Inquilab Logo

ایک زبردست قہقہہ

Updated: October 15, 2022, 1:08 PM IST | Madan Lall Manchanda | Mumbai

ٓنند صاحب کی تعریف مَیں ہی کیا ساری دُنیا کرتی ہے۔ وہ میرے بہترین دوستوں میں سے ہیں۔ ان کے خلوص کا یہ عالم ہے کہ وہ راہ چلتوں کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

ٓنند صاحب کی تعریف مَیں ہی کیا ساری دُنیا کرتی ہے۔ وہ میرے بہترین دوستوں میں سے ہیں۔ ان کے خلوص کا یہ عالم ہے کہ وہ راہ چلتوں کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں۔ اُن سے ملنے والے ہر شخص کو پہلی ہی ملاقات میں یہ احساس ہونے لگتا ہے۔ شاید ان سے برسوں پرانی واقفیت ہے۔ اُن کی دوست نوازی نے انہیں بے حد ہر دل عزیز بنا دیا ہے۔ بچّہ بچّہ اُن کے نام سے واقف ہے۔ وہ نہایت مہذیب ہیں اور اُن کی باتوں میں شہد سے بھی زیادہ مٹھاس بھری ہے لیکن میری بیوی ہیں کہ اُن کی تشریف آوری کی خبر پاتے ہی کوٹھری میں جا چھپتی ہیں۔ اور موقع نہ ملنے کی صورت میں سر تھام کر فوراً ہی صوفے پر گر جاتی ہیں۔ اور اصلی اور نقلی آہیں یوں بھرتی ہیں گویا آخری سانسیں چل رہی ہوں۔ صاحب موصوف کو ایسی حالت میں اپنی باتیں کہنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ رہائی کی اس آسان سی ترکیب کو وہ بارہا آزما چکی ہیں۔ لیکن اس معاملے میں میری تمام تر ہمدردی آنند صاحب کے ساتھ ہے۔
 بات یوں ہے، گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور میری سالی صاحبہ رانی کھیت سے آتی ہوئی تھیں۔ ایک دن جب آسمان پر بادل چھائے تھے اور موسم دوسرے دنوں کے مقابلے میں کم گرم تھا۔ آنند صاحب نے ہمیں ایک اچھی جاپانی فلم اوپیرا ہاؤس میں دکھانے کی دعوت دی۔ فلم واقعی اچھی تھی اور مَیں نے اس کی کافی تعریف سن رکھی تھی۔ ہم نے آنند صاحب کی دعوت قبول کرلی اور وہ نہایت خوشی خوشی گراج سے اپنی موٹر نکال لائے۔ موٹر کیا تھی آپ اسے شکل و صورت کے اعتبار سے مغلیہ دور کے کسی رئیس کی فٹن بھی کہہ سکتے ہیں۔ اور پہیوں کے بغیر آپ اسے ایک پالکی بھی تصور کرسکتے ہیں جسے کہار کسی بیتے زمانے میں دہلی کی گلیوں میں اُٹھائے لئے پھرتے تھے۔ مَیں آنند صاحب کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ اور میری بیوی اور سالی صاحبہ پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ موٹر چلنے پر مَیں نے یہ محسوس کیا کہ یہ موٹر جیمس وائس کے اُس پہلے انجن سے ملتی جلتی ہے جو صدیوں قبل ایجاد ہوا تھا۔ ملکہ وکٹوریہ کے عہد حکومت سے اب تک چلنے کے بعد اس کے تمام کل پرزے گھس پٹ چکے ہیں اور انجر پنجر ڈھیلے پڑ چکے ہیں۔ اس کے چلتے ہی کانوں میں گھنٹیاں ایسے بجنے لگتی ہیں جیسے دو بیلوں والی کسی بیل گاڑی کے کسی دشوار گزار راستے سے گزرتے وقت سنائی دیتی ہیں۔ ہم نے ابھی آدھی منزل بھی طے نہ کی تھی کہ انجن کا دم گھٹنے لگا اور موٹر کھڑی ہوگئی۔ آنند صاحب کی لاکھ کوشش کے باوجود انجن اسٹارٹ نہ ہوا۔ آنند صاحب تو اسٹیئرنگ سنبھالے ہی تھے اس لئے مجبوراً مجھے اتر کر دھکا لگانے کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آیا۔ لیکن اس خالص لوہے کے کل پرزوں والی گاڑی کو دھکیلنا بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔ مجھے پریشان دیکھ کر میری بیوی اور سالی صاحبہ موٹر سے نیچے اُتریں اور خوش قسمتی سے دو تین قلی اُدھر سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے مجھے رسوائی سے بچا لیا۔ اُن کی مدد سے موٹر چل نکلی لیکن ابھی بمشکل ایک فرلانگ بھی نہ چلی تھی کہ پھر سے انجن بند ہوگیا۔ اُس راستے سے گزرنے والے دو شریف آدمیوں نے میری مدد کی۔ بار بار رُکنا شاید اس موٹر کی عادت تھی جس کا علم شاید مجھے نہ تھا۔ سنیما کے لئے ہم لیٹ تو ہو ہی چکے تھے اس لئے ہم نے واپسی کی ٹھانی لیکن واپسی کے سفر میں بھی وہی دقتیں پیش آئیں اور ہم تھکے ماندے گھر لوٹے۔ آنند صاحب نہایت شرمندہ تھے۔ اور وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی دن وہ اس دن کی پریشانی کی تلافی کرکے ہی دم لیں گے۔ انہوں نے موٹر کی باقاعدہ مرمت کروائی، اور ہمیں پھر سے سنیما چلنے کی دعوت دی۔ لیکن میری بیوی رضا مند نہ ہوئیں۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی اور میری بیوی کبھی کسی اور کبھی کسی بہانے کی آڑ میں پروگرام کو ملتوی کرتی رہیں۔ لیکن آنند صاحب بدستور موقع کی تلاش میں رہے۔ اور اب تو انہوں نے ہمارے ہر بہانے کو کاٹنے کے لئے نئی سے نئی تجویزیں پیش کرنا شروع کر دیں۔ اگر بیوی نے کہا کہ کھانا بنانے میں دیر ہو جائے گی تو آنند صاحب نے فوراً کہا کہ کھانے کا انتظام تو وہ پہلے ہی اپنے ہاں کروا چکے ہیں۔ انہوں نے کسی بھی وقت کا ذکر کیا تو آنند صاحب نے اُس کا فوری حل ڈھونڈ نکالا۔ میری بیوی نے تو اُسی روز سے تہیہ کر لیا تھا کہ خواہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلے وہ آنند صاحب کی موٹر میں پھر کبھی بیٹھنے کا نام نہ لیں گی۔ آنند صاحب کے اصرار جب حد سے بڑھنے لگے تو بیوی نے یہ نئی ترکیب عمل میں لانی شروع کر دی۔ دراصل میری بیوی کو ایسے پُرخلوص دوست کی پیشکش کو بار بار ٹالنے میں سخت کوفت ہوتی تھی۔ مَیں نے تو مشورہ دیا تھا کہ ایسے دوست کی خاطر اگر کچھ تکلیف بھی برداشت کرنی پڑے تو بھی مضائقہ نہیں۔ اُن کی دعوت کو ضرور قبول کر لینا چاہئے لیکن دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ میری بیوی نے میری ایک بھی نہ مانی۔ اور صاف انکار کر دیا۔ لیکن آنند صاحب بھلا کہاں ہمت ہارنے والوں میں سے ہیں۔ وہ نہایت پابندی سے ہر شام ہمارے یہاں پہنچ جاتے۔ اور میری بیوی آہٹ پاتے ہی یہ جا وہ جا۔ حسب ِ معمول ایک شام کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ صاحبہ تو بھاگ کر باتھ روم میں جا گھسیں اور مَیں نے لپک کر دروازہ کھولا۔ توقع کے خلاف میرے سالے صاحب آئے تھے اور انہوں نے آتے ہی کہا کہ وہ کچھ ہی دیر میں بمبئی ایکسپریس سے لوٹ جائیں گے۔ مَیں فوراً بیوی کو بلانے کے لئے دوڑا۔
 ’’اجی، سنتی ہو؟‘‘ ’’مَیں بالکل سننے کی نہیں۔ لو مَیں دونوں کانوں میں انگلیاں ڈالے لیتی ہوں۔‘‘ ’’اشفاق آئے ہیں۔‘‘
 ’’آنند صاحب سے کہہ دو، مَیں گھر میں نہیں ہوں۔‘‘ بیگم نے واقعی کانوں میں انگلیاں ڈال رکھی تھیں۔
 ’’مَیں کہہ رہا ہوں، اشفاق صاحب۔ وہ جلدی میں ہیں۔‘‘ کوئی جواب نہ پا کر مَیں نے پھر کہا، ’’تمہاری قسم بیگم، اشفاق صاحب ہیں۔‘‘ لیکن بدستور خاموشی چھائی تھی۔ مَیں نے دروازے پر کئی بار دستک دی اور بالآخر مجبور ہو کر دروازے پر زور سے ایک لات دے ماری۔ ’’آپ مجھے ناحق پریشان کر رہے ہیں۔‘‘ ’’سن تو لو، آنند صاحب نہیں ہیں، اشفاق صاحب تشریف لائے ہیں۔‘‘
 ’’میرے بھیا؟‘‘
 ’’ہاں!‘‘ دروازے پر میری لات کے دھماکے کو سن کر اشفاق صاحب دوڑے آئے۔ باتھ روم سے چٹخنی گرنے کی آواز آئی۔ اتنی دیر میں آنند صاحب بھی اچانک وہاں آگئے۔ لیکن ہوا یہ کہ جب دروازے کے پٹے کھلے تو اشفاق صاحب جو دائیں جانب کو کھڑے تھے دروازے کی اوٹ میں اوجھل ہوگئے اور میری بیوی کی پہلی نظر آنند صاحب پر پڑئی۔ اور پھر اُن کی آنکھوں نے مجھ پر بجلی گرائی۔ آنند صاحب دنگ رہ گئے۔ اشفاق صاحب بھی گھبرائے گھبرائے سے تھے۔ انہوں نے معاملے کی وضاحت کیلئے میری طرف دیکھا۔
 ....لیکن میرے ہونٹوں سے ایک زبردست قہقہہ بھاگ نکلا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK