Inquilab Logo

انصاف کی بات

Updated: July 04, 2020, 3:20 AM IST | Dr. Ashfaque Ahmed | Mumbai

یہ کہانی انصار صاحب کی ہے۔ ان کے ۲؍ بچّے ہیں ۔ ایک دن وہ آم لاتے ہیں اور اس کے دو حصے کرتے ہیں ، کیوں ؟ یہ جاننے کیلئے پڑھئے مکمل کہانی۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

انصار صاحب کو دو بچّے تھے کاشف اور طلعت۔ طلعت تو نہایت شرمیلی سی بھولی بھالی بچّی تھی جو گھر کے کسی کونے میں ابّو کے ہاتھوں لائے پلاسٹک کے ننھے منّے برتنوں کو سجانے اور گھر کے کونے کو گھر بنانے میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ مصروف رہتی لیکن کاشف جسے گھر میں اس کے ابّو اور امّی لاڈ و پیار سے چنٹو کہا کرتے تھے۔ بڑا ہی نٹ کھٹ اور شریر تھا گھر میں ایک پل نہ ٹھہرتا۔ مئی کی تیز دھوپ اور شدت کی گرمی میں امّی سے اجازت لئے بغیر کھیلنے کے لئے چپکے سے بھاگ کھڑا ہوتا۔ ایک روز جب اس کے ابّو کو پتہ چلا تو انہوں نے کاشف کو گھر ہی میں رہنے کی سخت تاکید کر دی۔ تب سے وہ بھی اپنے دوستوں کو گھر ہی بلا لیا کرتا۔ جیسے ہی کاشف کے دوست آجاتے گھر میں دھوم دھڑاکا اور ہنسی شرارتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا اور انصار صاحب کا گھر کرکٹ کا میدان بن جاتا۔ بچوں کی یہ دھینگا مشتی عصر کی اذان سے قبل تک جاری رہتی جوں ہی عصر کی اذان ہوتی کاشف اور طلعت کے ساتھی اپنے اپنے گھر چلے جاتے۔ ان کے جاتے ہی سناٹا چھا جاتا۔ کاشف ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے دیر تک نہاتا، غسل خانے سے آتے ہی سب سے پہلے اس کی نگاہ گھڑ کی جانب جاتی۔ اس کے ابّو روزانہ ۶؍ بجے آفس سے گھر آیا کرتے تھے۔ گھر لوٹتے وقت وہ اپنے بچوں کے لئے روزانہ پھل وغیرہ ضرور خرید لاتے۔ اس لئے کاشف کو اپنے ابّو کا بڑی بے صبری سے انتظار ہوتا تھا۔ شام کے ۶؍ بجتے ہی وہ راستے سے گزرنے والی ہر اسکوٹر کی آواز پر چونک اٹھتا جیسے ہی ان کی اسکوٹر صحن میں داخل ہوتی وہ ابّو کے ہاتھوں سے بیگ لے لیتا۔ یہی اس کا معمول تھا۔
 کاشف کو انگور بہت پسند تھے۔ دو روز قبل جب اس کے ابّو انگور لائے تو انگور کے خوشے دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس دن اس نے سارے انگور خود ہی اڑا لئے۔ بے چاری طلعت اس کا منہ تکتی رہ گئی۔ طلعت نے امی سے جب اپنا دکھڑا سنایا تو امّی نے کاشف کو بہت ڈانٹا اور اس کے ابّو سے شکایت بھی کی۔
 آج بازار کا دن تھا۔ ابّو نے کاشف سے آم لانے کا وعدہ کیا تھا۔ اپنے معمول کے مطابق کاشف دروازے کی دہلیز پر کھڑا ابّو کا انتظار کر رہا تھا۔ جیسے ہی اس کے ابّو کی اسکوٹر آنگن میں داخل ہوئی کاشف چلا اٹھا... ’’ابّو آئے.... ابّو آئے....‘‘ لیکن یہ کیا....؟ آج تو ابّو نے بیگ میری طرف بڑھانے کے بجائے اپنے ہی پاس رکھی اور خود ہی بیگ لئے گھر میں داخل ہو رہے ہیں ۔ تب ہی اسے خیال آیا.... ’’کل امّی نے اس کی شکایت جو کی تھی۔ شاید یہ اسی کا ردّعمل ہے۔‘‘ وہ مایوس ہو کر ابّو کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔
 گھر میں داخل ہوتے ہی ابّو نے آموں سے بھری بیگ کو الماری کے اوپر رکھ دیا اور خود ہاتھ منہ دھونے کے لئے غسل خانے میں چلے گئے۔ ادھر کاشف اور طلعت حیران تھے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آج آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے۔ بے چارے دونوں الماری کے سامنے کھڑے ہو کر پہرہ دینے لگے۔ جب ابّو تولیہ سے ہاتھ منہ صاف کرتے ہوئے بیٹھک کے کمرے میں آئے تو کاشف سے کہا ’’چنٹو جاؤ.... امّی سے چاقو مانگ کر لے آؤ۔‘‘ طلعت تم بھی جاؤ اور طشتریاں لے آؤ۔ کاشف نے طلعت کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا اور دونوں باورچی خانے کی جانب پڑے۔ کاشف منہ بناتا ہوا چاقو لے آیا۔ طلعت بھی طشتریاں صاف کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور دونوں ابّو کے سامنے بیٹھ گئے۔ طلعت سوچ رہی تھی، ابّو بلاوجہ آم کاٹ رہے ہیں ہمیں ایک ایک آم مل جاتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ کاشف سوچ رہا تھا کہ آم تربوز کی طرح تو نہیں ہیں کہ انہیں بھی کاٹ کر دیئے جائیں ۔
 انصار صاحب نے کاشف کی امّی کو آواز دی وہ بھی سر پر دوپٹہ ڈالتے ہوئے آئیں اور چنٹو کے بازو میں بیٹھ گئیں ۔ انصار صاحب نے اپنی بیگ سے دو آم نکالے اور دونوں کو یکساں طور پر چاقو سے کاٹ دیا اور ایک آم کا آدھا اور دوسرے آم کا آدھا حصہ طلعت کی جانب بڑھا دیا۔ طلعت نے مسکراتے ہوئے کاشف کی طرف دیکھا اور ابّو سے اپنا حصہ لے کر امّی کے پہلو میں جا کر بیٹھ گئی۔
 کاشف نے بھی طلعت کو دیکھ کر مسکرا دیا اور امّی کے کانوں میں سرگوشی کی۔ یہ دیکھ کر ابو نے کاشف کی امّی سے پوچھا ’’چنٹو کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ امّی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’وہ کہہ رہا ہے ابّو ہر چیز سب سے پہلے طلعت ہی کو کیوں دیتے ہیں ۔‘‘ یہ سن کر اس کے ابّو نے کہا ’’چنٹو.... طلعت لڑکی ہے اور تمہاری چھوٹی بہن ہے۔ اس لئے ہمیشہ اُسے ہی فوقیت ملنی چاہئے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انصار صاحب نے کاشف کی جانب آموں کے دونوں حصے بڑھا دیئے۔
 چنٹو نے اپنا حصہ لے لیا لیکن ایک بات اب بھی اسے بے چین کر رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر تک اپنے حصہ کو دیکھتا رہا.... آخر اس سے رہا نہ گیا تو اس نے اپنے ابّو ہی سے پوچھ لیا۔ ’’ابّو.... آخر آپ نے ہمیں ایک ایک آم ہی تو دیا ہے پھر دو آموں کو کاٹنے کی ضرورت کیا تھی ہمیں سالم آم دیتے تو اس میں حرج ہی کیا تھا۔‘‘ انصار صاحب نے طلعت کی جانب دیکھا۔ طلعت یوں تو خاموش بیٹھی تھی لیکن اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اس کے ذہن میں بھی یہی سوال گونج رہا ہے۔ انصار صاحب نے چاقو طلعت کی امّی کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا ’’چنٹو! تمہیں تو یاد ہی ہوگا دو روز قبل تم نے سارے انگور خود ہی کھا لئے تھے۔ کیا اس دن مَیں نے انگور صرف تمہارے ہی لئے لائے تھے۔ اُن پر تو سبھی کا حق تھا۔ تم نے سب کے ساتھ ناانصافی کی۔ بیٹا دوسروں کا حق چھین کر خود فائدہ اٹھانا اور انصاف نہ کرنا گناہِ عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت حقوق اور انصاف سے متعلق سوالات پوچھے گا تب ہم کیا جواب دیں گے۔‘‘ کاشف کا سر شرمندگی سے جھکا ہوا تھا۔ ’’بچو! مَیں ایک ایک آم تم دونوں کو دے دیتا اور ان میں سے کوئی ایک آم پھیکا اور بے مزہ نکل آتا تو یقیناً تم دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ناانصافی ہوتی۔ اس لئے مَیں نے دونوں آموں کا آدھا آدھا حصہ تم میں تقسیم کیا ہے تاکہ تمہارے ساتھ صحیح انصاف ہوسکے۔ ہمارا پیارا مذہب تو انصاف سے متعلق اسی طرح کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ یہ سن کر دونوں کے چہروں پر مسکراہٹیں پھیل گئیں ۔ دونوں نے بڑے پیار سے ابّو کو دیکھا اور ان سے لپٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد کاشف نے طلعت کو اپنے پاس بلا لیا اور دونوں مزے لے لے کر آم کھانے لگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK