Inquilab Logo

ورلڈ کپ میں کامیابی : ٹیم انڈیا نے ادھوری امید سے جیتا تھا پورا جہاں

Updated: June 26, 2020, 5:04 AM IST | Kirti Azad

عالمی کرکٹ کپ جیتنے والی ٹیم کے کھلاڑی کیرتی آزاد نے کہا کہ کسی نے خطاب جیتنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا جبکہ مدن لال کا کہنا ہے کہ ۱۹۸۳ء ورلڈ کپ کی جیت نے ہندوستان میں کرکٹ کے سنہرے دور کا آغاز کیا تھا

Team India 83 World Cup - Pic : INN
ورلڈ کپ ٹیم انڈیا ۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان نے کرکٹ کا پہلا عالمی کپ جیتا ضرور تھا لیکن آدھی ادھوری امیدوں کے ساتھ۔نہ تو ہندوستانی کرکٹ ٹیم ہی اس جیت کے تعلق سے کوئی خواب لے کر انگلینڈ گئی تھی اور نہ دیگر ممالک کی ٹیمیں ہندوستان کی موجودگی سے کسی طرح کا تناؤ محسوس کر رہی تھیں۔لیکن اس عالمی کپ نےہندوستانی کرکٹ کو نہ صرف ملک میں بلکہ پوری دنیا میں باوقار مقام پر پہنچا دیا ۔ اسی ہندوستانی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے سابق کرکٹ کھلاڑی کیرتی آزاد نے انقلاب کے ساتھ عالمی کپ کے اُن دنو ں کو یاد کیا۔
 کیرتی آزاد نے بتایا کہ ۱۹۸۳ء میں ۲۸۔۲۹؍مئی کو ان کے پاس ٹیم کے کپتان کپل دیو کا فون آیا کہ عالمی کپ کےلئے تمہارا انتخاب ہوگیا ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ڈیڑھ مہینے کی ’پیڈ ٹرِپ‘ کا انتظام ہوگیا ہے۔حالانکہ اس وقت بھی وہ،مہندر امرناتھ اور ملک کے دیگر کھلاڑی کاؤنٹی کلب کے بلانے پر نارتھ انگلینڈ میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔اس فون کے بعد کیرتی آزاد کو انگلینڈ اور امریکہ گھومنے کا خواب بھی پورا ہونے کی امید تھی۔
 کیرتی آزاد نے مزید بتایا کہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کو ۱۹۸۳ء کے عالمی کپ میں سخت محنت کے باوجود سیمی فائنل تک ہی پہنچنے کی امید تھی۔عالمی کپ جیتنے کا تو کسی کے دل میں خیال بھی نہیں تھا۔لیکن جب پہلا میچ۲؍بار کی ورلڈ چمپئن ٹیم ویسٹ انڈیز کے ساتھ کھیلا اور اس میں کامیابی حاصل کی گئی تو کھلاڑیوں کے اعتماد میں زبردست اضافہ ہوا۔ہمیں محسوس ہوا کہ یہ میچ ہم نے ایسے ہی نہیں جیت لیا بلکہ محنت کرکے جیتا ہے۔اس کے بعد جب کپل دیو نے زمبابوے کیخلاف ۱۷۵؍رنوں کی شاندار اننگز کھیلی تو ہمیں امید کی کرن نظر آنے لگی۔
 کیرتی آزاد بتاتے ہیں کہ ۱۹۸۳ء کا ورلڈ کپ ہندوستانی کرکٹ کےلئے ایک ٹرننگ پوائنٹ کہا جا سکتا ہے۔ہندوستانی ٹیم میں صلاحیتیں بڑھنے لگیں اور ٹیم انڈیا کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔اس کے بعد ملک میں  کرکٹ کا اچھا ڈھانچہ تیار ہوا۔پرائیویٹ کمپنیوں نے بھی اسپناسر کرنا شروع کردیا۔کیرتی آزاد نے موجود حالات کے تعلق سے کہا کہ اتنے طویل عرصہ میں کرکٹ میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔تب اور آج کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
یہ ہندوستانی کرکٹ کی سب سے بڑی کامیابی تھی
 ہندوستانی کرکٹ میں کپل دیو کی کپتانی میں ٹیم انڈیا نے ۲۵؍ جون ۱۹۸۳ء کو ایسا کارنامہ انجام دیا تھا جو آج تک کسی بھی ہندوستانی کے ذہن سے نکل نہیں سکا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ۲۰۱۱ء میں دوبارہ عالمی کپ جیتنے کے باوجود پہلے ورلڈ کپ کی جیت کا جو نشہ ہندوستانی کرکٹ شائقین کے دل و دماغ پر چھایا تھا اس سے آج ۳۷؍سال بعد بھی وہ مسرور ہوتے ہیں۔
 اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجودبھی جب ہم اُس ٹیم میں شامل کھلاڑیوں سے پوچھتے ہیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اُس دور کی بات ہی کچھ اور تھی۔۱۹۸۳ء کے عالمی کپ میں اپنی گیندبازی سے سبھی کو حیران کر دینے والے سابق کرکٹر مدن لال کہتے ہیں کہ یہ ہندوستانی کرکٹ کی سب سے بڑی کامیابی ہی نہیں تھی بلکہ یہ کرکٹ  میں تجسس بڑھانے والی جیت تھی جس نے ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ کو بدل کر رکھا دیا۔
 مدن لال کہتے ہیں کہ ۱۹۸۳ء کی جیت کے بعدہندوستان نے دنیائے کرکٹ میںپُر وقار طریقے سے قدم رکھا تھا۔ ہمیں ایک پہچان ملی تھی۔ملک میں کرکٹ کو فروغ حاصل ہواتھا۔اس جیت کے بعد والدین اپنے بچوں کو کرکٹ کی جانب راغب کرنے لگے تھےاور ان کا حوصلہ بڑھانے لگے تھے۔وہ اپنے بچوں کو کرکٹ اکیڈمی میں تربیت حاصل کرنے کیلئے بھیجنے لگے تھے۔ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ہندوستانی کرکٹ میں خوشنما تبدیلی دیکھنے کو ملی۔
 ۱۹۸۳ء ورلڈکپ کے فائنل میں اپنی گیند بازی سے ویسٹ انڈیز کے جارح بلے باز ووین رچرڈس کو آؤٹ کرتے ہوئے ٹیم کی کامیابی میں اہم رول ادا کرنے والے مدن لال کہتے ہیں کہ جب ہم نے عالمی کپ میں جیت حاصل کی تب ہی ہماری تعریفیں ہونے لگیں اور ہماری کامیابی کی ستائش کی جانے لگی۔اسی لئے آج کے نوجوان جو کرکٹ میں اپنی پہچان بنانا چاہتے ہیں ان سے یہی کہنا چاہوں گا کہ دیگرچیزوں کے بجائے وہ اپنے کھیل پر توجہ مرکوز کریں کیوںکہ جب وہ اچھا کھیلیںگے تب ہی اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہو سکیں اور منزل تک پہنچ سکیںگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK