• Mon, 03 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بڑے بول کا سَر نیچا

Updated: November 01, 2025, 4:20 PM IST | Shaughta Nazli | Mumbai

اکثر بڑا بول دوسروں کے سامنے شرمندہ کرتا ہے، یہ کہانی اس کی مثال ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’بیٹے اخضر، ذرا یہاں آنا۔‘‘ ماں نے کھانستے ہوئے باورچی خانے سے کہا۔ ’’آیا امّی۔‘‘ اخضر دوڑتا ہوا اُن کے پاس پہنچ گیا۔ ’’بیٹے ذرا بازار سے مرچیں تو لے آؤ۔ جب تم بازار گئے تھے تو کہنا بھول گئی تھی اور ہاں وہاں سے اپنے ابّا کے آفس میں یہ بھی کہہ آنا کہ آج ابّا آفس نہیں آئینگے۔ اُن کی طبیعت خراب ہے وہ چارپائی سے نہیں اُٹھ سکتے۔‘‘ ’’اچھا امّی۔‘‘ یہ کہہ کر اخضر مُڑا ہی تھا کہ امّی نے پھر کہا، ’’دیکھو اخضر، نواب صاحب سے دس روپے لیتے آنا اور روپے لیتے آنا اور روپے ذرا ادب سے مانگنا۔‘‘ ’’جی امّی!‘‘ کہہ کر اخضر باہر نکل گیا۔
اخضر ایک بہت ہی نیک لڑکا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا لڑکا تھا۔ وہ اسکول میں ہمیشہ اوّل یا دوم آیا کرتا تھا۔ وہ اپنی کلاس کا سب سے زیادہ غریب لڑکا تھا.... وہ تو نواب صاحب کی مہربانی تھی کہ وہ اسکول میں تعلیم پا رہا تھا۔ اخضر اپنی زندگی کو دیکھتا اور تمام کلاس کے لڑکوں کو دیکھتا تو اُسے رونا آجاتا۔ کلاس کے لڑکے اُسے بہت ہی اسمارٹ لگتے تھے اور اخضر اُن لوگوں میں سب سے حقیر نظر آتا۔
ہاتھوں میں مرچیں لئے ہوئے اخضر نواب صاحب کے دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ اندر سے آنے والے شخص سے اُس کی ٹکّر ہوگئی.... اور اخضر کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے۔ مرچیں زمین پر بکھر گئیں۔
’’کیوں رے، تجھے دکھائی نہیں دیتا نہ چلنا آتا ہے.... اور نہ دیکھنا۔ اور مزاج دیکھو آسمان پر چڑھا رکھا ہے۔ آج تو معاف کیا۔ آئندہ ایسا ہوا تو کھال اُدھیڑ دوں گا۔‘‘ سمیر غصے میں تنتناتا ہوا گزر گیا۔ اور اخضر مرچوں کو جمع کرنے لگا۔
سمیر نواب صاحب کا اکلوتا لڑکا تھا۔ وہ لاڈ پیار میں بگڑ گیا تھا۔ وہ اخضر کی ہی کلاس میں پڑھتا تھا، لیکن مہینے میں صرف دس بارہ دن ہی حاضر رہتا۔ نواب صاحب اُس کی عادتوں سے بہت پریشان رہتے تھے۔ چونکہ نواب صاحب اخضر کو بہت پیار کرتے تھے، اس لئے سمیر اُس سے بات بات پر لڑ پڑتا اور موقع ملتا تو اُسے مار بھی دیتا۔ لیکن اخضر کسی سے کوئی شکایت نہ کرتا۔
اخضر مرچیں جمع کرکے آفس میں گیا۔ نواب صاحب اُس سے بہت پیار سے ملے۔ اس سے آنے کی وجہ پوچھی تو اخضر نے وجہ بتا دی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے دس روپے نکال کر اخضر کو دے دیئے اور کہنے لگے، ’’بیٹا! اگر ابّو نہ آئے تو کیا ہوا۔ اُن سے کہنا جلدی نہیں ہے جب بھی طبیعت بالکل ٹھیک ہوجائے تو آئیں۔‘‘
اخضر اُن کی نیکی دیکھ کر عش عش کر اُٹھا۔ اُس نے نواب صاحب سے اجازت مانگی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ ابھی گیٹ کے باہر نکلا ہی تھا کہ کسی نے اس کا کالر پکڑ کر کھینچ لیا۔ اخضر اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا اور کھینچنے والے کے قدموں میں گِر پڑا۔ جب اُس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا سمیر کھڑا ہے اور اس کے ہاتھوں میں دس روپے کا وہ نوٹ ہے جو ابھی ابھی نواب صاحب نے اس کو دیا تھا۔ اخضر کی نگاہوں کے سامنے چارپائی پر پڑے ہوئے بیمار باپ کی تصویر گھوم گئی۔ اُس نے سمیر کے پاؤں پکڑ لئے اور گڑگڑا کر کہنے لگا، ’’نہیں، یہ روپے نہ لینا سمیر۔ میرے ابو مر جائیں گے۔ رحم کرو سمیر۔ رحم کرو۔ یہ روپے مجھے دے دو۔ بعد میں تمہیں لوٹا دوں گا۔‘‘
سمیر نے حقارت کی نظر اخضر پر ڈالی اور کہنے لگا، ’’اونہہ! روز روپے لے جاتے ہو۔ کیا وہ سب تم واپس کر دو گے؟ مر جانے دو ایسے باپ کو جو تم کو پڑھا نہیں سکتا۔ کھلا نہیں سکتا اور دوسروں کے در پر حرام کی روٹی کھانے بھیج دیتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر سمیر روپے لے کر چلا گیا۔
اخضر سسک پڑا۔ اب اس کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ دوبارہ نواب صاحب کے پاس جائے۔ وہ سیدھا گھر چلا گیا اور گھر پر ماں کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ امّی سمجھ گئیں کہ سمیر نے کچھ کیا ہوگا۔ ایسا تو آئے دن ہوتا رہتا تھا۔ امّی نے اُسے دلاسہ دیا۔ اور آنسو پونچھتے ہوئے باورچی خانے میں چلی گئیں۔
اخضر نے عہد کر لیا کہ وہ اب نواب صاحب کے پیسوں پر بالکل نہ پڑھے گا۔ اُس نے اسکول جانا بند کر دیا۔ جب نواب صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے اُسے بلا کر خوب ڈانٹا اور کہا، ’’مَیں تمہیں بیٹا مانتا ہوں اور تم بھی سمیر کی طرح میری نظروں سے گِر جانے کی کوشش کر رہے ہو۔ میرا ایک بیٹا تو آٹھویں کلاس میں فیل ہو کر آوارہ گردی کر ہی رہا ہے۔ میری تمام آرزوئیں تم سے وابستہ ہیں اور تم ہو کہ پڑھنے سے انکار کرتے ہو۔‘‘ اخضر نے اُن کی اس بے لوث محبت کے سامنے سَر جھکا لیا اور پھر وہ دوسرے دن سے ہی اسکول جانے لگا۔
دن بیتتے گئے۔ سمیر کی عادتیں جیسی تھیں ویسی ہی رہیں۔ اخضر کے والد کا طویل بیماری کے بعد انتقال ہوگیاا ور اخضر بی اے پاس کرکے شہر چلا آیا۔ شہر میں اُسے ایک اچھی نوکری مل گئی۔ ابھی نوکری کرتے ہوئے ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ اُڑتی ہوئی خبر آئی کہ نواب صاحب کا انتقال ہوگیا ہے۔ اخضر پاگلوں کی طرح نواب صاحب کے یہاں پہنچا، لیکن دروازے پر ہی سمیر مل گیا۔ سمیر اُسے دیکھتے ہی آگ بگولا ہوگیا اور کہنے لگا، ’’کیوں، اب پُرسہ دینے آیا ہے یا دولت میں حصہ بٹانے۔ آخر نواب صاحب کا بیٹا جو ٹھیرا۔ مجھے معلوم تھا کہ نواب صاحب جائیداد کا آدھا حصہ تجھے دیں گے، لیکن یاد رکھ مَیں تجھے ایک پائی بھی نہ دوں گا۔ اب چلا جا یہاں سے ورنہ تجھ پر کتّے چھوڑے دیتا ہوں۔‘‘
بے چارہ اخضر جس طرح آیا تھا اسی طرح واپس چلا گیا۔ وہ تو ہمیشہ سمیر کو اپنا بھائی سمجھتا تھا۔ مگر سمیر اُسے ہمیشہ ایک فقیر کا بیٹا سمجھتا تھا۔
سمیر خوب روپیہ اُڑانے لگا۔ اُس نے یہ کبھی نہ سوچا تھا کہ اُس کی جائیداد ختم ہوجائے گی۔ وہ پورے ہندوستان کی سیر بھی کر آیا تھا۔ اِدھر اخضر کی روز بروز ترقی ہوتی رہی۔ اُس کے مالک نے اُس کی ایمانداری سے خوش ہو کر اپنی اکلوتی بیٹی سے اُس کی شادی کرا دی۔ ایک دن اخضر اور رضیہ گھومنے کی غرض سے نکلے تھے کہ ایک شخص اُن کی گاڑی کی زد میں آکر مرتے مرتے بچا۔ جب اخضر نے دیکھا تو فوراً پہچان لیا کہ یہ تو سمیر ہے۔ وہ اُسے اسپتال لے گیا۔ جب تھوڑی دیر کے بعد سمیر کی آنکھ کھلی تو وہ اخضر کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اس کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگنے لگا۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ اس کی یہ حالت اُن دوستوں کی وجہ سے ہوئی جن پر اُسے ناز تھا۔ چونکہ پڑھا لکھا نہ تھا، اس لئے کسی نے اُسے نوکری بھی نہ دی۔ اب اُسے پتہ چلا کہ غرور کرنے والے شخص کا سَر اونچا نہیں رہتا۔
اپنی کہانی سُنا کر سمیر پھر ایک بار رو کر معافی مانگنے لگا۔ اخضر نے اُسے سچّے دل سے معاف کر دیا اور سمیر کو گلے لگا لیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK