Inquilab Logo

نگاہ کا دھوکہ

Updated: January 29, 2022, 11:29 AM IST | Tasneema Haider | Mumbai

دیبا جب بھی کسی کو نظر والا چشمہ پہنے دیکھتی تو سوچتی کہ کاش....! مجھے بھی چشمہ لگ جائے۔ دیبا کو اس کے بھائی بتاتے ہیں کہ جن افراد کی آنکھیں کمزور ہوتی ہیں انہیں چشمہ لگتا ہے، پھر تو دیبا..... پڑھئے مکمل کہانی:

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 مَیں دوپہر کو اسکول سے آنے کے بعد نہ جانے کس سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی.... نہ کھیل رہی تھی اور نہ کوئی کام ہی کر رہی تھی۔ یکایک امّی نے آواز دی.... ’’دیبا، دیکھو بے بی آئی ہے۔‘‘ تو مَیں چونک پڑی۔ پھر جیسے ہی بے بی کو دیکھا مَیں اُچھل پڑی۔ ارے اس کے بھی چشمہ لگ گیا۔ مَیں نے جیسے خود سے کہا.... پھر فوراً ہی بے بی سے پوچھا، ’’بے بی تمہارے چشمہ کب لگا؟‘‘  وہ ذرا فخریہ انداز میں بولی، ’’یہی تو دکھانے آئی ہوں۔ مَیں ابھی ابھی چشمہ خرید کر آرہی ہوں۔ امّی کہہ رہی تھیں کہ پہلے فراک بدل لو خراب ہو جائے گی لیکن مَیں نے سوچا پہلے تمہیں اپنا چشمہ دکھا دوں! کیسا لگ رہا ہے؟‘‘  مَیں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ’’بہت اچھا!‘‘ پتا نہیں بے بی نے میرا جواب سنا بھی یا نہیں۔ وہ تیزی سے بھاگی چلی گئی۔  مَیں نے سوچا کتنے مزے ہیں اس کے۔ اس کے تو چشمہ بھی لگ گیا۔ پتہ نہیں میرے کیوں نہیں لگتا۔  اگلے دن مَیں نے اسکول میں بے بی سے پوچھا، ’’تمہارے چشمہ کیسے لگا؟ بس تم چشمے والے کے پاس گئی ہوگی اور چشمہ مانگ لیا ہوگا۔ اور تمہارے ابّا نے پیسے دے دیئے ہوں گے، ہیں نا؟‘‘  بے بی نے اکڑ کر کہا ’’نہیں جناب۔ مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا کہ میرے چشمہ لگے گا۔ میرے سَر میں بہت درد ہوتا تھا۔ جب مَیں پڑھنے بیٹھتی تو پڑھا نہیں جاتا تھا۔ اور آنکھوں میں جلن سی ہونے لگتی تھی۔ ابّو مجھے دو تین بار ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر پتہ نہیں کیا کیا پوچھتے رہے۔ آنکھیں دیکھیں، آنکھوں پر عجیب عجیب طرح کے ڈھکن دار چشمے اور شیشے لگا کر دیکھتے رہے اور پھر انہوں نے مجھے چشمہ دے دیا۔‘‘  مَیں نے کہا، ’’میرے سَر میں تو درد نہیں ہوتا اور آنکھیں بھی نہیں دکھتیں لیکن ہاں مجھ سے پڑھا نہیں جاتا۔ اور مَیں جب بھی ابّا سے کہتی ہوں کہ مجھے نہیں پڑھنا ہے تو ہمیشہ ڈانٹ پڑ جاتی ہے۔ کبھی کبھی ابّا پیار سے بیٹھ کر پتہ نہیں کیا کیا سمجھاتے بھی ہیں لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ چلو تم کو ڈاکٹر کے پاس لے چلیں اور چشمہ لگوا دیں۔‘‘  کچھ دن بعد میرے گھر، ہمارے ایک رشتہ دار آئے۔ مَیں انہیں جاوید بھائی کہتی ہوں۔ امّی نے انہیں گلے لگا کر کہا، ’’مبارک ہو ڈاکٹر صاحب! ہمارے خاندان میں کوئی آنکھوں کا ڈاکٹر نہیں تھا، اب ہوگیا ہے۔‘‘ مَیں نے جلدی سے پوچھا، ’’کون ہوگیا ہے؟‘‘  ’’تمہارے جاوید بھائی آنکھوں کے ڈاکٹر ہوگئے ہیں۔‘‘ امّی نے بتایا۔ مَیں ایک بار پھر خیالوں میں کھو گئی۔ کیا جاوید بھائی لوگوں کو چشمہ لگاتے ہیں۔ کتنا مزہ آئے اگر میرے بھی چشمہ لگا دیں۔مَیں ان کے پاس ہی ٹہلنے لگی اور جیسے ہی امّی کمرے سے باہر گئیں، مَیں نے فوراً جاوید بھائی سے پوچھا، ’’کیا آپ لوگوں کے چشمہ لگاتے ہیں۔‘‘ وہ ہنسنے لگے۔ ’’کیا آپ میرے بھی چشمہ لگا دیں گے؟ پلیز!‘‘ وہ میری بات پر اور زور سے ہنسے مگر میری سمجھ میں نہ آیا کہ اس میں ہنسنے کی کیا بات تھی۔  مَیں نے انہیں بتایا کہ ’’اب تو بے بی کے بھی چشمہ لگ گیا ہے اور میری کلاس میں دو لڑکے تو بہت پہلے ہی سے چشمہ لگاتے ہیں۔ پلیز! میرے بھی چشمہ لگا دیجئے نا۔‘‘  ’’بیوقوف ایسے تھوڑی ہی لگتا ہے چشمہ کہ تم نے کہا اور مَیں نے لگا دیا۔‘‘ جاوید بھائی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’جس کی آنکھیں کمزور ہوتی ہیں اُسی کے چشمہ لگتا ہے۔‘‘  مَیں نے پوچھا ’’آنکھیں کیسے کمزور ہوتی ہیں؟‘‘  وہ بولے، ’’ابھی تمہاری سمجھ میں یہ تو نہیں آ پائے گا کہ آنکھیں کیسے کمزور ہوتی ہیں لیکن مَیں تم کو یہ ضرور سمجھا دوں گا کہ آنکھیں کمزور ہو جاتی ہیں تب کیا ہوتا ہے۔‘‘ مَیں نے کہا ’’اچھا یہی بتا دیجئے۔‘‘ مَیں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔  ’’ارے بھئی جب آنکھیں کمزور ہوتی ہیں تو سَر میں درد ہوتا ہے۔ دور رکھی ہوئی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں اور پڑھنے سے آنکھوں میں درد ہوتا ہے آنکھوں میں پانی آتا ہے۔‘‘ مَیں وہاں سے باہر آگئی اور سوچنے لگی۔ یہ باتیں تو بے بی نے بھی بتائی تھیں۔ لیکن مجھے تو ایسا کچھ نہیں ہوتا پھر اب چشمہ کیسے لگے گا؟  سوچتے سوچتے مجھے ایک بہت اچھی ترکیب سمجھ میں آئی۔ اگلے دن جب مَیں اسکول سے آئی تو میرے سَر میں درد ہو رہا تھا۔ مَیں نے امّی سے کہا ’’امّی میرے سَر میں درد ہو رہا ہے۔ آج مَیں اسکول میں کوئی کام نہیں کر پائی اور بورڈ سے گھر کا کام بھی نہیں اتارا گیا۔ میرے سَر میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘  ’’بیٹا کھانا کھا کر سو جاؤ۔ شام تک ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ امّی نے بے پروائی سے کہا۔  شام کو اٹھ کر مَیں بھول گئی کہ دوپہر کو میرے سَر میں دردہو رہا تھا لیکن جب امّی نے پڑھنے کیلئے کہا تو مجھے فوراً یاد آگیا۔ جب مَیں پڑھنے بیٹھی تو بار بار آنکھیں ملنے لگی۔  تھوڑی دیر بعد امّی نے پوچھا، ’’دیبا آنکھ میں کیا ہوگیا۔ کیا کچھ گر گیا ہے؟‘‘  مَیں نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا، ’’امّی آنکھیں بہت دکھ رہی ہیں اور پڑھنے میں جل بھی رہی ہیں۔‘‘  مَیں کئی دن تک ایسے ہی کرتی رہی۔ جب بھی پڑھنے بیٹھتی تو میرے سَر میں درد ہونے لگتا۔ آنکھیں دکھنے لگتیں اور دو ایک دن میں مجھے کلاس میں بورڈ پر لکھا ہوا دکھائی دینا بھی بند ہوگیا۔ میری کلاس کے استاد نے ابّا کو ایک خط لکھا اور میری آنکھیں ٹیسٹ کرانے کیلئے کہا۔  خط پڑھ کر ابّا نے کہا، ’’ہاں مَیں خود ہی سوچ رہا تھا کہ دیبا کی آنکھیں ٹیسٹ کروا دوں۔‘‘  امّی ذرا پریشان ہو کر بولیں ’’ارے خدانخواستہ اگر تیسری میں ہی چشمہ لگ گیا تو آگے کیا ہوگا؟‘‘  امّی کا یہ خوانخواستہ سن کر میں چڑ گئی اور ڈر بھی لگا کہ کہیں ابّا ٹیسٹ کرانے کو منع نہ کر دیں۔ لیکن ابّا ہیں بہت اچھے۔ دو تین دن بعد مَیں امّی کے ساتھ آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس گئی۔آج میرے لئے سب سے زیادہ خوشی کا دن تھا۔  ڈاکٹر کے کمرے کے باہر کی لمبی لائن مجھے بری لگ رہی تھی۔ میرے دل میں بہت سے خیال تیزی سے گھوم رہے تھے۔ مَیں سوچ رہی تھی مَیں اندر جاؤں گی۔ ڈاکٹر صاحب مجھ سے پوچھیں گے کیا پریشانی ہے۔ مَیں فوراً کہوں گی، سَر میں درد ہوتا ہے، پڑھا نہیں جاتا، آنکھیں دُکھتی ہیں اور بورڈ پر لکھا ہوا بھی دکھائی نہیں دیتا۔ بس ڈاکٹر صاحب فوراً مجھے اچھا سا چشمہ لگا دیں گے۔ مَیں کلاس میں جاؤں گی.... سب لوگ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ بے بی اپنا چشمہ کسی کو نہیں دکھاتی ہے مَیں بھی نہیں دکھاؤں گی۔ مَیں کہوں گی.... ’’ارے یہ کھیلنے کی چیز نہیں ہے۔ ٹوٹ جائے گا‘‘..... نہیں یہ تو غلط بات ہے۔ مَیں سب کو اپنا چشمہ باری باری لگانے کیلئے دوں گی۔ جب مَیں نانی کے گھر جاؤں گی تو سب کہیں گے، ’’ارے واہ دیبا کے چشمہ لگ گیا، کتنا اچھا لگ رہا ہے‘‘ ....مَیں اچھی باجی کو اپنا چشمہ بالکل نہیں چھونے دوں گی۔ وہ بھی تو مجھے اپنا چشمہ چھونے پر ڈانٹتی ہیں۔ جب اپیا دیکھیں گی تو خوش ہو جائیں گی، ’’واہ دیبا کے تو....‘‘ مَیں سوچ رہی تھی کہ امّی کی آواز آئی، ’’چلو شکر ہے نمبر تو آیا۔‘‘  مَیں خوش ہوگئی اور جلدی سے ڈاکٹر صاحب کے سامنے بیٹھ گئی۔ انہوں نے پہلے مجھ سے دور رکھے ہوئے ایک بورڈ کو پڑھنے کے لئے کہا۔ پھر میری آنکھ میں دوا ڈالی۔ پھر ایک گھنٹے باہر بیٹھنے کو کہا۔ ایک گھنٹے بعد میری آنکھوں کو غور سے دیکھا اور ایک کاغذ پر کچھ لکھنے لگے۔ مَیں نے پاس رکھی ہوئی میز کو دیکھا جس پر طرح طرح کے چشمے رکھے تھے۔ اور مَیں خوشی سے مسکرانے لگی۔ ڈاکٹر صاحب نے پرچہ امّی کو دیتے ہوئے کہا۔ انہیں برابر والے کمرے میں لے جایئے وہاں ان کو چشمے کا نمبر ملے گا۔ مَیں دوڑ کر دوسرے کمرے میں گھس گئی۔ اندر بیٹھے ہوئے صاحب بہت اچھے تھے۔ مجھے پیار سے اپنے پاس والے اسٹول پر بٹھایا۔ اور سامنے والا بورڈ پڑھنے کو کہا۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ مَیں بڑی تیزی سے بورڈ پڑھنے لگی۔ جب دو لائنیں رہ گئیں تو مجھے خیال آیا کہ اگر یہ دو لائنیں بھی پڑھ دیں تو چشمہ نہیں ملے گا۔  مَیں نے کہا، ’’آگے نہیں پڑھا جا رہا ہے۔‘‘  ڈاکٹر صاحب نے میرے ایک چشمہ لگایا اور کہا ’’بیٹا پڑھو۔ مَیں نے دونوں لائنیں تیزی سے پڑھ دیں۔ انہوں نے چشمہ اُتار دیا اور کہا، ’’اب پڑھو۔‘‘ مَیں نے پھر کہا، ’’نہیں اب نہیں پڑھا جا رہا ہے۔‘‘  ڈاکٹر صاحب نے پھر سے چشمہ لگایا اور مَیں نے دونوں لائنیں دوبارہ پڑھ دیں۔ ڈاکٹر صاحب مسکراتے رہے۔  ڈاکٹر صاحب نے پوچھا، ’’بیٹا! چشمہ لگا کر اچھا نظر آتا ہے یا بغیر لگائے؟‘‘  مَیں نے جھٹ سے کہا ’’چشمہ لگا کر۔‘‘  ڈاکٹر صاحب نے آہستہ سے چشمہ اُتارا اور مسکرا کر بولے، ’’بیٹا! یہ تو صرف کیس ہے۔ اس میں شیشے تو ہیں ہی نہیں۔‘‘  اب جب مَیں چشمہ لگائے اپنی کسی سہیلی کو دیکھتی ہوں تو مجھے خیال ہوتا ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر کے سامنے مجھ سے زیادہ ہوشیاری دکھائی ہوگی اور بورڈ پڑھنے سے پہلے یہ اچھی طرح دیکھ لیا ہوگا کہ فریم خالی ہے یا اس میں شیشے لگے ہوئے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK