Inquilab Logo

داغ بُرے ہیں

Updated: October 29, 2022, 1:20 PM IST | Usayd Ashhar | Jalgaon

فرحان ایک امیر گھرانے کا اکلوتا بیٹا ہے۔ دولت کی فراوانی کے سبب وہ ضدی اور بدتمیز ہوگیا ہے۔ اسکول میں بھی اپنے سے کم امیر بچّوں کو ستاتا ہے۔ اس کے اسکول میں ایک نیا طالب علم فیضان داخلہ لیتا ہے۔ فرحان اس طالب علم کو بہت ستاتا ہے۔ ایک دن اسے چور ثابت کردیتا ہے اور....

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

شاہجہاں صاحب کی کوٹھی شہر کے سب سے مہنگے رہائشی علاقہ میں واقع تھی۔ وہ خاندانی رئیس تھے۔ انہیں اپنی دولت پر بڑا غرور تھا۔ فرحان شاہجہاں صاحب کی اکلوتی اولاد تھی۔ فرحان کی پیدائش کے وقت بیگم شاہجہاں جاں بحق ہوگئی تھیں، اس لئے اب فرحان ہی شاہجہاں صاحب کا سب کچھ تھا۔ انہوں نے فرحان کی پرورش بڑے لاڈ و پیار اور نازو نعم سے کی۔ نتیجتاً فرحان حد سے زیادہ ضدی اور بدتمیز ہوگیا تھا۔  شاہجہاں صاحب نے فرحان کا داخلہ شہر کے ایک مہنگے انگریزی میڈیم اسکول میں کروایا تھا۔ فرحان پڑھائی کے بجائے اپنی دولت اور قیمتی اشیاء کی نمائش کرنے کیلئے اسکول جاتا تھا۔ والد کی لاپروائی سے فرحان مزید شیر ہوگیا تھا۔ 
 نئے تعلیمی سال میں اسکول میں ایک نئے طالب علم نے داخلہ لیا جس کا نام فیضان تھا۔ وہ سانولی رنگت کا دبلا پتلا لڑکا تھا۔ اس کے چہرے اور ہاتھ پر جگہ جگہ گہرے کالے رنگ کے داغ تھے۔ اس کی انگلیاں اور ناخن کالے تھے جن میں تھوڑا میل کچیل لگا ہوتا تھا۔ فیضان غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ حکومت کی آر ٹی ای اسکیم کے تحت اس کا داخلہ اس اسکول میں ہوا تھا۔ وہ بہت کم بولتا اور دوسروں سے الگ تھلگ ہی رہتا۔ فیضان کی صورت میں فرحان کو ایک نیا نشانہ مل گیا تھا۔ایک دن، درمیانی وقفہ میں فرحان نے اپناکلر باکس فیضان کے بستہ میں چھپا دیا۔ اگلا پریڈ آرٹ اینڈ ڈرائنگ کا تھا۔ جیسے ہی استاد کلاس میں داخل ہوئے، فرحان نے اپنے کلرباکس کی گمشدگی کا واویلا مچایا۔ استاد نے خود فرداً فرداً تمام طلبہ کے بستوں کی تلاشی لی۔ فرحان کا کلر باکس فیضان کے بستہ سے برآمد ہوا۔ فیضان نے استاد کو اپنی بے گناہی کا یقین دلانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اسے سزا کے طور پر کلاس سے باہر بھیج دیا۔ فیضان کلاس سے باہر جا رہا تھا تبھی فرحان نے بلند آواز سے کہا، ’’مجھے پہلے سے ہی شک تھا۔ وہ دوسروں کے کلر باکس چراتا ہے، اسی لئے اسکے جسم پر کالے داغ پڑ گئے ہیں۔ ‘‘ اس کے ہم خیال ساتھی قہقہے لگانے لگے۔ کلاس سے باہر جاتے وقت فیضان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ 
  یونٹ ٹیسٹ کا نتیجہ ظاہر ہوا، فیضان نے امتیازی نمبرات حاصل کئے تھے جبکہ فرحان اور اس کے ساتھی فیل ہونے سے بال بال بچے تھے۔ فیضان کے اچھے مارکس آنے پر فرحان طیش میں آگیا اور اسے مزید ستانے لگا لیکن وہ اس کی شرارتوں کو خاموشی سے برداشت کرتا رہا۔   ایک دفعہ اتوار کے دن فرحان اپنے والد کے ساتھ شہر کے بڑے مال میں شاپنگ کرنے کیلئے نکلا۔ اچانک راستے میں ان کی کار بند پڑگئی۔ شاہجہاں صاحب ڈرائیور پر بڑے خفا ہوئے اور اسے خوب صلواتیں سنائیں۔ فرحان کا بھی موڈ آف ہوگیا۔ ڈرائیور بیچارہ معافی مانگتا ہوا کار سے نکلا اور آس پاس کوئی گیراج تلاش کرنے لگا۔ خوش قسمتی سے قریب ہی ایک گیراج تھا۔ ڈرائیور دوڑتا ہوا گیا اور وہاں سے میکینک کو بلالایا۔ میکینک کے ساتھ اپنی ہی عمر کے ایک لڑکے کو دیکھ کر فرحان متحیر رہ گیا۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ فیضان تھا، اس کا ہم جماعت۔ اس کا سانولاچہرہ، سخت دھوپ میں پسینہ سے چمک رہا تھا۔ اس نے میلا کچیلا سفید بنیان پہن رکھا تھا اوراس کے بازوؤں اور ہاتھوں پر آئل لگا ہوا تھا۔ اس نے کار میں بیٹھے ہوئے فرحان کو دیکھا تو چونک پڑا۔ اس نے مسکرا کر اپنی آئل میں بھرے ہوئے ہاتھ ہلا ئے۔ اس طرح اس نے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ فرحان اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ آج اسے اس حال میں اچانک دیکھ کر اسے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا۔  میکینک نے چند منٹوں میں کار کے انجن کی خرابی دور کردی۔ ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ شاہجہاں صاحب نے اپنے بٹوے سے دوہزار کا نوٹ نکالا اور ڈرائیور کے ذریعے میکنک کو دینا چاہا۔ تبھی فیضان نے میکینک کے کان میں کچھ کہا۔ میکینک کے چہرے پر حیرت کے آثار نظرآنے لگے۔ اس نے دوہزارکا نوٹ لینے سے انکار کر دیا۔ شاہجہاں صاحب نے اصرار کرنا چاہا۔  ’’شکریہ مالک، فرحان بابا اس لڑکے کے ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ہم تو آپ کو جانتے ہیں۔ ہم آپ سے پیسہ نہیں لے سکتے! اب ہم چلتے ہیں۔‘‘ میکینک نے اجازت چاہی۔
  ’’ٹھیک ہے۔ ٹھیک ہے۔ جاؤ!‘‘ شاہجہاں صاحب نے ناگواری کے ساتھ نوٹ واپس لیتے ہوئے کہا۔ دو ہزار کا نوٹ واپس بٹوے میں رکھنا، شاہجہاں صاحب کو اپنی توہین معلوم ہوا۔ انہوں نے وہ نوٹ ڈرائیور کی طرف بڑھا دیا۔ ڈرائیور خوش ہوگیا۔ کار دوبارہ مال کی طرف چل پڑی۔ لیکن فرحان کا دل وہیں اٹکا ہوا تھا۔ فرحان کو فیضان کا یہ روپ نیا اور انوکھا لگا۔ میکینک نے پیسے لینے سے انکار کیا اوردو ہزارکے نوٹ کو ٹھکرا دیا تو اسے یوں لگا جیسے، میکینک اور فرحان اس سے زیادہ امیر ہیں لیکن پتہ نہیں، ان کا یہ فعل فرحان کو برا نہیں لگا۔  فرحان مال پہنچا۔ آج مال کی رنگینیاں اسے متاثر نہیں کر پا رہیں تھیں۔ شاہجہاں صاحب نے فرحان کے بدلے ہوئے موڈ کو محسوس کیا۔ انہوں نے فرحان سے پوچھا، ’’بیٹا! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ فرحان نے اثبات میں سر ہلایا۔ 
 گھر لوٹ کر بھی وہ بار بار فیضان کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کا دل اسے فیضان کے لئے کچھ کرنے پر اُکسا رہا تھا۔ آخر اس نے ایک فیصلہ کیا۔ 
 اگلے دن اسکول میں فرحان نے فیضان پر کوئی فقرہ نہیں کسا نہ اسے کسی طور سے پریشان کیا۔ اس کے بدلے ہوئے رویہ سے اس کے دوست بھی حیران تھے۔
  وقفہ کے دوران فرحان میدان میں پہنچا۔ اسے فیضان، دوسروں سے الگ تھلگ، ایک پیڑ کے نیچے بینچ پر بیٹھا دکھائی دیا۔ وہ دوڑ کر اس کے پاس پہنچا۔ 
 ’’تم گیراج پر کام کیوں کرتے ہو؟‘‘ فرحان نے فیضان سے پوچھا۔ ’’وہ میرے پڑوسی شکور چاچا کی گیراج ہے۔ میرے اسکول خرچ کا بوجھ ماں پر نہ پڑے اور گھر خرچ میں بھی کچھ مدد کر سکوں، اس لئے میں وہاں کام کرتا ہوں۔‘‘ ’’تمہارے پاپا کیا کرتے ہیں؟‘‘ فرحان نے پوچھا۔ ’’وہ اس دنیا میں نہیں ہیں۔ جب میں بہت چھوٹا تھا تب ہی وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔‘‘ فیضان نے مغموم لہجے میں جواب دیا۔ ’’اوہ! مجھے افسوس ہوا۔‘‘ اورفرحان کو واقعی افسوس ہوا۔ ’’کل تم نے ہم سے پیسے کیوں نہیں لئے؟‘‘ فرحان نے موضوع بدلنا چاہا۔ 
 ’’مَیں تمہیں اپنا دوست مانتا ہوں، اس لئے تم سے پیسے کیونکر لے سکتا ہوں؟ مَیں نے شکور چاچا کو بتایا تھا کہ تم میرے ہم جماعت ہو تو وہ بھی بہت خوش ہوئے تھے۔ مَیں نے انہیں کہا کہ وہ تم سے پیسے نہ لیں، بھلے ہی بعد میں میری تنخواہ سے کاٹ لیں۔‘‘
 ’’تم مجھے اپنا دوست مانتے ہو؟‘‘
 ’’ہاں! تم میرے دوست ہو۔‘‘
 فرحان کچھ دیر سوچتا رہا۔ اس کی نظریں فیضان کے ہاتھوں پر پڑیں۔  اس نے فیضان سے پوچھا، ’’تمہارے ہاتھوں پر یہ داغ کیسے؟‘‘
 ’’گیراج پر کام کرتے کرتے یہ کب اور کیسے آگئے، پتہ ہی نہ چلا۔‘‘ فیضان نے لاپروائی سے کہا۔  ’’یہ داغ بُرے ہیں۔ تمہارے ہاتھوں پر اچھے نہیں لگتے۔ ہم اِن کا علاج کروائیں گے۔ اور اب تمہیں گیرج پر کام کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ تمہاری تعلیم کا مکمل خرچ میرے پاپا اُٹھائیں گے۔ مَیں نے پاپا سے بات کرلی ہے۔‘‘
 فیضان کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ فرحان نے آگے بڑھ کر فیضان کو گلے لگایا۔ فیضان کی آنکھیں شدت جذبات سے بہے جا رہی تھیں۔ فرحان نے فیضان کو مزید بھینچ لیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK