Inquilab Logo

اعظم خان معاملے میں یوگی حکومت کی سپریم کورٹ میں ہزیمت

Updated: July 24, 2022, 9:47 AM IST | new Delhi

جوہریونیورسٹی کی سیل کردہ عمارتوں کو سیل ہٹا کر انہیں واپس کرنے کا حکم ۔ یوپی حکومت کے ساتھ عدالتی فیصلے پر بھی تنقید ۔ اس بات پر اظہارفکر کیا کہ نچلی عدالتیں ضمانت کے ساتھ غیر متعلقہ شرائط عائد کر رہی ہیں

Azam Khan was granted bail on May 10, but the court imposed several conditions (file photo).
اعظم خان کو گزشتہ ۱۰؍ مئی کو ضمانت مل گئی تھی مگر عدالت نے کئی شرائط عائد کی تھیں( فائل فوٹو)

 سپریم کورٹ میں اعظم خان کے معاملہ میں یوگی حکومت کو زبردست ہزیمت کا سامناکرنا پڑا ہے۔سپریم کورٹ کی دورکنی بنچ نے رامپور ضلع مجسٹریٹ کے ذریعہ جوہر یونیورسٹی کی ’سیل کردہ‘ دوعمارتوںکی سیل ہٹاکر انہیںفوراً واپس کرنے کا حکم دیا ہے۔اس کے علاوہ اعظم خان کی ضمانت کے فیصلہ میںالٰہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ عائداس شرط پرسپریم کورٹ نے ناراضگی کا اظہاربھی کیا۔ یوپی حکومت نے رامپور میں اعظم خان کے داخلہ پر پابندی کا مطالبہ کیا تو سپریم کورٹ نے اس مطالبہ کو بھی مستردکردیا۔سپریم کورٹ نے ریاستوں کی ہائی کورٹ کو بھی واضح پیغام دیتے ہوئے کہاکہ یہ بہت ہی پریشان کن بات ہے کہ ضمانت کے فیصلوں میں غیر موزوں اور غیر متعلق شرائط عائد کرنے کا چلن بڑھتا جارہا ہے۔
 جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ نے واضح طورپر کہا کہ ہائی کورٹوں کو اس طرح کی غیر متعلق شرائط عائد کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔واضح رہے کہ ۱۰؍مئی ۲۰۲۲ءکو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے جوہر یونیورسٹی کے ٹرسٹی  اور یوپی کے سابق کابینی وزیر محمد اعظم خان کو’دشمن کی جائیداد‘   اور کچھ کسانوں کی زمینوں کو جبراًیونیورسٹی میں شامل کرنے کے ایک معاملہ میںضمانت دیتے ہوئے رامپور کے ضلع مجسٹریٹ کو حکم دیا تھاکہ ضمانت کی شرط کے طورپر وہ یونیورسٹی کے کچھ حصوں کو۳۰؍ جون تک اپنے قبضہ میں لے کر دیوارسے گھیردیں۔  رامپور ضلع مجسٹریٹ نے بڑی سرعت سے کام لیتے ہوئے ۱۸؍ مئی کو ہی الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کا حوالہ دیتے ہوئے یونیورسٹی کی دو اہم عمارتوں کو قبضہ میں لے کر’سیل ‘ کردیا تھا۔ ان میں سے ایک عمارت میں ڈین اور دوسرے انتظامی افسروں کے دفاتر واقع تھے۔ یہی نہیں رامپور انتظامیہ نے ممبئی میںواقع ’اینمی پراپرٹی‘ اورخالی کرائی گئی جائیدادوں کا انتظام دیکھنے والے ادارہ سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ متنازع زمین کوٹریننگ کے مقصد سےپیرا ملٹری فورس کے حوالہ کردے۔
 ذرائع کا کہنا ہے کہ رامپور انتظامیہ کا ارادہ تھا کہ وہ ہائی کورٹ کے اس حکمنامہ کی آڑ میں جوہر یونیورسٹی کے کچھ حصوں کو منہدم کردے لیکن انہدام کی کارروائی نہیں ہوسکی تھی۔انتظامیہ نے اس مفہوم کا نوٹس جاری بھی کردیا تھا اور  یونیورسٹی کے رجسٹرار کو ان عمارتوں کو خالی کرنے کی ہدایت دیدی تھی۔ جمعہ کو   سپریم کورٹ  کے سامنے اعظم خان کے وکیل کپل سبل نے یہ معاملہ اٹھایا  تو بنچ نے اس پر حیرت ظاہر کی  اور کہاکہ ہائی کورٹوں میں ضمانت کے معاملات میں اپنے اختیار سے آگے بڑھ کر شرائط عائد کرنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ بنچ نے کہا کہ اعظم خان کے معاملہ میں الہ آباد ہائی کورٹ کو فقط ضمانت سے متعلق فیصلہ دینا چاہئے تھا اور ضمانت کے فیصلہ میں ایسی غیر متعلقہ شرائط عائد کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا۔بحث کے دوران ایک موقع ایسا آیاجب بنچ نے ہائی کورٹ کے اس پورے فیصلہ کو ہی کالعدم کرنے کاارادہ کرلیا۔لیکن کپل سبل نے درخواست کی کہ ایسا نہ کیا جائے کیونکہ پھر ضمانت کا معاملہ ہائی کورٹ کی اسی بنچ میں دوبارہ چلا جائے گا۔سبل نے دلیل دی کہ یہ ـضمانت بھی ہائی کورٹ نے معاملہ کوبہت لمبے عرصہ تک لٹکائےرکھنے کے بعددی تھی لہٰذا یہ ممکن ہے کہ اعظم خان کو دوبارہ ضمانت حاصل کرنے میں مشکل پیش آئے۔ اس پر بنچ نے کہا کہ ایسا ہے تو ہم یہ معاملہ کسی دوسرے جج کی بنچ کو منتقل کردیں گے۔لیکن بعد میں کچھ سوچ کر سپریم کورٹ کی دورکنی بنچ نے اپنا یہ ارادہ ملتوی کردیا اور الہ آباد ہائی کورٹ کے صرف اس فیصلہ کو کالعدم قرار دےدیا جس کے تحت رامپور انتظامیہ نے جوہر یونیورسٹی کی دواہم عمارتوں کو سیل کردیا تھا۔
 یوپی حکومت نے عدالت سے استدعا کی کہ کم سے کم اتنا تو کردیا جائے کہ اگلے۶؍ مہینے تک کیلئے اعظم خان کے رامپور میں داخلہ پر پابندی عائد کردی جائے کیونکہ وہ ایک بااثر آدمی ہیںلہٰذا وہ گواہوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔لیکن عدالت نے اس اپیل کو مسترد کردیا۔یاد رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں اعظم خان کی ضمانت کی اپیل ایک عرصہ سے پڑی ہوئی تھی اور عدالت کوئی فیصلہ نہیں کر رہی تھی۔لہذا کپل سبل نے سپریم کورٹ میںاس کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس پرسماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے الہ آباد ہوئی کورٹ کو جلد فیصلہ کرنے کی ہدایت دی ۔اس کے بعد جب الہ آبا دہائی کورٹ نے ۱۰ مئی ۲۰۲۲ کو ضمانت دی تو اس میں یہ غیر متعلق شرط بھی جوڑ دی کہ رامپور انتظامیہ جوہر یونیورسٹی کی متنازع زمین کو اپنے قبضہ میں لے لے۔اس زمین پر یونیورسٹی کی دو اہم عمارتیں بنی ہوئی ہیںلہٰذا انتظامیہ نے ان دونوں عمارتوں کو ہی سیل کر دیا۔ اس کے خلاف اعظم خان نے سپریم کورٹ کی تعطیلاتی بنچ کے سامنے اپیل دائر کی تھی۔۲۷ مئی کو سپریم کورٹ کی تعطیلاتی بنچ نے اگلی سماعت تک ہائی کورٹ کی اس ہدایت پراسے غیر موزوںبتاتے ہوئے اسٹے جاری کردیا تھا لیکن رامپور انتظامیہ پہلے ہی ہائی کورٹ کی ہدایت پر عمل کرچکی تھی۔حالانکہ جوہر یونیورسٹی نے اسٹے کے اس فیصلہ کی بنیاد پر رامپور انتظامیہ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ وہ سیل شدہ عمارتوں کو واگزار کرکے اس کے حوالہ کرے لیکن انتظامیہ نے اس خط پر کوئی توجہ نہیں دی۔  بنچ نے یوپی حکومت سے کہا کہ ہم آپ سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اس نئے رجحان پر بہت زیادہ متفکر اور پریشان ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ اگر کسی عمارت کا انہدام قانون کے مطابق  ہو تو اسے قانون کے تحت الگ سے نوٹس جاری کرکے کرنا چاہئے۔ضمانت کے فیصلہ میں عائد شرط کی بنیاد پر ایسا کرنا درست نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ملزم کی موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے یونیورسٹی کی عمارتوں کو سیل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

azam khan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK