Inquilab Logo

جنگ زدہ ملک سے اٹھ کر ٹینس کی دُنیا میں اپنی بادشاہت کاپرچم لہرانے والانوواک جوک

Updated: March 19, 2021, 1:54 PM IST | Mumbai

مثل مشہور ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں دکھائی دے جاتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں وہ ’’پوت‘‘ نوواک جوکووچ تھا جس کے پاؤں اُس کی اولین کوچ یلینا گینسچ نے پالنے میں دیکھ لئے تھے۔ نوواک نے گزشتہ دنوں جب ورلڈ ریکارڈ بنایا، تب اُنہیں سب سے زیادہ غم اس بات کا ہوگا کہ اُنہیں ’’ورلڈ نمبر وَن‘‘ پوزیشن پر دیکھنے اور خوشی سے پھولے نہ سمانے کیلئے یلینا اس دُنیا میں نہیں ہیں۔ یلینا یکم جون ۲۰۱۳ء کو اس دُنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اُنہوں نے نوواک کی صلاحیتوں کو اُس وقت بھانپ لیا تھا جب وہ صرف ۶؍ سال کے تھے۔ اُنہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔

Novak Djokovic .Picture :INN
نوواک جوکووچ ۔تصویر:آئی این این

 مثل مشہور ہے کہ پوت کے پاؤں پالنے میں دکھائی دے جاتے ہیں۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں وہ ’’پوت‘‘ نوواک جوکووچ تھا جس کے پاؤں اُس کی اولین کوچ  یلینا گینسچ نے پالنے میں دیکھ لئے تھے۔ نوواک نے گزشتہ دنوں جب ورلڈ ریکارڈ بنایا، تب اُنہیں سب سے زیادہ غم اس بات کا ہوگا کہ اُنہیں ’’ورلڈ نمبر وَن‘‘ پوزیشن پر دیکھنے اور خوشی سے پھولے نہ سمانے کیلئے یلینا  اس دُنیا میں نہیں ہیں۔ یلینا  یکم جون ۲۰۱۳ء کو اس دُنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اُنہوں نے نوواک کی صلاحیتوں کو اُس وقت بھانپ لیا تھا جب وہ صرف ۶؍ سال کے تھے۔ اُنہیں کوئی نہیں جانتا تھا۔ یلینا نے بعد میں بتایا تھا کہ ’’نوواک کو ٹینس کھیلتا ہوا دیکھ کر مجھے محسوس ہوا تھا کہ مونیکا سیلس کے بعد یہ پہلی بڑی صلاحیت ہے جو مَیں دیکھ رہی ہوں، یہ گولڈن بوائے ہے۔‘‘ یلینا  ہی نے تین برس بعد اُن کے جرمنی جانے اور پیلک ٹینس اکیڈمی سے وابستہ ہونے کا انتظام کیا تھا۔  یقیناً وہ انسان خوش قسمت ہوتا ہے جسے صلاحیت کی شناخت اور ذہانت کا اندازہ لگانے والے اساتذہ زندگی کے ابتدائی دور میں مل جاتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کی تربیت کیلئے طویل عرصہ میسر آتا ہے۔ نوواک کو یلینا  کیا ملیں، قسمت اُن پر مہربان ہوگئی۔ یلینا نے ایک دن نوواک سے پوچھا تھا: ’’بڑے ہوکر کیا بنو گے؟‘‘ نوواک نے برجستہ جواب دیا تھا:  ’’دُنیا کا نمبر وَن پلیئر۔‘‘ واضح رہے کہ نوواک کا وہ انٹرویو موجود ہے جو اُنہوں نے سات سال کی عمر میں دیا تھا اور جس میں اُنہوں نے پوری دُنیا میں اولین مقام حاصل کرنے کا عزم کیا تھا۔یہ وہ دور تھا جب ٹینس پر پیٹ سمپراس کی حکمرانی تھی۔ 
 بالآخر وہ دن پیر، ۸؍ مارچ کو آیا جب نوواک نمبر وَن پلیئر قرار دے دیئے گئے۔ اُنہوں نے مردوں کی رینکنگ میں، اے ٹی پی ٹور میں سب سے زیادہ ہفتوں تک نمبر وَن بنے رہنے کا راجر فیڈرر کا ریکارڈ توڑ دیا۔وہ اس مقام پر ۳۱۱؍ ہفتے رہے، فیڈرر سے ایک ہفتہ زیادہ۔ 
 اکثر لوگ حالات کے شاکی ہوتے ہیں۔ ہم غریب ہیں۔ ہمارے پاس مواقع نہیں ہیں۔ ہماری رہنمائی کون کرے گا۔ ہمارے ساتھ تعصب ہوتا ہے، امتیاز برتا جاتا ہےیا بڑے خواب بڑے لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ نوواک جوکووچ جیسے مسائل تو شاید بہت کم لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔وہ جب عمر کی ۷؍ ویں، ۸؍ ویں بہار دیکھ رہے تھے تب اُن کے ملک سربیا پر ناٹو کی بمباری جاری تھی۔ ٹینس کھیلنا تو بہت دور کی بات، باہر نکلنا مشکل تھا۔ ان حالات میں بھی اُن کی کوچ یلینا ٹینس کھیلنے اور بچوں کو سکھانے کا اہتمام کرتی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس دور میں وہ ایسے مقامات کا انتخاب کرتیں جہاں ایک دن پہلے بمباری ہوچکی ہوتی۔ اس کے پیچھے یہ احساس ہوا کرتا تھا کہ دوسرے دن بھی اُسی مقام پر بمباری نہیں ہوسکتی، ناٹو اتنا بے وقوف نہیں ہے۔ اس طرح وہ بمبار طیاروں سے لوہا لینے میں کامیاب ہوجایا کرتے اور ٹینس کی مشق جاری رکھتے تھے۔ 
 غربت اور جنگ کی تباہی نوواک کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ ظاہر ہے خوف اور مایوسی بھی ماحول پر طاری رہا کرتی ہوگی۔ اُن کا بچپن ان گنت مسائل سے گزرا ہوگا مگر انہی مسائل کے درمیان سے اپنا راستہ نکالنے اور ہمت نہ ہارنے ہی کا نتیجہ ہے کہ آج پوری دُنیا میں اُن کا طوطی بول رہا ہے۔ ’’ہر چیز ممکن ہے اگر آپ، اپنے ہدف کو حرزِ جان بنالیں۔‘‘ نوواک کہتے ہیں: ’’آپ کے ساتھ وہ ٹیم بھی ہونی چاہئے جو آپ کی صلاحیتوں پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرتی ہو۔‘‘ ایک اور بیان میں نوواک نے کہا: ’’ہم اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات سے گزرتے ہیں۔ میرا سفر بھی آسان نہیں تھا مگر اس (مشکل سفر ) نے مجھے مضبوطی عطا کی۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ہمارے ہاں دو جنگیں ہوئیں۔ جنگ زدہ ملک میں پلنا بڑھنا، خواب تراشنا اور اس کی تعبیر ڈھونڈنا بڑا چیلنج تھا۔ لیکن مجھے انہی دشواریوں سے طاقت ملی۔ مَیں آج بھی ٹینس ریکیٹ اُٹھاتا ہوں تو اُتنی ہی خوشی ہوتی ہے جتنی پانچ چھ سال کی عمر میں ہوتی تھی۔‘‘
 ۳۳؍ سالہ نوواک جوکووچ نے ۹؍ آسٹریلین اوپن،  ۱۸؍ گرینڈ سلیم اور ۳۶؍ ماسٹرس ایونٹس جیتے ہیں۔ آخر الذکر بھی اپنے آپ میں ریکارڈ ہے۔ وہ اے ٹی پی ٹور کے تمام ۴؍ گرینڈ سلیم اور تمام ۹؍ ماسٹر ایونٹس جیتنے والے دُنیا کے اولین کھلاڑی ہیں۔ ۲۲؍ مئی ۱۹۸۷ء کو بلغراد میں پیدا ہونے والے نوواک نے چار سال کی عمر میں ٹینس کھیلنا شروع کیا تھا۔آج وہ اس مقام پر ہیں جو ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے۔ یہاں تک اُن کی رسائی اُس خود اعتمادی کی وجہ سے ہوئی ہے جسے اُنہوں نے اپنے مداحوں کے نام کئے گئے ایک ٹویٹ میں ’’Belief‘‘ کہا تھا۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے جو الفاظ استعمال کئے تھے، وہ یہ تھے: اپنے آپ پر بھروسہ، اپنی صلاحیت پر بھروسہ، اپنے ہنر پر بھروسہ اور لچکدار رویہ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ پیغام دیا تھا کہ مشکلات سے ٹکرائیے خود پر بھروسہ آپ کی حفاظت کریگا۔
 نوواک کے کریئر کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا، بہت کچھ لکھا جائیگا مگر ممکن ہے کہ اُن کے انسانی چہرے پر زیادہ توجہ نہ دی جائے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اُنہیں اپنے ملک،اپنے خاندان اور اپنے والدین کے مسائل کا احساس ہے۔ ایک بار انہوں نے کہا تھا  ’’میرے والد نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ خاندان نے میرے لئے کتنی قربانیاں دی ہیں۔‘‘ ایک اور موقع پر انہوں نے سربیائی روایات اور طرز فکر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ ’’خاندانی روایات سے جڑے رہنا سربوں کی تاریخ ہے۔‘‘ اسی طرح ایک بار ماں کو یہ کہتے ہوئے خراج پیش کیا تھا کہ ’’میری زندگی کا اہم حصہ ہے میری ماں، اس نے ہم لوگوں کو انتہائی سخت حالات میں سنبھالا دیا جب ہم جنگ بھگت رہے تھے۔‘‘ گزشتہ سال جب کورونا کی وباء پھیلی تو نوواک نے ۱۰؍ لاکھ یورو دینے کا اعلان کیا تاکہ جن لوگوں کو وینٹی لیٹر نہیں مل رہا ہے اور جو لوگ تکلیف میں ہیں اُنہیں راحت مل سکے۔ مذکورہ بیانات اور کورونا کے لئے خطیر رقم کے عطیہ سے صاف ظاہر ہے کہ نوواک ومبلڈن کی دُنیا میں نام کمانے، گریٹ تھری (فیڈرر، ندال اور نوواک) میں شامل ہونے اور پھر دیگر دو کو پیچھے چھوڑ دینے والے ٹینس کے شہنشاہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہیں۔ وہ باپ سے محبت کرنے والے، ماں کی قربانیوں کو یاد کرنے والے، پہلی کوچ یلینا  گینسچکی موت پر بلک بلک کر رونے والے، اپنے ملک سربیا کی سرخروئی کی تمنا رکھنے والے اور مشکل حالات میں ملک کے عوام کی مدد کرنے والے ایک دردمند انسان ہیں۔ اسی دردمند انسان نے جہاں نمبر ون تک رسائی کیلئے بڑی جدوجہد کی وہیںسربیا کے غریب بچوںکی تعلیم اور صحت کیلئے ’’نوواک جوکووچ فاؤنڈیشن‘‘ بھی قائم کیا ہے۔ اُن کی دردمندی کی گواہی اُس پیغام سے بھی ملتی ہے جو اُن کے فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر ’’لیٹر فرام دی فاؤنڈر‘‘ کے ذیل میں پڑھا جاسکتا ہے۔
 جوکووچ کا ملک سربیا بھلے ہی جنگ کا میدان بنا مگر وہ اپنے اصل میدان (ٹینس کورٹ) پر موجود شائقین اور ٹورنامنٹ کے اسٹاف کے ساتھ خوشیاں بانٹنے میں یقین رکھتے ہیں۔ کورٹ پر بال بوائے اور ریفری کےساتھ ان کے ہنسی مذاق کے واقعات مشہور ہیں۔ ایک ٹورنامنٹ میں جب وقفہ ہوا تو انہوں نے ایک بال بوائے کو اپنے قریب بلایا اور اسے اپنا ریکیٹ دے دیا، بال بوائے جو چھتری کھلاڑیوں کیلئے پکڑتے ہیں ، جوکووچ نے وہ بھی پکڑلی اور اسے شربت کی بوتل اور پھل پیش کئے۔ جوکووچ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اپنے ساتھی کھلاڑیوں کی نقل اُتار کربھی شائقین کو محظوظ کرتے ہیں۔ جتنے اچھے وہ کھلاڑی ہیں اتنے ہی اچھے نقال بھی ہیں، رافیل ندال اور ماریا شاراپووا کی ممکری میں اُنہیں گویا کمال حاصل ہے۔ایسی ہی کئی چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعہ وہ اپنی بڑی شخصیت کاتعارف پیش کرتے ہیں اور دلوں پر حکومت کرتے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK