Inquilab Logo

تیز گیندباز عبداللہ موسیٰ کو ٹیم انڈیا کی نمائندگی نہیں کرنے کا افسوس ہے

Updated: August 10, 2020, 10:27 AM IST | Agency

سابق گیندباز نے ممبئی کی جانب سے رنجی میچ کھیلے ہیں اور تقریباً ۲۰۰؍وکٹ لینے میں کامیابی حاصل کی ہے

Abdullah Musa
عبد اللہ موسیٰ

ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے جب کوئی تیز گیندباز اپنی ریاست کیلئے ۲۰۰؍وکٹ لینے کے قریب ہو اور اس نے اپنے ملک کی جانب سے کسی میچ میں شرکت نہیں کی ہو۔ عبداللہ موسیٰ اسماعیل ایسےہی تیز گیندباز ہیں جنہوں نے ممبئی  کیلئے کرکٹ کھیلا ہے لیکن وہ قومی ٹیم کی جانب سے نہیں کھیل سکے تھے۔
 آج عبداللہ موسیٰ اسماعیل ۷۵؍برس کے ہوگئے ہیں۔ اوشیورہ میں رہنے والے سابق تیز گیندبازنے رنجی ٹرافی میں ممبئی کی جانب سے نمائندگی کی ہے۔ اپنے کریئر میں انہوں نے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور وہ ان سب کو بھول چکے ہیں یہاں تک کہ وہ انگلینڈ کے دو دورے (۱۹۷۱ء اور ۱۹۷۴ء) کے بارے میں بھی بات نہیں کرنا چاہتے۔ وہ متذکرہ دوروں کے اسکواڈ میں شامل تھے۔ وہ صرف اپنے کرکٹ کے بارے میں بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
 اتوار کو عبداللہ موسیٰ اسماعیل نے انقلاب کو بتایا ’’۱۹۷۱ء میں ویسٹ انڈیز میں فاتح رہنے والی ٹیم کے اعزاز میں سینٹرل بینک آف انڈیا میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں دلیپ سردیسائی نے مجھ سے کہا تھا کہ تم ہمارے ساتھ انگلینڈ آرہے ہو، مجھے لگا کہ وہ مذاق کر رہے ہیں، لیکن وہ سچ کہہ رہے تھے۔‘‘خیال رہےکہ عبداللہ سینٹرل بینک آف انڈیامیں ملازمت کیا کرتے تھے۔ 
 عبداللہ آؤٹ سوئنگ گیندبازی کیا کرتے تھے اور دیگر ایک تیز گیندباز کیلاش گٹانی نے ان کی بولنگ کی تعریف کرتے ہوئے اتوار کو بتایا کہ بلے باز ان کی سوئنگ گیندبازی کو سمجھ نہیں پاتا تھا۔    دسمبر ۱۹۷۲ءمیں راجکوٹ میں ہونےو الے رنجی میچ میں عبداللہ کی گیندبازی کی بدولت ممبئی نے سوراشٹر کو زیر کردیاتھا۔ اس میچ میں انہو ںنے ۱۰۲؍رن پر ۱۱؍وکٹ لئے، ایک اننگز میں انہوں نے ۵۹؍رن دے کر ۷؍وکٹ لئے تھے۔ سنیل گاوسکر نے بھی ’سنی ڈیز ‘ میں عبداللہ کی کارکردگی کو یاد کیا تھا، جب انہو ںنے ۷۴۔۱۹۷۵ء کے رنجی ٹرافی فائنل میں ممبئی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس میچ میں عبداللہ نے۱۰؍ویں نمبر پرکھیلتے ہوئے ۲۳؍رن بنائے تھے۔ 
 گیندبازی کے ساتھ ہی عبداللہ موسیٰ اسماعیل بلے بازی میں بھی سنجیدہ رہتے تھے۔ ۱۹۶۶ء میں کانگا لیگ کے میچ میں انہوں نے ایف ڈوژن کے میچ میں نصف سنچری بنائی تھی۔ انہوں  نے کہا ’’میں نے پہلی بار سرخ گیند سے کرکٹ کھیلا تھا۔  نصف سنچری بنانے پر میں نے اپنا بلہ ساتھیوں کی طرف لہرایا اور اسی وقت میں حریف ٹیم کے خیمے میں بھی چلا گیا تھا۔میری ٹیم کے خیمہ سے آواز آئی تھی ، میاں ہماراخیمہ یہاں ہے۔ ‘‘ انہوں نے اس واقعہ کو بھی یاد کیا جب وہ غلطی سے آزاد میدان کےبجائے میچ کھیلنے کیلئے شیواجی پارک پہنچ گئے تھے۔ انہوںنے جلد ہی اپنی غلطی سدھار لی تھی۔ 
 عبداللہ نے ۷۰۔۱۹۶۹ء میں رنجی کریئر کا آغاز کیا تھا اور ۷۸۔۱۹۷۷ءکا سیزن ان کے کریئر کا آخری سیزن تھا۔ممبئی کے تیز گیندباز نے بتایا’’گجرات کے خلاف مجھے ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس وقت گجرات کے خیمہ میں خوشی کا ماحول تھا کیونکہ میں باہر بیٹھا ہوا تھا۔ ‘‘اس سیزن میں ممبئی کی ٹیم ناک آؤٹ راؤنڈ میں بھی نہیں پہنچ پائی تھی۔ہندوستان کی جانب سے انہیں نمائندگی نہیں کرنے کاافسوس ہے لیکن انہیں اس بات کی خوشی ہےکہ ان کے بیٹے نے ڈیوس کپ میں ہندوستانی ٹیم کی نمائندگی کی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK