Inquilab Logo

دیا سلائی

Updated: December 04, 2021, 1:48 PM IST | Khawjah Hassan Nizami

خدا کی ہوا عام ہے، پانی اور روشنی عام ہے، جنگل اور دریا عام ہیں، مگر آپ کی ذات شریف ان سب چیزوںکو اپنے لیے مخصوص کرلینا چاہتی ہے۔آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ روٹی ، پانی ، ہوا سب میرے قبضے میں ہوں۔ جس کو چاہوں دوں، جس کو چاہوں محروم کردوں

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

آپ کون؟ ناچیز تنکا۔
اسم شریف؟دیا سلائی کہتے ہیں۔دولت خانہ؟
 جناب دولت ہے نہ خانہ۔ اصل گھر جنگل ویرانہ تھا، مگر چند روز سے احمد آباد میں بستی بسائی ہے۔ اور سچ پوچھیے تو یہ ننھا سا کاغذی ہوٹل، جس کو آپ بکس کہتے ہیں اور جو آپ کی انگلیوں میں دبا ہوا ہے ، میراموجودہ ٹھکانا ہے۔
 یہ احمد آباد ناروے یا سویڈن کے پاس کوئی نیا مقام ہے؟ کیوں کہ آپ کی بستیاں تو انہیں علاقوں میں سنی جاتی ہیں۔نہیں جناب ، احمد آباد ہندوستان میں ہے۔آپ دیکھتے نہیں میری رنگت کالی ہے۔ یہ اسی ملک کی نشانی ہے، ورنہ ناروے سویڈن کی دیا سلائی گوری چٹی ہوتی ہے۔ مجھ غریب کو اس سے کیا نسبت؟
 آہا، تو آپ ہمارے ملک کی دیا سلائی ہیں ، تب تو گو آپ کا رنگ سانولا ہے مگر ہمارہ نگاہ میں سب دیا سلایئوں کی رانی ہو۔ذرا مہربانی کرکے مجھ کو رانی نہ فرمائیے، بیگم کہیے۔ میں نے مسلمانوں کے گھر میں جنم لیا ہے۔ منشی فتح خاں نے مجھے بنایا ہے۔بہت اچھا میاں تنکے،ناراض نہ ہو۔اللہ اکبر، تم کو بھی یہ دن لگے کہ رانی اور بیگم میں تمیز کرتے ہو۔کے آمدی کے پیر شدی۔وہ وقت بھول گئے جب زنجیروں میں باندھ کر آرے کے نیچے رکھے جاتے تھے اور آرہ آن کی آن میں تمہارے ٹکڑے کر ڈالتا تھا۔ اس کے بعد جیسی گت بنتی تھی، تم خود خیا ل کر کے گریبان میں منہ ڈال سکتے ہو۔تمہارے تراشیدہ کندوں کا ظلماتی چشمے میں ڈالا جانا اور اس کھولتے ہوئے پانی میں تمہارا تلملانا، کبھی سظح آب پر آنا ، کبھی تہ میں چلاجانا ، یہاں تک کہ اسی گیر ودار اور پیچ و تاب میں تمہاری کھال تک اتر جاتی تھی۔ اس وقت کچھ دیر کے لیے تم کو باہر نکال دیا کر دم دیا جاتاتھا۔ اس کے بعد پھر مشین میں کس دیا جاتا تھا اور مشین چھیل چھیل کر تمہارے لمبے لمبے پرت بنادیتی تھی۔اور پھر وہ پرت دوسری کل میں ڈال کرکترے جاتے تھے۔ اس طرح تم جیسی ہزاروں ہستیاں وجود میں آجاتی تھیں۔زرد رنگ گندھک اور سرخ مصالحے کا لباس بھی کچھ عزت سےنہیں پہنایا جاتا تھا ، بلکہ سرننگوں کرکے گرم گر م گندھک اور مصالحے میں تمہاری ناک ڈبو دی جاتی تھی۔ اس پر یہ مزاج کہ بیگم کہلانے کی آرزو! کھپچی کی ڈبیا میں رہتے رہتے یہ دماغ ہوگیا ہے! ابھی کوئی شخص بکس کی کالی مٹی سے منڈیا رگڑ کر پھینک دے گا۔ پھر جو آئے گا پائوں میں مسلتا آئے گا۔
 حضرت ، آپ کو تو غصہ آگیا۔ خفگی کی کیا بات ہے، جو چیز جہاں کی ہو اسی سے منسوب ہوتی ہے۔ میں مسلمانوں کی خانہ زاد ہوں، اگر رانی کے مقابلے میں بیگم کو پسند کروں تو کیا گناہ ہے؟ یہ سب نام کی بحث ہے۔ کام دیکھنا چاہئے۔ سوجیسا مسلمانوں کا کام کرتی ہوں، بے کم و کاست ہندوئوں کا بھی بجا لاتی ہوں۔ یہاں تک کہ میرے مشرب میں دیسی بدیسی، گورے کالے کا فرق بھی جائز نہیں۔ مندر میں میرے دم سے روشنی ہے اور مسجد میں بھی۔ راجہ اور نواب کے محل کی تاریکی دور کرتی ہوں، اور ایک غریب کے جھونپڑےمیں بھی  میرے سبب سے اجالا ہوتا ہے۔ میرے رانی بیگم کے لفظ سے آپ اتنے چونکے، ذرا اپنی ہٹ دھرمی تو دیکھیے کہ فقط نام اور لفظ کے فرق سے آپ کے کاموں میں بھی فرق پڑجاتا ہے۔ جو کالا کرتا ہے وہ گورا نہیں کرتا، جو مسلمان کو پسند ہے اس سے ہندو کو نفرت ہے۔غریب اور کمزور ہونا تو گویا دائرہ آدمیت سے خارج ہوجانا ہے۔ اس کو دنیا میں رہنے اور انسان کہلانے کا کوئی حق ہی باقی نہیں رہتا۔  
 بس بس خاموش رہو فتنی۔ ہو تو اتنی سی مگر زبان بارہ ہاتھ کی ہے۔ لگیں حد سے گذرنے ۔ تم کیا جانو کہ آدم زاد کی کیا عالی شان ہے۔ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئی تو قرآن میں سنا کہ خدا نے آدمی کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا اور تمام اسرار کا علم اس کو بخشا ہے۔بس یہ جو کچھ کرتا ہے ، عین منشائے الٰہی کے مطابق کرتا ہے ، کیوں کہ سب کاموں کی حقیقت اس کو معلوم ہے۔
 اوہو، آپ کو یہ غرہ بھی ہے! بے شک آپ خلیفۂ خدا ہیں، مگر سب چیزوں کی حقیقت آپ کو معلوم نہیں۔ قرآن میں یہ تو آیا ہے کہ آدمی کو سب چیز وں کے نام بتا دئے گئے تھے۔ یہ کہاں ہے کہ اصلیت بھی بتا دی گئی تھی؟ اگر اصلیت اور حقیقت معلوم ہے تو بتائو بجلی کیا چیز ہے؟وہ تو غلاموں کی طرح آپ کی خدمت کرتی ہے اور اس کی تابعداری پر آپ کو گھمنڈ بھی بہت بڑا ہے، مگر آج تک آپ کو یہ خبر نہیں کہ یہ کیا چیز ہے اور چند حرکتوں سے کیوں ظاہر ہوتی ہے۔خیر ، بجلی تو بڑی چیز ہے، تنکے کے بھی اسرار سے آپ ناواقف ہیں کہ ذرا سی رگڑ سے یہ نورانی شعلہ کہاں سے آجاتا ہے۔ محض غلط ارشاد ہے کہ آپ کے سب کام عین الٰہی کے مطابق ہوتے ہیں۔ خدا کی ہوا عام ہے، پانی اور روشنی عام ہے، جنگل اور دریا عام ہیں، مگر آپ کی ذات شریف ان سب چیزوں کو اپنے لیے مخصوص کرلینا چاہتی ہے۔آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ روٹی ، پانی ، ہوا سب میرے قبضے میں ہوں۔ جس کو چاہوں دوں، جس کو چاہوں محروم کردوں۔ ایک آدمی کروڑوں روپئے خزانوں میں بند رکھتا ہے اور لاکھوں آدمی بھوک سے مر جاتے ہیں اور وہ خود غرض کچھ پروا نہیں کرتا۔ اپنی ہوس اور طمع کے جوش میں، نام اور نشان کے شوق میں لاکھوں ہم جنسوں کو فنا کر ڈالتا ہے۔ تو کیا خدائی خلافت کا دعویٰ انہیں اعمال سے کیا جاتا ہے، اور کیا یہ باتیں منشائے پروردگار کے موافق ہیں؟ خدا تمہاری طرار زبان کو چلاتا رکھے۔ میں ہارا تم جیتیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK