Inquilab Logo

عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ پیش،عالمی برادری کو اعتراض

Updated: April 01, 2021, 3:18 PM IST | Agency | Geneva

رپورٹ کے مطابق یہ بات محض خیالی ہے کہ کورونا وائرس چین کی کسی لیباریٹری میں تجربے کے دوران پھیلا، البتہ اس بات کی تصدیق کی گئی کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے آیا ہے۔ امریکہ سمیت ۱۴؍ ممالک نے مشترکہ طور پر اس رپورٹ کے تعلق سے سوالات اٹھائے، ڈبلیو ایچ او کے سربراہ خود بھی مطمئن نہیں

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

   عالمی ادارۂ صحت کی ٹیم نے چین میں کوروناوائرس کے تعلق سے جو تحقیقات کی ہے اس کی رپورٹ منظر عام پر آتے ہی عالمی برادری نے اس پر سوالات اٹھانے شروع کر دیئے اور  اس غیر اطمینان بخش قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ ایک روز قبل ہی  ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے اپنی رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ  تمام ثبوتوں کو اکٹھا کرنے اور ان کا مشاہدہ کرنے کے باوجود یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ کورونا وائرس کیسے پھیلا۔ رپورٹ میں چین کے کسی گوشت مارکیٹ یا کسی لیب سے کورونا پھیلنے کے امکانات سے بھی انکار کیا گیا ہے۔  البتہ یہ ضرور کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس اصل  میں چمگادڑوں سے آیا ہے لیکن پھیلا کیسے ہے یہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنےکےبعد  امریکہ سمیت ۱۴؍ ممالک نےاس پر کوئی  سوالات کھڑے کئے۔امریکی محکمۂ خارجہ نے منگل کو اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا ہے جس میں دیگر ۱۳؍ ملکوں کے حکام کے دستخط بھی موجود ہیں۔ ان ملکوں نے مشترکہ بیان میں ڈبلیو ایچ او کی حالیہ رپورٹ پرکہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں عالمی ماہرین کی رائے بہت تاخیر سے سامنے آئی ہے جبکہ ماہرین کو تحقیقات کیلئے ملنے والی مکمل رسائی، اصل ڈیٹا اور نمونے کے تعلق سے کئی شبہات ہیں۔
 یاد رہے کہ کوروناوائرس کی ابتدا کے تعلق سے تحقیقات کیلئے ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے رواں برس کے آغاز میں چین کے شہر ووہان کا دورہ کیا تھا۔ جہاں ٹیم میں شامل اراکین نے ووہان میں جانوروں کی مارکیٹ کے دورے کے علاوہ سائنسدانوں اور دیگر ماہرین کے انٹرویو بھی کئے  تھے۔اطلاع تھی کہ ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کو چین میں ڈیٹا تک رسائی سمیت دیگر مشکلات کا سامنا رہا۔ محقیقن پر مشتمل ٹیم کو ووہان میں جانے سے قبل چین کی حکومت کی جانب سے اجازت نامے کیلئے بھی انتظار کرنا پڑا۔امریکہ ا ور دیگر ۱۳؍ ملکوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ سائنسی مشن کو ایسے ماحول میں کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے جس سے آزادانہ نتائج اور تجاویز سامنے آ سکیں۔مذکورہ ممالک نے ڈبلیو ایچ او کے کورونا وائرس کے ماخذ کی حالیہ تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ کسی بحران کی صورت میں اس سے نمٹنے کی امید پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔امریکہ کے علاوہ جن  ممالک نے ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ پر اعتراض ظاہر کیا ہے ان میں ​آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، جاپان، اسرائیل، اسٹونیا، چیک ری پبلک، لٹیویا، ناروے، ری پبلک آف کوریا، سلووینیا اور لتھونیا شامل ہیں۔
 خود عالمی ادارۂ صحت بھی مطمئن نہیں
  خود ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ایڈنہم نے بھی منگل کو  ایک بیان میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کسی فوڈ چین سے انسانوں میں پھیلا یا کسی جانور کے ذریعے، اس بارے میں مزید تحقیقات اور مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چین کی لیبار یٹری سے وائرس پھیلنا صرف خیالی بات ہے، تاہم اس پر مزید تحقیقات درکار ہے۔یاد رہے کہ دنیا بھر میں جب کورونا  پھیل رہا تھا تواس کے پھیلنے کی وجوہات پرقیاس آرائیاں جا ری تھیں۔ کہا جا رہا تھا کہ چین کی ایک لیباریٹری میں تجربے کے دوران یہ وبا پھیلی جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ڈبلیو ایچ او کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ بین ایمبارک نے منگل کو صحافیوں سےکہ یہ ممکن ہے کہ کورونا وائرس کے کیس نومبر یا اکتو بر ۲۰۱۹ءسے قبل بھی ووہان میں موجود ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK