Inquilab Logo

طالبان حکومت میں خواتین کو تعلیم اور روزگار کی اجازت ہوگی

Updated: July 25, 2021, 10:18 AM IST | kabul

جنگجو تنظیم نے خواتین کو حجاب پہننے کی شرط پر تعلیم حاصل کرنے ، کام کرنے حتیٰ کہ سیاست میں حصہ لینے تک کی اجازت دینےکا اعلان کیا۔ طالبان کے مطابق جن نئے علاقوں کو فتح کیا جا رہا ہے وہاں کمانڈوز کو ہدایت دی گئی ہے کہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو بند نہ کروایا جائے اور خواتین کو کام کرنے دیا جائے

Taliban spokesman Sohail Shaheen among journalists (Agency)
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین صحافیوں کے درمیان( ایجنسی)

کل تک خواتین کی آزادی کی دشمن کہلانے والی افغانستان کی جنگجو تنظیم طالبان نے اپنے آپ میں ایک بہت بڑا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی حکومت  آنے پر افغانستان میں خواتین کو تعلیم اور روزگار حاصل کرنے کی اجازت ہوگی بس اس کیلئے انہیں حجاب پہننا ہوگا۔  ترجمان نے اس سے آگے بڑھ کر خواتین کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینے کی بات بھی کہی۔ واضح رہے کہ امریکہ نے ۲۰۰۱ء میں جن الزامات کو بنیاد بنا کر طالبان پرحملہ کیا تھا  ان میں سے خواتین کی آزادی کو سلب کرلینا سب سے اہم الزام تھا۔ 
  افغانستان میں انتہائی قوی امکانات ہیں کہ جلد ہی طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہو جائے۔ ایسی صورت میں پھر وہی سوالات سر اٹھانے لگے ہیں جو ۲۰؍ سال قبل لوگ ان سے پوچھا کرتے تھے۔  ایک روز قبل طالبان کے ترجمان سہیل شاہین  نے ایک پریس کانفرنس کے دوران  اسی طرح کے مختلف سوالات کے جواب دیئے۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت کے تعلق سے کہا’’ ہماری حکومت قائم ہونے کے بعد خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی بھی اجازت ہوگی اور کام کرنے کی بھی ،حتیٰ کہ سیاست میں حصہ لینے کی بھی لیکن اس کیلئے انہیں حجاب پہننا ہوگا۔‘‘ سہیل شاہین نے کہا کہ نئی حکومت میں خواتین کو گھر سے نکلنے کیلئے گھر کے کسی مرد (محرم) کو ساتھ لے کر نکلنا بھی لازمی نہیں ہوگا۔ 
  واضح رہے کہ امریکی فوج کے انخلا کا عمل شروع ہوتے ہی طالبان نے ایک کے بعد ایک افغانستان کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے اور کئی اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں انہوں نے اپنا کنٹرول قائم کر لیا ہے ۔ یعنی ان اضلاع بطور انتظامیہ اب طالبان کے احکامات صادر ہوتے ہیں۔  ایسی صورت میں عالمی میڈیا میں بار بار یہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ افغانستان میں خواتین کی آزادی کے تعلق سے آئندہ حکومت کا کیا رویہ ہوگا۔ سہیل شاہین نے بتایا کہ جن علاقوں کو طالبان نے فتح کیا ہے وہاں انہوں نے خواتین پر حجاب کے علاوہ اور کوئی پابندی نہیں لگائی ہے۔ ترجمان کے مطابق’’ طالبان کے کمانڈوز کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جن علاقوں پر قبضہ حاصل ہو جائے وہاں کے اداروں کو خاص کر یونیورسٹیوں  اور کالجوں کو بند نہ کیا جائے بلکہ انہیں چلتے رہنے دیا جائے۔‘‘  انہوں نے کہا کہ ’’ اس میں خواتین کا کام کرنا بھی شامل ہے۔‘‘ یعنی جن علاقوں کو طالبان فتح کر رہے ہیں۔  وہاں  اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بند نہیں کیا جا رہا ہے اور وہاں خواتین کو کام کرنے کی بھی اجازت دی جا رہی ہے۔
  سہیل شاہین نے بتایا کہ جن کمانڈوز نے تنظیم کے اس حکم کی خلاف ورزی کی، یعنی  مفتوحہ علاقوں میں خواتین کو کام کرنے سے روکا انہیں تنظیم کی اعلیٰ قیادت کے سامنے پیش کیا  گیا اور سزائیں بھی دی گئیں۔  حالانکہ سہیل شاہین نے خواتین کے سیاست میں حصہ لینے کی بات بھی کہی ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس سے ان کی کیا مراد ہے۔ کیونکہ طالبان خالص اسلامی حکومت کے قیام پر مصر ہیں اور وہ جمہوری طرز حکومت نیز الیکشن کے خلاف ہیں۔ اگر الیکشن ہی نہ ہوں گے تو خواتین سیاست میں کیسے حصہ لیں گی۔ یہ سوال اپنے آپ میں معنی خیز ہے۔ اس کے باوجود خواتین کو روزگار اور تعلیم کی اجازت دینا طالبان کا ایک حوصلہ افزا قدم کہا جا رہا ہے۔ غالباً ایسا افغان عوام کا اعتما د حاصل کرنے کیلئے کیا جا رہا ہو لیکن سب سے اہم بات یہ ہے ۲۰۰۱ء میں امریکہ کی جانب سے طالبان کے خلاف اسی الزام کو پوری دنیا میں پھیلایا گیا تھا کہ وہ خواتین کی تعلیم اور ان کےکام کرنے کے خلاف ہیں۔ 

taliban Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK