Inquilab Logo

امّی کا خط زید کے نام

Updated: April 16, 2022, 10:11 AM IST | Mushtaq Karimi | Jalgaon

پیارے، دلارے، معصوم بھی، بھولے بھی مگر کچھ ضدی اور کچھ شرارتی زید!

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

پیارے، دلارے، معصوم بھی، بھولے بھی مگر کچھ ضدی اور کچھ شرارتی زید!
السلام علیکم!
 امید کہ تم نے لفافہ کھول کر خط پڑھنا شروع کردیا ہوگا۔ اس خط میں وہی باتیں ہیں جو روز تم سے کرتی ہوں، تمھیں سمجھاتی ہوں مگر تم ان باتوں کو ایک کان سے سنتے ہو اور دوسرے کان سے نکال دیتے ہو۔ اس لئے سوچا کہ کیوں نہ خط ہی لکھ دوں۔ میں جانتی ہوں کہ جیسے جیسے اسکول بس تمھیں مجھ سے دور اور اسکول سے قریب لے جائے گی ویسے ویسے ہمارے درمیان کے فاصلے بڑھنے کے باوجود تم دلی طور مجھ سے قریب ہوتے جائو گے۔ تم مجھ سے گفتگو کے لئے وقت نہیں نکال پاتے۔ کھیل کود، شرارتوں اور ٹیلی ویژن میں ایسے گم ہوجاتے ہوکہ جیسے مجھے اور تمہارے ابّو کو بھول ہی گئے ہو۔ مگر اسکول جاتے وقت تمہارا رویہ بالکل بدل جاتا ہے۔ چہرے پر معصومیت، سنجیدگی، کچھ اداسی اور آنکھوں میں ہلکی سی نمی نظر آتی ہے۔ جو اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ تم اپنے گھر، امّی اور پیارے ابّو سے دوری برداشت نہیں کرسکتے۔ اسی لئے سوچا کہ تمہیں خط ہی لکھ دوں۔ تقریر نہ چلی تو تحریر ہی سہی۔  ہاں تو پیارے زید....! تم بہت ذہین ہو مگر تمہاری کمزوری یہ ہے کہ روزانہ اسکول جانے کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوجبکہ ہر طالب علم کا اسکول سے لوٹنے کے بعد ایک دوسرا اسکول شروع ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پیریڈ بیل نہیں بجتی، باری باری اساتذہ پڑھانے کے لئے نہیں آتے کیونکہ وہ اپنا کام اسکول میں کرچکے ہوتے ہیں۔ بچوں کو نصاب سمجھا چکے ہوتے ہیں۔ اب یہ بچے کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سمجھائے گئے سبق کو گھر آکر دہرا لے، یاد کرلے یا اس کی مشق کرلے، تو ذہن فوراً اس معلومات کو جذب کرلیتا ہے اور پھر بچہ اسے کبھی بھول نہیں پاتا۔ سب سے اہم چیز ایسا کرنے سے سبق جلد یاد ہوجاتا ہے۔ خوش نصیب ہوتے ہیں وہ بچے جو ایسا کرتے ہیں اور انتہائی بدقسمت ہوتے ہیں وہ جو آج کا کام کل پر ٹال جاتے ہیں۔ کیونکہ میرے لَوَلی (Lovely) زید کل کبھی آتا نہیں ہے۔ ہمارے قدم کل کی دنیا میں پڑتے ہی اس میں آج کا سورج طلوع ہوجاتا ہے۔ 
 میں نے، تمہارے ابّو اور اساتذہ نے کئی مرتبہ کہا کہ گھر پر پڑھائی کا باقاعدہ ایک ٹائم ٹیبل بنا لو اور اپنے کمرے کی دیوار پر اسے چسپاں کردو مگر ہر مرتبہ تم کوئی بہانہ بنا دیتے ہو۔ ارے بھئی! تم نے ماہ رمضان میںکتنی منصوبہ بند زندگی گزاری۔ نمازوںکی ادائیگی، سحری اور افطار بروقت کئے۔ نہ ایک منٹ پہلے، نہ ایک منٹ بعد۔ میں سچ کہہ رہی ہوں نا!ہاں تو پھر چہیتے زید تم اب وقت کی پابندی سے کیوں جی چرا رہے ہو جبکہ تم ٹائم مینجمنٹ کی ایک ماہ تربیت لے چکے ہو۔ ارے بھئی!میں کھیل کود کے خلاف ہر گز نہیں ہوں مگر یہ ضرور چاہتی ہوں کہ تم کھیل کے وقت کھیلو اور پڑھائی کے وقت خوب پڑھو۔ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے ابّو کتنے مصروف رہتے ہیں۔ دفتر کے کاموں کا کتنا بوجھ ہے ان پر۔ ادھر کچھ دنوں سے بیمار بھی رہنے لگے ہیں۔ اتنی مصروفیات کے باوجود دفتر سے فون کرکے تمہاری خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں۔ جب تمہیں دوستوں، کھیل کود اور ٹیلی ویژن پر انتہائی مصروف دیکھتے ہیں تو بھڑاس مجھ پر نکالتے ہیں کہ بے جا لاڈ پیار سے میں نے تمہیں سرکش بنا دیا ہے۔ اِدھر ان کے الزاماات، اُدھر تمہاری ناراضگیاں اب بتائو بیٹے میں کیا کروں؟ مگر یہ یاد رکھو زید! تمہارے ابّو بہت رحمدل اور ملنسار ہیں۔ بھلا وہ مجھ سے نہیں تو کس سے شکایت کریں گے اور تم بھی یقین جانو بہت پیارے اور کیوٹ (Cute) ہو مگر یہ ذہن میں رکھو کہ اب تم ہشتم جماعت میں آگئے ہو۔ یہ زندگی کا سلطانی دور ہے۔ تم بوڑھے ہوکر بھی اس دور کو یاد رکھو گے کہ اس دور کی یادیں کبھی بھلائی نہیں جاسکتیں۔ اس لئے میرے راج دلارے تم زندگی کے اس یادگار دور کی تصویر میں اپنی محنت، لگن، جستجو اور انہماک کے رنگ بھرتے جائو، بھرتے جائو۔ 
 اب تمہارا اسکول قریب آگیا ہوگا اس لئے اپنی بات سمیٹ رہی ہوں۔ بس اتنا یاد رکھو تمہاری ماں ہوں کوئی دشمن نہیں۔ تمھیں بے انتہا چاہتی ہوں، خود سے بھی زیادہ۔ تمہارے تعلق سے فکر مند بھی رہتی ہوں۔ اسی لئے تمہارے ہاتھوں سے ابّو کا موبائیل چھین لیتی ہوں تو تم ناراض ہوجاتے ہو مگر تم یہ تو سوچو کہ ایک ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کے ہاتھوں میں زہریلا ناگ بھلا کیسے برداشت کرسکتی ہے! ہاں زید، اس موبائل میں رنگینیوں کا زہر ہی زہر ہے۔ اچھائی کا کچھ امرت بھی ہے مگر ابھی تمہاری عمر نہیں کہ زہر اور امرت میں فرق پہچان سکو۔ ہمارے روکنے ٹوکنے اور نصیحتوں سے ناراض ہوکر تم منہ پھلا لیتے ہو۔ اب سب بھول جائو اور جب گھر لوٹو تو دوڑتے ہوئے تمہارے ابّو کے پیروں سے جھول جائو۔ ہم دونوں آج تمہارا بےصبری سے انتظار کریں گے۔ بس ایک احسان کرنا بیٹے ہم دونوں سے جب لپٹو گے تو رونا نہیں۔ ورنہ ہم بھی رو پڑیں گے۔ اچھا....
اللہ حافظ،
تمہاری امّی
 اسکول بس اسکول کے احاطہ میں داخل ہوچکی تھی۔ زید کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ اس کا جی تو چاہ رہا تھا کہ وہ فوراً گھر لوٹ جائے مگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ آج اسکول کا ایک ایک پیریڈ اسے ایک ایک دن کا معلوم ہورہا تھا۔ وہ گھر پہنچنے کے لئے انتہائی بے چین تھا۔ جیسا اس نے پڑھا تھا ویسا ہی منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ امّی ابّو ہاتھ پسارے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ زید دوڑتا ہوا آیا اور اپنے ابّو سے لپٹ گیا۔ پھر امّی سے چمٹ گیا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اشکوں کی بارش ہورہی ہو۔ ندامت کے آنسوئوں نے اس کے چہرے پر عجیب سی چمک پیدا کردی تھی۔ جب وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا توپلنگ اور میز پر بچوں کے رنگ برنگی رسالے اور اخبارات اس کا استقبال کررہے تھے۔ اس نے بستہ رکھا اور اپنے اطراف و اکناف سے بے نیاز ہوکر ان پرچوں پر ٹوٹ پڑا۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی انتہائی پیاسا شخص پانی پر ٹوٹتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK