Inquilab Logo

عید اس کی نہ تھی

Updated: May 23, 2020, 4:14 AM IST | Fouzia Tabassum | Mumbai

یہ ایک کابلی لڑکے کی کہانی ہے جو انتہائی غریب ہے اور اپنے خاندان کی کفالت کیلئے دور شہر میں جوتے پالش کرتا ہے مگر عید کے موقع پر اپنے وطن نہیں جاپاتا، کیوں یہ جاننے کیلئے پڑھئے مکمل کہانی۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

میری اس سے پہلی ملاقات اسکول سے آتے ہوئے مارکیٹ کی دکانوں کے سامنے ہوئی تھی۔ اس دن موسم صبح ہی سے نہایت سہانا ہو رہا تھا۔ سردیوں کی ٹھنڈی ہوا جسم میں چبھ نہیں رہی بلکہ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ آسمان بھورے بادلوں سے بھرا ہوا تھا اور صبح ہی سے بادلوں میں گڑگڑاہٹ ہو رہی تھی۔ جیسے ہی چھٹی کی گھنٹی بجی ہلکی ہلکی پوندا باندی شروع ہوگئی۔ بچے خوشی سے چیختے چلّاتے اپنے اپنے گھروں کو لپکے۔ میرا گھر اسکول سے خاصا دور ہے۔ مَیں جب مارکیٹ تک پہنچا تو بارش تیز ہونے لگی۔ بارش سے بچنے کے لئے مَیں ایک دکان کے چھجے کے نیچے جاکھڑا ہوا۔ گرم جیکٹ پہننے کے باوجود ہوائیں میرے جسم میں گھسی جا رہی تھیں ۔ مَیں نے جیکٹ کے کالر اونچے کرلئے تاکہ کان سرد ہواؤں سے بچ جائیں ۔ جس وقت مَیں ایسا کر رہا تھا اسی وقت ایک آوازآئی ’’صاحب پولش!‘‘ مَیں گردن گھما کر دیکھا۔ وہ ایک کابلی لڑکا تھا۔ میلے جیکٹ کپڑوں میں ملبوس اس کی قمیص جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی، جس میں سے اس کا سرخ و سفید جسم جھانک رہا تھا۔ وہ میرا ہی ہم عمر ہوگا یا مجھ سے دو ایک سال کا چھوٹا ہوگا لیکن مضبوط جسم اور لمبے قد کی وجہ سے وہ مجھ سے خاصا بڑا لگ رہا تھا۔ اس کے کاندھے پر ایک میلا سا چھوٹا تھیلا لٹک رہا تھا جبکہ ہاتھوں میں برش اور پالش نظر آ رہی تھی۔
 وہ بڑی اُمید بھری نظروں سے مجھے دیکھنے لگا کہ شاید مَیں اس سے جوتے پالش کروانے کے لئے راضی ہو جاؤں لیکن میرا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔ بارش کے پانی اور کیچڑ نے پہلے ہی جوتوں کا ستیاناس کر دیا تھا، اس لئے مَیں نے پہلے ایک نظر اپنے جوتوں کی طرف دیکھا پھر ایک شان بے نیازی سے گرتی ہوئی بوندوں کو دیکھنے لگا، جو ایک کے پیچھے ایک بڑی تیزی کے ساتھ نیچے گر رہی تھیں ۔
 بارش تیز ہوگئی تھی اور بارش سے بچنے کیلئے کچھ اور لوگ بھی اس طرف آگئے، جہاں مَیں کھڑا ہوا تھا، خاصے لوگ جوتے پہنے ہوئے تھے، کابلی لڑکا ہر ایک کے پاس گیا، مشینی انداز میں اس کے منہ سے نکلا ہوا جملہ ’’صاحب پالش!‘‘ سب ہی نے سنا اور تقریباً وہی طریقہ اختیار کیا، جو مَیں پہلے کر چکا تھا۔
 وہ مایوس ہوگیا تو دکان کے باہر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ پالش اور برش اس نے اپنے تھیلے میں واپس ڈال لئے۔ مَیں نے گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر مایوسی کا اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دیا۔
 ’’نہیں نہیں .... اسے مایوسی سے بچانا چاہئے۔‘‘ میرے اندر کی آواز نے کہا اور مَیں دھیمے قدموں سے چلتا ہوا اس کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ ’’خان، جوتوں پر پالش کر دو۔‘‘ میری یہ بات سنتے ہی اس کی آنکھوں میں بچھتی ہوئی شمعیں اپنی پوری توانائی سے جل اٹھیں ، اس دن مَیں نے اس سے بہت ساری باتیں بھی کیں مثلاً کیا نام ہے تمہارا؟ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں رہتے ہو؟ کتنے بہن بھائی ہیں ؟ کتنے پیسے روز کما لیتے ہو وغیرہ وغیرہ۔‘‘ اس نے میرے ہر سوال کا جواب جوتے کو چمکاتے ہوئے دیا۔
 اس کا نام شیر خان تھا اور اس کا خاندان ہجرت کرکے آیا تھا۔ باپ اور بڑا بھائی جنگ میں مارے گئے تو خاندان کے چھ افراد کی کفالت اس نے سنبھالی۔ تیرہ چودہ سال کی عمر میں جب بچے اسکول پڑھنے جاتے ہیں اور باغوں میں تتلیاں پکڑتے ہیں ، اس عمر میں وہ لوگوں کے جوتے پالش کرکے اپنے گھر والوں کی قسمت چمکانے میں لگا ہوا تھا۔
 جب اس نے جوتے پالش کر دیئے تو مَیں نے اسے پانچ کی جگہ دس کا نوٹ دیا اور کہا ’’بقایا مت دینا، رکھو لو!‘‘ میری اس بات پر وہ ناراض ہوگیا۔ ’’صاحب، ام صرف محنت کا پیسا لیتا ہے۔‘‘ اس نے پانچ روپے واپس میری طرف بڑھا دیئے۔ مجھے اس کی خودداری پر بے حد فخر محسوس ہوا۔
 اب میری اس سے روزانہ اسکول آتے جاتے ملاقات ہونے لگی۔ کچھ ہی دنوں بعد اس نے بڑی محنت سے گلی کے ایک کونے میں اپنی ٹین کی چھوٹی سی دکان کھول لی۔ اس کی محنت اور ایمانداری کی وجہ سے دکان چل پڑی اور اس کے پاس اچھا خاصا کام آنے لگا۔
 عید میں چند ہی روز باقی رہ گئے تھے۔ ابو نے کہا کہ گھر میں جتنے جوتے موجود ہیں ، انہیں مرمت کروا کر پالش کروا لو، چنانچہ چھ سات جوڑی جوتے لے کر شیر خان کے پاس جا پہنچا۔ ’’سلام صاحب!‘‘ اس نے مجھے دیکھ کر ہاتھ ملایا۔ ’’وعلیکم السلام، اور سناؤ شیر خان کیسے ہو؟‘‘ اس کے پاس کافی کام تھا لیکن وہ مجھ سے باتیں کرنے لگا ’’صاحب خیر نہیں ہے اور وطن میں امارا امّاں بہت بیمار ہے، اس کے علاج کے لئے بہوت پیسہ چاہئے۔ ام بہت پیسہ کمانا چاہتا ہے صاحب تاکہ امارا امّاں ٹھیک ہو جائے۔ عید سے ایک دن پہلے ام وطن طلا جائے گا۔ صاحب اور لوگ بھی کام کروانا چاہے تو امارے پاس بھیجو۔‘‘ مجھے اس کی ماں کی بیماری کا سن کر بے حد افسوس ہوا۔ مَیں نے اپنے چند دوستوں سے کہہ کر اسے خاصا کام دلوا دیا اور سچے دل کے ساتھ اللہ سے دعا کی کہ اس کی ماں صحت یاب ہو جائے۔
 عید والے دن جب مَیں عیدگاہ نماز پڑھ کر آرہا تھا تو گلی میں داخل ہوتے ہی مجھے حیرت ہوئی۔ شیر خان دکان میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔
 ’’کیا ہوا شیر خان.... تم عید کرنے اپنے گاؤں نہیں گئے؟‘‘ میرا سوال سن کر اس نے اپنا سر اوپر اٹھایا پھر بڑے بجھے ہوئے لہجے میں کہا ’’ام وطن جاتا، ٹکٹ کا پیسہ خرچ کرتا اور ماں کے علاج کے لئے پیسے کم پڑجاتے۔ ام نے ایک جاننے والے کے ہاتھ پیسے بھیجوا دیئے ہیں ابھی ام نے بہوت کام کرنا ہے صاب ماں کے علاج کے لئے بہوت پیس چاہئے!‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز رندھ گئی اور اس کے ہاتھ تیزی کے ساتھ جوتے پالش کرنے لگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK