Inquilab Logo

دیوبند : عیدگاہ میدان میں خواتین کاغیرمعینہ مدت کا دھرنا

Updated: January 28, 2020, 11:07 AM IST | Firoz Khan | Deoband

’متحدہ خواتین کمیٹی‘ کی اپیل پر شدید سردی اور ہلکی بوندا باندی کے باوجودبڑی تعداد میں خواتین نے وہاں پہنچ کر شاہین باغ طرز پر احتجاج کیا۔وزیراعلیٰ کی دھمکی اور پولیس کی وحشیانہ کارروائی پر سخت تنقیدکی گئی ۔ مظاہرہ گاہ پر لیڈیزپولیس فورس اور اعلیٰ افسران پہنچ گئے۔ انتظامیہ کی جانب سے دھرنے کو ناکام بنانے اور ہٹانے کی کوشش

عید گاہ میدان میں سی اےاےاوراین آرسی کے خلاف خواتین دھرنے پر بیٹھی ہیں۔ تصویر: انقلاب
عید گاہ میدان میں سی اےاےاوراین آرسی کے خلاف خواتین دھرنے پر بیٹھی ہیں۔ تصویر: انقلاب

 دیوبند : شدیدسردی اور ہلکی بوندا باندی کے باوجود شہر کی خواتین نے ’متحدہ خواتین کمیٹی‘ کی اپیل پر عید گاہ میدان میں ہزاروں کی تعداد میں پہنچ کر شہریت ترمیمی قانون ،این پی آر اور این آر سی کے خلاف احتجاج کیا اور اس سیاہ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔اس احتجاجی پروگرام کی ابتداء میں آئین کی تمہید پڑھ کر سنائی گئی اور خواتین نے قومی ترانہ پیش کیا۔ 
 شاہین باغ  طرز پر خواتین ایکشن کمیٹی کی صدرفوزیہ سرور، سیکریٹری آمنہ روشی اور نائب صدر زوہا حسین غیر معینہ مدت کیلئے سی اے اے کے خلاف دھرنے پر بیٹھ گئی ہیں۔انتظامیہ کی سختی اور خراب موسم کے با وجود خواتین پہلے اسلامیہ بازار میں جمع ہوئیں اور وہاں سے نعرے لگاتی ہوئی عید گاہ میدان میں پہنچیں۔ان کے ہاتھوں میں ترنگا اور تختیاں تھیں جن پر  حکومت کے خلاف نعرے تحریر تھے۔واضح رہے کہ دیوبند کے عید گاہ میدان میں کبھی جمعیۃ علماء ہند تو کبھی خواتین ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام وقفہ وقفہ سے احتجاجی پروگرام ہورہے ہیں۔ 
 اجلاس میں موجود ہزاروںخواتین سے خطاب کرتے شائستہ پروین نے کہا کہ ’’ترقی کے تمام دعوؤںکے باوجود ملک میں غریبی ،بھکمری اور بےروزگاری وغیرہ جیسے سنگین  مسائل ہیں لیکن حکومت ان تمام  مسائل کو چھوڑ کرسی اے اے لے کر آئی ہے جس سے لوگ خوفزدہ ہیں۔‘‘انجم نوشاد اور سعدیہ پروین نے کہا کہ حکومت ’بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ ‘کا نعرہ دیتی ہے لیکن ملک کی پولیس طالبات اور پر امن طریقے سے مظاہرہ کر رہی خواتین کے ساتھ مارپیٹ کر رہی ہے، یہ حکومت کا دوہرا معیار نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔
 آمنہ اور علینا نے کہا کہ جامیہ ملیہ اسلامیہ ،جے این یو اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوکر جس طرح طلباء و طالبات پر ظلم وستم کا مظاہرہ کرکے پر امن تحریک کو دبانے کی کوشش کی گئی،  ملک کی آزادی کے بعد پہلی بار ایسے المناک مناظر دیکھنے کو ملے ۔نشرہ ،ارم عثمانی ،روحی اور فریحہ جمال نے کہا کہ اتر پردیش میں اس سے پہلے بھی پر تشدد احتجاج ہوئے ہیں،  غیر سرکاری اور سرکاری املاک کا نقصان بھی ہوا ہے ، پولیس والے بھی زخمی ہوئے ہیں لیکن کسی وزیر اعلیٰ کی جانب سے کبھی بدلے کی کارروائی کی دھمکی نہیں دی گئی اور نہ ہی بدلہ لیا گیا لیکن اب قانون کی حفاظت اور نفاذ کے نام پر وہ سب کچھ ہو رہا ہے جس کا ایک مہذب جمہوری معاشرہ میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔مسلم اکثریتی علاقوں کو چھاوئی میں تبدیل کیا جا رہا ہے، مساجد اور مدارس کے باہر پولیس کی ڈیوٹی لگائی جا رہی ہے ۔خواتین سے بدسلوکی کی جا رہی ہے۔
 اس دوران بڑی تعداد میں لیڈیزپولیس فورس ، خفیہ محکمہ کی ٹیمیں اور پولیس کے اعلیٰ افسران موجود رہے ۔ خبرلکھےجانے تک انتظامیہ کی جانب سے دھرنے کو ناکام بنانے اور ہٹائے جانے کی کوشش کی جارہی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK