اضافے کی تجویز ہے جس کے بعد کلوا میں کارپوریٹروں کی تعداد ۱۶؍ سے بڑھ کر ۲۰؍ ہو جائے گی۔اسی طرح دیوا میں ایک کارپوریٹر کا اضافہ ہونے سے وہاں کارپوریٹروں کی تعداد ۱۲؍ ہو جائے گی۔
 ممبرا وارڈ کمیٹی میں۱۸؍کارپوریٹروںمیں سے۱۶؍ این سی پی یا اس کے حمایتی کارپوریٹرس ہیں  اور ۲؍ ایم آئی ایم کے ہیں۔ کلوا وارڈ کمیٹی کے ۱۶؍ کارپوریٹروں میں سے ۹؍ این سی پی کے  ہیں۔ ۷؍ کارپوریٹر شیوسینا سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیوا وارڈ کمیٹی  کے کل ۱۱؍ کارپوریٹروں میں سے  شیوسینا کے ۸؍کارپوریٹر ہیں جبکہ۳؍ این سی پی کے ہیں۔ 
 اس ضمن میںتھانے میونسپل کارپوریشن( ٹی ایم سی) کے اپوزیشن لیڈر اور ممبرا کے کارپوریٹر اشرف شانو پٹھان سے استفسار کرنے پر انہوں نے کہا کہ’’ وارڈ وں کی نئی تشکیل کی خبریں تو گشت کر رہی  ہیں لیکن اب تک باقاعدہ الیکشن کمیشن یا میونسپل کمشنر کی جانب سے نئی حد بندی کے تعلق سے اعلان نہیں ہوا ہے۔ اگر ممبرا سے وارڈ کم کئے جاتے ہیں تو یقینی طو رپر  اس کی پورے شدت کے ساتھ مخالفت کی جائے گی۔‘‘
 اس ضمن میں سابق میئر اور کانگریس کے سینئر لیڈر نعیم خان نے بتایا کہ ’’ ذرائع سے جو اطلاع ملی ہے ،اس میں ۲؍  طرح کی تجاویززیر غور ہیں۔ ایک تجویز میں ممبرا کے کارپوریٹروں کی تعداد  ۲۳؍ سے کم کر کے ۱۵؍ کی جارہی ہے جبکہ دوسری تجویز میں یہاں ۵؍  کارپوریٹرو ںکی تعداد بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا فیصلہ یا جاتا ہے۔ اگر کارپوریٹرو ںکی تعداد کم کی جاتی ہے  اورکچھ وارڈوں کو دیوا اور کلوا میں ضم کیاجاتا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہو جائے گا کہ مسلم ووٹروں کو تقسیم کرنے کیلئے ایسا کیا جارہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ممبرا کی ترقی بھی متاثر ہوگی اور اس سے ہنگامہ مچ جائے گا۔ کوسہ اور رشید کمپاؤنڈ کے علاقے کو پہلے ہی دیوا میں شامل کر دیا گیا ہے۔‘‘ انہوں  نے مزید بتایا کہ ’’ممبرا میں ٹورینٹ  پاورآنے سے قبل ایک سروے کیا گیا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ۱۷؍ لاکھ نئے میٹر ممبرا ، کوسہ اور دیوا میں لگائے جائیں گے۔ اب تک  دیوا کے ۳؍ لاکھ صارفین کو شمار کیاجائے تو بقیہ ۱۴؍ لاکھ ممبرااور کوسہ کے صارفین ہوتے ہیں۔ ایک مکان میںصرف ایک شہری کے حساب سے ممبرا کوسہ کی آبادی ۱۴؍ لاکھ ہورہی ہے، اس اعتبار سے ممبرا کے وارڈ وں کوبڑھانا چاہئے۔اس ناانصافی کے خلاف اقلیتوں کیلئے آوازاٹھانے والاکوئی نہیں ہے۔‘‘
 اس سلسلے میں مجلس اتحادا لمسلمین (  ایم آئی ایم ) کےممبرا کلوا اسمبلی حلقہ کے صدر سیف پٹھان نے کہا کہ ’’ہمارے ووٹروں کو منتشر کرنے کے اندیشہ کو محسوس کرتے ہوئے مَیں نے ۱۰؍  جنوری کو الیکشن کمیشن کو لیٹر دیا 

 

تھا کہ وارڈوں کی نئی حد بندی سے متعلق عوام کو مطلع کیاجائے اور اس کے  بعد کارروائی کی جائے تاکہ ہمارے (مسلم علاقوں کے ساتھ ) سوتیلا سلوک نہ ہو۔‘‘ انہوں  نے یہ بھی کہا کہ’’ ویسے تو گزشتہ برسوں میں ممبرا کی ترقی نہیں ہوئی ہے ،نہ یہا ں کوئی سرکاری تعلیمی ادارے بڑھے ہیں، نہ سرکاری اسپتال مل سکا ہے  ، انفرااسٹرکچر میں بھی بہتری نہیں آئی ہے۔ جو بھی پروجیکٹ جاری ہیں، وہ پرائیویٹ ہیں۔ کارپوریٹر کم ہونے سے فنڈ بھی کم ملے گا اور ترقیاتی کاموں پر بھی برا اثر پڑے گا ۔ اگر  ممبرا سے وارڈ کم کئے جاتے ہیں تو اس کا اثر اسمبلی  انتخابات پر بھی پڑے گا اور ہمارے علاقوں کو تقسیم کر دینے سے ہمارے ووٹوں کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ ہمیں ایسی جگہ شامل کیاجارہا ہے جہاں  فرقہ پرست پارٹی یکطرفہ ہی جیت سکے گی۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ’’ آبادی بڑھنے کے ساتھ کارپوریٹروں کی تعداد بھی بڑھنا چاہئے۔جہاں تک ووٹروں کی تعداد بڑھانے کا معاملہ ہے تو ہمارے سبھی دفاتر سے ووٹرلسٹ میں ناموں کے  اندراج کیلئے  فارم پرُکیا جارہا ہے۔‘‘ کوسہ کی سینئر کارپوریٹر عشرین راؤت نے کہا کہ ’’ جب چوپاٹی خراب تھی تو وہ ممبرا ریتی بندر کہلاتی تھی اور جب اسے بنایا جانے لگا تو وہ پارسک نگر چوپاٹی ہو گئی۔جو چیز اچھی ہوتی،  وہ کلوا اور تھانے والوں کی اور جو چیز خراب ہوتی ہے تو وہ ممبرا والوں کی؟ممبرا میں تیزی سے آبادی بڑھ رہی ہے تو ممبرا میں وارڈ بڑھنے چاہئے نہ کہ دیوا اور کلوا میں ۔۳؍ وارڈوں کے پینل میں اگر ایک وارڈ کلوا میں کم پڑ رہا ہے تواسے ممبرا وارڈ کمیٹی  میں شامل کر لینا چاہئے نہ کہ وہاں ایک وارڈ بڑھا کر ممبرا کا وارڈ کم کر دیا جائے۔ اگر وارڈ کم کئے جاتے ہیں تو ہم  اس پر اعتراض کریں گے۔‘‘
 عام آدمی پارٹی کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن اور ممبرا کے نگراں ڈاکٹر ابوالتمش فیضی نے کہا کہ’’ اب تک وارڈ کم ہونے سے متعلق کوئی  حتمی فیصلہ نہیںہوا ہے لیکن ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ ممبرا کو الگ اسمبلی حلقہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ممبرا کے وارڈوںکو اس طرح تقسیم کرنے کی سازش رچی جارہی کہ مسلم  ووٹ بے اثر ہو کر رہ جائے۔‘‘

mumbra Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK