Inquilab Logo

گھوڑے کا خریدار

Updated: February 08, 2020, 12:00 PM IST | Saeed Soharwardi

ٹٹو اب میرا ہے، مَیں پورے دام دے چکا ہوں ۔ مَیں واپس نہیں کروں گا۔ یہ سن کر شہباز خان بہت چکرائے۔ انہیں اپنا کھیل بگڑتا ہوا نظر آرہا تھا۔

علامتی تصویر۔
علامتی تصویر۔

ایک گاؤں میں تھے ایک گھوڑوں کے سوداگر، نام تھا شہباز خان، لیکن شہباز خان تھے بڑے دھوکے باز، صورت سے تو وہ جادوگر معلوم ہوتے تھے۔ اُن کی زبان قینچی کی طرح چلتی اور باتوں ہی باتوں میں وہ خریدار کی جیب صاف کر دیتے تھے۔ کسی کے ہاتھ انہوں نے بیمار گھوڑا بیچ دیا اور وہ دو دن بعد مر گیا اور خریدنے والا رو پیٹ کر چپ ہو رہا۔ کسی کو ایسا گھوڑا دیا جو چلنا تو نہیں جانتا تھا لیکن سوار کو پٹخنی دینے میں جواب نہ رکھتا تھا۔سب شہباز خان کو برا کہتے تھے، لیکن ضرورت پڑنے پر سب ان ہی سے گھوڑے خریدتے تھے، کیونکہ ان کے سوا کوئی دوسرا گھوڑے بیچنے والا اس علاقے میں نہیں تھا۔ایک روز شہباز خان اپنے نئے گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر رہے تھے کہ انہیں ایک لنگڑا بوڑھا کسان اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔ جیسے بلّی چوہے کو دور سے دیکھ کر کان کھڑا کر لیتی ہے اسی طرح شہباز خان بھی چوکنے ہوگئے کہ شکار آرہا ہے۔ بوڑھا کسان لنگڑاتا ہوا ان کے پاس آگیا اور بولا ’’خان صاحب! تم دیکھتے ہو، مجھ سے ٹھیک سے چلا نہیں جاتا۔ کوئی اچھا جانور دے دو تو اس پر بیٹھ کر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جایا کروں گا۔‘‘ شہباز خان نے سوچا کہ بڈّھے کو بیوقوف بنانا چاہئے، کہنے لگے ’’بڑے میاں ، میرے پاس گھوڑا تو ایسا ہے جو ہوا سے بات کرتا ہے، اشارے میں بھاگتا ہے، مضبوط اور تندرست، تمہاری طبیعت خوش ہوجائے گی، مگر پورے ۱۰۰؍ روپے خرچ ہوں گے، ایک پائی کم نہ ہوگی۔‘‘’’پہلے گھوڑا دکھاؤ تب دام کی بات کرنا۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’یہ نہیں ہونے کا۔ پہلے پورا دام دکھاؤ تب گھوڑا دیکھنا۔‘‘ ’’یہ لو ۱۰۰؍ روپے۔‘‘ بوڑھے کسان نے دس دس کے نوٹ دیتے ہوئے کہا۔ لیکن شہباز خان جو گھوڑا لے کر آئے، اسے دیکھتے ہی بوڑھا کسان اپنا سر پیٹنے اور چیخنے، چلّانے لگا۔’’ارے ایسا ظلم مت کرو، کیوں غریب آدمی کو لوٹتے ہو، یہ گھوڑا نہیں ، یہ تو ٹٹو ہے، یہ تو بالکل مریل ہے، تم میرا روپیہ لوٹا دو، اور اپنا گھوڑا رکھ لو، مجھے نہیں چاہئے ایسا گھوڑا۔‘‘ ’’ارے گھوڑے لے جا کر تو دیکھو۔ ہزاروں میں ایک جانور ہے۔ بیٹھو گے تو طبیعت خوش ہو جائے گی۔ ایسی پیاری چال ہے اس کی کہ ہوا شرماتی ہے، تم دیہاتی گنوار کیا جانو، جانور کی پہچان، چلو بڑھاؤ اپنا گھوڑا، بکواس بند کرو۔‘‘ بوڑھے کسان نے لاکھ سمجھایا، خوشامد کی مگر شہباز خان نے ایک نہ سنی، مجبوراً بوڑھا اس مریل ٹٹو کو ساتھ لے کر چل پڑا۔
 زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اور آدمی شہباز خان کے پاس آیا۔ صورت، شکل اور لباس سے رئیس آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس نے آتے ہی کہا ’’خان صاحب! میرا چھوٹا لڑکا بہت پریشان کر رہا ہے۔ کوئی ٹٹو وٹو ہو تو نکالو، پانچ، چھ سو روپے کی کوئی بات نہیں ، بچے کا دل تو خوش ہو جائے گا۔‘‘یہ کہنے کے ساتھ ہی وہ رئیس جیب سے سو سو کے ہرے ہرے کچھ نوٹ نکال کر گننے لگا۔ اتنی بڑی رقم کو دیکھتے ہی شہباز خان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور انہیں اپنے آپ پر غصہ آنے لگا۔ کیونکہ ان کے پاس ایک ہی ٹٹو تھا جسے وہ تھوڑی دیر پہلے بوڑھے کسان کے ہاتھ بیچ چکے تھے۔
 فوراً ان کے دماغ میں ایک ترکیب آئی کہ بوڑھا زیادہ دور نہیں گیا ہوگا اگر وہ کوشش کریں تو اسے پکڑ سکتے ہیں ۔ اپنے رئیس گاہک سے انہوں نے کہا ’’آپ ذرا دیر رُکنے کی زحمت کریں ۔ آپ کی خدمت میں ابھی ایک لاجواب ٹٹو حاضر کرتا ہوں ۔‘‘ انہوں نے فوراً اصطبل سے ایک اچھا گھوڑا نکالا اور اس طرف روانہ ہوگئے جس طرف کسان ٹٹو کو لے کر گیا تھا۔ تھوڑی دور گھوڑا سرپٹ دوڑانے کے بعد انہوں نے بوڑھے کو راستے میں دیکھ لیا اور اس کے قریب جاکر بولے ’’لو، بھئی اپنے ۱۰۰؍ روپے۔ مَیں گاہک کی مرضی کے خلاف سودا نہیں کرتا.... اچھا لاؤ میرا ٹٹو۔‘‘ بڈّھے نے شہباز خان کا چہرہ غور سے دیکھا، ان کی آنکھوں میں وہی چالاکی نظر آئی جس سے لوگ گھبراتے تھے۔ ’’خان صاحب! ٹٹو اب میرا ہے، مَیں پورے دام دے چکا ہوں ۔ مَیں واپس نہیں کروں گا۔‘‘ یہ سن کر شہباز خان بہت چکرائے۔ انہیں اپنا بنا بنایا کھیل بگڑتا ہوا نظر آرہا تھا۔ ذرا دھیمے ہو کر بولے ’’اچھا بھئی ۱۰۰؍ کے بدلے ڈیڑھ سو روپے لے لو، اور ساتھ آٹھ روز بعد آنا، مَیں تمہیں ایسا گھوڑا دوں گا کہ سارے علاقے میں دھوم مچ جائے گی۔‘‘ ’’مَیں تو اب یہ ٹٹو تمہیں نہیں دوں گا، چاہے تم اس کا لاکھ روپیہ بھی کیوں نہ دو۔‘‘ ’’دیکھو زیادہ مت اتراؤ۔ اچھا! میں ۲۰۰؍ روپے دوں گا۔ اب تو راضی ہو؟‘‘ ’’مَیں نے کہہ دیا ایک بار۔ مَیں نے ایک بار جو چیز خرید لی، وہ مَیں نہیں لوٹانے کا۔‘‘ ’’اچھا ڈھائی سو لے لو، اور مان جاؤ۔‘‘ خان صاحب اس کی خوشامد کرنے لگے۔ شہباز خان کو اس بات کی جلدی تھی کہ اگر وہ رئیس لوٹ گیا تو باقی پیسے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔‘‘ جب وہ کسان ڈھائی سو پر بھی راضی نہ ہوا تو ہار کر شہباز خان سے کہا ’’اچھا بھئی، مَیں ۳۰۰؍ روپے دوں گا۔ اب اس سے زیادہ نہیں بڑھ سکتا، آگے تمہاری مرضی۔‘‘ بہت کہنے سننے سے بڈّھا راضی ہوا۔ اور شہباز خان اسے ۳۰۰؍ روپے دے کر اور ٹٹو کو ساتھ لے کر خوش خوش پلٹے، یہ سوچتے ہوئے کہ وہ اسے ۶۰۰؍ میں بیچ کر سچ مچ گھوڑے بیچ کر سوئیں گے۔ لیکن جب وہ اپنے اصطبل واپس آئے تو ان کے پیروں تلے زمین سرک گئی، اس رئیس کا کہیں پتہ نہ تھا، جس کے لئے وہ اپنی جیب سے ۲۰۰؍ روپے خرچ کرکے اس مریل ٹٹو کو واپس لائے تھے۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھتے رہے مگر بے کار، رئیس کا کوئی نشان انہیں نظر نہ آیا۔
 دھیرے دھیرے ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ کسی اور آدمی نے جو اُن سے زیادہ چالاک تھا، انہیں بیوقوف بنا دیا ہے، وہ اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔ وہاں سے دور وہ ’رئیس‘ لنگڑے بڈّھے کی جھوپڑی سے منافع میں اپنے حصے کے ۱۰۰؍ روپے لے کر اپنے گھر جا رہا تھا۔ لیکن لوگ کہتے ہیں کہ اس دن کے بعد سے شہباز خان نے کسی کو دھوکا نہیں دیا، کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ جو دوسروں کو دھوکا دیتے ہیں ، دوسرے بھی اس کا بدلہ لے سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK