Inquilab Logo

طالبان کی پیش قدمی کے دوران جرمن فوج کا انخلامکمل

Updated: July 01, 2021, 9:35 AM IST | kabul

کوئی ۲۰؍ سال بعد افغانستان سے فوجیوں کی واپسی کا عمل ۔ جرمن وزیر خارجہ نے اسے تاریخ کے ایک باب کا خاتمہ قرار دیا۔نیٹو کے سربراہ نے طالبان کی پیش قدمیوں کو پریشان کن بتایا ساتھ ہی ناگزیر حالت میں دوبارہ بمباری کی بھی دھمکی دی۔ جنگجو تنظیم کا ۲؍ ماہ میں کوئی ۱۰۰؍ اضلاع پر قبضہ

German Army personnel wrap their flag at Mazar-e-Sharif Air Base (Photo: Agency)
مزار شریف ایئر بیس پر جرمن فوج کے اہلکار اپنا جھنڈا لپیٹتے ہوئے ( تصویر: ایجنسی)

امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کی تاریخ بھلے ہی ۱۱؍ ستمبر طے کی ہو لیکن انہوں نے اپنا بوریا بستر سمیٹ لیا ہے بس روانگی کی دیر ہے۔ ادھر طالبان نے ایک بار پھر ملک کو اپنے قبضے میں لینے کی مہم شروع کر دی ہےجس میں انہیں بڑی کامیابی ہاتھ لگی ہے۔ اسی دوران جرمن فوج نے اپنا انخلا مکمل کر لیا ہے۔ یعنی جرمنی کے تمام فوجی اپنے ملک لوٹ چکے ہیں۔ 
  یاد رہے کہ جرمنی نیٹو  کے فوجی اتحاد میں شامل ہے اور یکم مئی  ۲۰۲۱ء کو امریکی اور دیگر فوج کی واپسی کا عمل شروع ہوا ، تب تک جرمن فوج کے ۱۱؍ سو اہلکار افغانستان میں موجود تھے جنہیں اب واپس بلا لیا گیا ہے ۔افغانستان کے شمالی شہر مزار شریف کی فوجی بیس سے منگل کی شام جرمن فوجیوںکے آخری دستے نے دو اے ۴۰۰؍ ایم ایس اور دو سی۔۱۷؍ ایس طیاروں کے ذریعے واپسی کا سفر شروع کیا۔ بدھ کو جرمنی کے وزیر خارجہ  اینگریٹ کم کمباوا نے کہا’’ افغانستان  سے جرمن فوج کے آخری دستے نے واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے۔ اس طرح تاریخ کے ایک باب کا خاتمہ ہوا۔ ‘‘ انہوں نے ایک ٹویٹ کرکے کہا کہ ’’جرمنی فوجی اپنی خدمات پر فخر کرسکتے ہیں جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔‘‘ساتھ ہی انہوں نے افغانستان میں ہلاک ہونے والے جرمن فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کی۔ 
  واضح رہے کہ گزشتہ ۲۰؍ سال کےعرصے میں افغانستان   میں  جرمن فوج کے کوئی ۵۹؍ اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔ جرمنی سے پہلے  ڈنمارک، اسپین اور ایسٹونیا کے فوجی اہلکار افغانستان سے واپس جا چکے ہیں۔ البتہ امریکہ  کے علاوہ اب تک وہاں برطانیہ، اٹلی اور ترکی کے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔  امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلان کے مطابق یہ سب ۱۱؍ ستمبر تک اپنے اپنے ملک لوٹ جائیں گے۔
  امریکہ کی بھی جلد واپسی
 ادھر منگل ہی کو افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج کے سربراہ جنرل آسٹن اسکالٹ ملر نے ایک پریس کانفرنس منعقد کی اور  افغانستان میں طالبان کی پیش قدمیوں کو تشویشناک قرار دیا۔  انہوں نے کہا کہ ’’ طالبان کا یوں ایک کے بعد ایک علاقوں پر قبضہ کرنا پریشان کن ہے۔ ‘‘ اسکاٹ ملر کے مطابق’’ فوجی طاقت کے دم پر ملک پر قبضہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ یہ کسی کے بھی حق میں نہیں ہے افغان عوام کے حق میں بھی نہیں ہے۔ ‘‘  بعض میڈیا رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کا مقابلہ کرنے کیلئے عام باشندوںکو بھی ہتھیار دیئے جا رہے ہیں۔  طالبان کا الزام ہے کہ افغان فورس جان بوجھ کر عوام کو ہتھیار دے کر ان کے سامنے کر رہی ہے تاکہ صورتحال خراب ہو ۔ 
  اس تعلق سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اسکاٹ ملر نے کہا کہ عام باشندوں کا ہتھیار اٹھانا بھی خطرناک ہے۔ اس سے خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی جانب سے طالبان پر فضائی حملوں کی بات کہی گئی تھی۔ ان حملوںسے متعلق سوال پر اسکاٹ ملر نے جواب دیا ’’ میں فضائی حملوں کے حق میں نہیں ہوں لیکن اگر طالبان نے اپنی کارروائیاں بند نہیں کیں تو  فضائی حملے ناگزیر ہو جائیں گے۔‘‘  انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ’’ امریکہ افغانستان سے انخلا کے باوجود طالبان پر فضائی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ 
  طالبان کی پیش قدمی
 ادھر افغانستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق طالبان نے امریکی فوج کے انخلا کی شروعات ہوتے ہی ایک کے بعد ایک علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ محض ۲؍ ماہ کے اندر انہوں نے افغانستان کے کل ۴۱۹؍ اضلاع میں سے ۱۰۰؍ سے زائد اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے۔  حالانکہ افغان سیکوریٹی فورس دعویٰ کر رہی ہے کہ اس نے کئی اضلاع جنگجو تنظیم سے واپس  چھین لئے ہیں۔نیز ایک ماہ کے اندر  ۱۹۰۶؍ آپریشن کئے جن میں ۶۰۳۰؍ جنگجو مارے گئے۔ واضح رہے کہ ۲۰۰۱ء میں امریکی حملے سے قبل افغانستان میں طالبان ہی کی حکومت تھی جسے امریکہ نے بمباری کے ذریعے اکھاڑ پھینکا تھا لیکن زمین پر اترنے کے بعد وہ ۲۰؍ سال میں بھی طالبان کو شکست نہیں دے سکے۔ 

taliban Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK