Inquilab Logo

نمک والے چاچا

Updated: April 16, 2022, 10:18 AM IST | Mirza Anwar Baig | Mumbai

صبح سویرے وہ اپنی بیل گاڑی لے کر نکلتے جس میں نمک کی بوریاں لدی ہوتیں۔ علاقے علاقے میں گھوم کر آواز لگاتے ’’نمک والا نمک....‘‘ لوگ دور سے ہی ان کی آواز سن کر اپنے اپنے ڈبے لے کر گھروں سے نکل آتے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ہم جس علاقے میں رہنے گئے تھے وہاں اطراف میں کچے پکے مکانوں کا ایک سلسلہ تھا۔ ہمارے والد کو سرکاری کالونی میں مکان ملا تھا۔ یہ شہر کا مضافاتی علاقہ تھا۔ کچی پکی اونچی نیچی سڑکیں۔ پگڈنڈیوں پر مشتمل راستے ایک گاؤں کا سا منظر پیش کرتا تھا۔ یہ ۱۹۷۰ء کے قریب کی بات ہے۔ وہیں کہیں قریب میں ایک چاچا رہتے تھے۔ ان کا تعلق گجرات کے شہر سورت سے تھا لیکن تلاش معاش میں وہ بمبئی کے اس مضافاتی علاقے میں آکر بس گئے تھے۔ صبح سویرے وہ اپنی بیل گاڑی لے کر نکلتے جس میں نمک کی بوریاں لدی ہوتیں۔ علاقے علاقے میں گھوم کر آواز لگاتے ’’نمک والا نمک....‘‘ لوگ دور سے ہی ان کی آواز سن کر اپنے اپنے ڈبے لے کر گھروں سے نکل آتے۔ بچے عورتیں، مرد سبھی قطار میں لگ جاتے اور پانچ پیسے کلو، سات پیسے کلو کے حساب سے ان سے نمک خرید کر لے جاتے۔ اس وقت پسا ہوا نہیں بکتا تھا بلکہ دانے دار سمندری نمک ہوتا تھا۔  ہمارے علاقے میں عموماً دن کے دس بجے ان کی گاڑی نظر آتی۔ وہ سفید بنڈی اور چوڑے پائنچے کا ٹخنوں سے اونچا لٹھے کا پاجاما پہنے ہوتے۔ عمر خاصی تھی کیونکہ ان کے سر کے بالوں کے علاوہ بھویں، پلکیں اور چھوٹی سی داڑھی تک سفید ہوچکی تھیں جس طرح ان کی گاڑی میں ندھا ہوا بیل ایک دم سفید تھا گویا نمک سے لے کر بیل، ان کے کپڑے اور ان کے بال سب سفید تھے اگرچہ ان کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ منہ میں شاید دانت نہیں تھے کیونکہ ٹھوڑی اوپری جبڑوں سے جا لگی تھی اگر دانت ہوتے تو یقیناً وہ بھی سفید ہوتے۔ آتے، کھلے میدان میں پھیرا لگاتے اور دوپہر تک اپنے کام سے فرصت کرکے سارا دن آرام کرتے۔ یہی ان کا معمول تھا۔ پڑھے لکھے بالکل بھی نہیں تھے۔ گاندھی جی کی طرح کی گول عینک لگاتے تھے۔ اچانک ان کے دل میں اللہ نے دین کا شوق پیدا کیا اور وہ نماز پڑھنے مسجد آنے لگے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ نماز پڑھیں تو کیا؟ اُردو عربی کیا وہ تو اپنی مادری زبان بھی نہیں پڑھ سکتے تھے لیکن شوق نے انہیں پڑھنے پر آمادہ کیا اور وہ روزانہ ایک لفظ کسی سے پڑھ کر سارا دن اسی کو رٹا کرتے۔ بیل گاڑی ہانکتے رہتے اور وہ لفظ رٹتے رہتے۔ مغرب بعد مسجد میں کسی سے بھی پچھلے سبق سے لے کر اس دن تک کا یاد کیا ہوا سنا کر اگلا لفظ پھر پوچھ لیتے۔ یقین جانئے اس طرح انہوں نے پوری نماز یاد کر لی، آیت الکرسی یاد کر لی اور پھر اسی طرح تیسواں پارہ مکمل یاد کر لیا۔ وہ پوچھنے میں کسی طرح کی جھجھک یا شرم محسوس نہ کرتے کیا چھوٹا کیا بڑا۔ کبھی کبھی مجھے بھی اس سعادت کا موقع ملا ہے۔ جب شوق، لگن ہو اور انسان دل میں ٹھان لے تو اس کے لئے عمر وقت صحت بڑائی، چھوٹائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ نمک والے چاچا نے بہت بڑا سبق اپنے پیچھے چھوڑا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK