Inquilab Logo

اور چھتری کھو گئی

Updated: June 11, 2022, 12:56 PM IST | Taskeen Zaidi | Mumbai

بارش کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں چھتریاں نظر آنے لگتی ہیں۔ چھتری بارش سے بچانے کا کام دیتی ہے مگر اس کو سنبھالنا ایک مشکل کام ہے۔ بارش شروع ہوتے ہی اسد کے ڈیڈی ایک خوبصورت چھتری خرید لاتے ہیں اور ہر وقت اس کا خیال رکھتے ہیں مگر ایک دن....

And the umbrella is lost.Picture:INN
اور چھتری کھو گئی۔ تصویر: آئی این این

ڈیڈی کی چھتری ٹوٹ گئی تھی۔ برسات کا موسم سر پر آگیا تھا۔ ممی کے اصرار پر انہوں نے نئی چھتری کی تلاش شروع کر دی تھی اور واقعی ہمارے گھر میں اس کی اشد ضرورت تھی۔ مَیں تو یوں ہی سائیکل پر سوار ہو کر اسکول چلا جاتا تھا۔ نہ تیز دھوپ کی پروا کرتا تھا اور نہ بارش کے پانی کی، مگر ثنا کو اسکول چھوڑنے کے لئے ڈیڈی کو چھتری چاہئے تھی، کیونکہ صبح سویرے ہی اسے چھوڑنے جانا ہوتا ہے اور اکثر بارش میں بھیگ جاتی ہے جس سے کبھی کبھی وہ نزلہ، زکام اور بخار میں مبتلا ہو جاتی ہے اور نتیجتاً ڈاکٹروں کی جیبیں گرم ہو جاتی ہیں۔ ایک سو روپے کی بچت کے لئے کئی سو گنوانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ ہمارے دادا جان اپنی چھتری کو بڑا عزیز رکھتے تھے۔ وہ ملٹری سویلین تھے اور آزاد ہند فوج میں دس سال کام کر چکے تھے۔ ان کی چھتری کتنی پرانی تھی اس کا صحیح اندازہ تو نہیں لگایا جاسکتا مگر ہمارے چچا جان کے بمو جب یہ پچاس برس سے ان کے پاس موجود تھی اور ایک نادر چیز بن گئی تھی۔ لوگ اسے بہت حیرت سے دیکھتے تھے۔ دادا جان کے انتقال کے بعد یہ چھتری پتہ نہیں کہاں چلی گئی شاید اسے مالک کی جدائی برداشت نہیں ہوسکی اور وہ بھی اللہ میاں کے پاس چلی گئی۔ ہمارے پرانے گھر میں دادا جان کا جو بڑا سا فوٹو فریم میں چسپاں ہے اس میں وہ اپنی چھتری کو گود میں لئے بیٹھے ہیں اور بڑی شان سے مسکرا رہے ہیں جیسے چھتری نہ ہو کوئی خاندانی تلوار ہو۔
 دادا جان ڈیڈی کو چھتری رکھنے کے فوائد بتا کر ہدایت کرتے تھے کہ بیٹا اپنے ساتھ چھتری ضرور رکھا کرو۔ یہ گرمی اور برسات دونوں موسموں میں کام آئے گی۔ ممی کی بار بار یاد دہانی کرانے پر ایک دن ڈیڈی چھتری خرید ہی لائے۔ ان کے ہاتھ میں یہ بہت جچ رہی تھی۔ سب نے اسے بہت پسند کیا۔
 دوسرے دن زور دار بارش ہوئی اور اس کا استعمال بھی خوب ہوا۔ میں نے بھی دل میں کہا کہ واقعی یہ بڑے کام کی چیز ہے۔ سب کو اپنی امان اور چھتر چھایا میں محفوظ رکھتی ہے تبھی تو آج کل ہر عورت کے بیگ میں ہم ایک فولڈنگ چھتری ضرور پائیں گے مجھے فولڈنگ چھتری پسند نہیں۔ چھتری تو ہاتھ میں زیب دیتی ہے یہ کوئی پوشیدہ رکھنے کی چیز نہیں ہے۔ چھتری آئی بھی اور چلی بھی گئی کیونکہ ہمارے ڈیڈی بڑے بھلکڑ ہیں۔ ہوا یہ کہ اس دن صبح سے ہی بادل گرج کر ماحول کو سہا رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ جب دس بجے تک پانی نہیں تھما تو ڈیڈی نے چھتری ساتھ لے جانے کا پکا ارادہ کر لیا۔ بولے کم سے کم چوراہے تک تو یہ بارش سے محفوظ رکھے گی۔ پھر کالج کے گیٹ سے آفس تک یہ مجھے بھیگنے سے بچائے گی۔
 تو جناب ڈیڈی اسے ساتھ لے کر گھر سے بڑی شان سے باہر نکلے۔ چلتے وقت ممی نے ہدایت کی تھی کہ اسے سنبھال کر اپنی نگرانی میں رکھئے گا اور لوگوں کی نظر بد سے بچایئے گا۔ شام کو آپ گھر آئیں گے تو میں اس پر آپ کا نام سفید دھاگے سے کاڑھ دوں گی جس سے پہچان بنی رہے ورنہ ایک ہی شکل کی چھتریوں میں اپنی چھتری پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔
 شام کو کالج کے بعد ڈیڈی اسے کئی جگہ لے کر گئے۔ بارش بند ہوگئی تھی۔ ایک ہاتھ میں بیگ اور دوسرے میں چھتری لئے وہ دوستوں سے ملنے پہنچ گئے۔ ہر شخص اسی چھتری کو گفتگو کا موضوع بنائے رہا۔
 ’’کیا قیمت ہے کہاں سے خریدی ہے....؟‘‘
 وہ سب کو بتاتے بتاتے تنگ آگئے۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اس پر قیمت کا لیبل چسپاں کرا دیں ورنہ ہر ایک کو اس کی قیمت بتانا ان کے بس کے باہر ہے۔ وہ اسے بڑی مضبوطی سے پکڑے رہے۔ جہاں جاتے اسے یاد رکھنے کی کوشش کرتے، کچھ اسے چھو کر یادداشت پر بھروسہ کرکے۔ پہلے وہ ایک کتابوں کی دکان پر گئے وہاں سے میرے لئے کچھ کتابیں اور کاپیاں خریدیں۔ پھر ایک میگزین والے کی دکان پر پہنچے وہاں سے اپنے لئے ادبی رسالے خریدے۔ چلتے وقت چھتری میگزین والی دکان پر ہی بھول گئے۔
 جب باہر آئے تو لگا کہ ایک ہاتھ خالی ہے پھر دکان کے اندر گئے۔ نوکر نے چھتری دیتے ہوئے مسکرا کر کہا: ’’بابو جی....! اسے سنبھال کر رکھئے گا۔ نئی چھتری ہے کسی کے ہتھے چڑھ گئی تو آپ ٹاپتے ہی رہ جائیں گے۔‘‘
 وہاں سے وہ ٹنڈن فوٹو کاپی سینٹر گئے وہاں چند منٹ رک کر انہوں نے کئی کہانیوں کی زیروکس کاپیاں کروائیں۔ پھر چوراہے پر آگئے اور رکشے پر بیٹھ کر گھر کی طرف چل دیئے۔ راستے میں اچانک خود کو ہلکا محسوس کرکے انہوں نے چھتری ٹٹولی تو وہ غائب تھی۔ ان کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور سوچنے لگے کہ وہ کیا کریں۔ کیا واپس لوٹ جائیں؟ شاید چھتری ٹنڈن زیروکس والے کے یہاں بھول آیا ہوں۔ پھر یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ جان پہچان کا آدمی ہے اس نے حفاظت سے رکھ لی ہوگی۔ واپسی میں لے لوں گا عجلت کی کیا ضرورت ہے۔
 اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس چیز کو ہم بہت یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہی بھول جاتے ہیں۔ انسانی ذہن میں بھی تو بھولنے اور یاد رکھنے کا عمل جاری رہتا ہے، بالکل سائیکل کے پہیوں کی رفتار کی طرح گھبراہٹ میں وہ پھر سب دکانوں پر پوچھ آئے مگر کہیں اس کا سراغ نہیں ملا۔ ہر جگہ سے یہی جواب ملا:
 ’’چھتری تو آپ ساتھ لے گئے تھے۔‘‘
 آٹھ بج چکے تھے ٹنڈن کی دکان بند ہو چکی تھی۔ انہوں نے سوچا کہ صبح آکر سب سے پہلے ٹنڈن کی دکان پر ہی معلوم کروں گا ممکن ہے کہ وہ حفاظت سے رکھی ہو۔ گھر آکر وہ چپکے سے اپنے کمرے میں گھس گئے۔ ان کی آمد کی آہٹ پاکر ممی اور ہم لوگ کمرے میں آگئے۔
 حسب ِ معمول سبھی پوچھنے لگے کہ، ’’آج آپ کیا لائے ہیں؟‘‘
 ’’کچھ نہیں، مَیں آج جلدی میں چلا آیا۔‘‘ ڈیڈی نے تھکے ہوئے لہجہ میں کہا۔ ممی کی پہلے بیگ پر نظر پڑی پھر ان کی نگاہیں چھتری کو تلاش کرنے لگیں۔ آس پاس چھتری نہ پا کر وہ گھبرا کر پوچھ بیٹھیں، ’’چھتری کہاں ہے جی۔ کیا کہیں بھول آئے؟ بچوں کو تو ڈانٹتے رہتے ہیں کہ تم لوگ دکان پر سامان بھول آتے ہو اور خود کسی سے کم بھلکڑ نہیں ہیں۔ بتایئے نا کہاں ہے؟‘‘ وہ مجرم کی طرح چپ بیٹھے رہے اور بمشکل بولے کہ، ’’ایک دکان پر بھول آیا ہوں کل صبح لے لوں گا۔‘‘ پھر ممی کے کہنے پر پورا قصہ بیان کیا جسے میں برابر کے کمرے سے سن رہا تھا۔
 ممی نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’’اگر چھتری نہیں ملی تو کیا ہوگا؟ دکاندار کا کیا بھروسہ؟ ہوسکتا ہے کہ اس کی اس پر نظر ہی نہ پڑی ہو اور کوئی گاہک اسے مفت کا مال سمجھ کر لے گیا ہو۔ آپ تو باہر جا کر ایسے بدحواس ہو جاتے ہیں کہ کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہتا۔ اب جایئے بارش میں بھیگتے ہوئے۔ اب میں تو تنخواہ میں سے چھتری کے پیسے نہیں نکالوں گی۔‘‘ وہ لاجواب سے ہو کر ان کا منہ تکتے رہ گئے۔
 دوسرے دن ڈیڈی صبح کالج جاتے ہوئے سیدھے ٹنڈن فوٹو کاپی سینٹر پہنچ گئے۔ راستے بھر دعائیں مانگتے رہے کہ یا اللہ میری چھتری وہیں رکھی ہوئی مل جائے۔ دکان پر پہنچ کر انہوں نے کاؤنٹر کے آس پاس دیکھا مگر چھتری کہیں نظر نہیں آئی سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ اندر اسٹور میں حفاظت سے رکھی ہو۔ ٹنڈن زیروکس والا انہیں دیکھ کر چونکا کہ یہ آج صبح سویرے کیسے؟ ڈیڈی امید لگائے ہوئے تھے کہ وہ انہیں دیکھتے ہی چھتری تھما دے گا۔ مگر جناب وہ انہیں دیکھ کر نہ تعجب میں پڑا اور نہ طنز سے مسکرایا بلکہ پوچھنے لگا، ’’آج یہ صبح کیسے جناب! کیا کوئی نئی کہانی لکھی ہے جس کی زیروکس کرانے آئے ہیں؟‘‘
 ڈیڈی نے آنے کا مدعا بیان کیا تو وہ جواب میں بولا، ’’جی نہیں، یہاں تو مَیں نے چھتری نہیں دیکھی۔ مَیں دکان بند کرنے سے پہلے سب سامان دیکھ لیتا ہوں۔ آپ اسے کہیں اور بھول آئے ہوں گے۔ یہاں رہ جاتی تو آپ کے گھر بحفاظت پہنچا دیتا۔ ویسے آج کل چھتریاں بہت گم ہو رہی ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں اسی لئے تو اب برساتی رکھنے لگا ہوں۔‘‘ ڈیڈی مایوسی اور شکست خوردگی کی کیفیت کا شکار ہو کر خالی ہاتھ گھر لوٹ آئے اور گھر میں سب سے سہمے سہمے اور ڈرے ڈرے سے رہے کہ پھر کوئی مجھ سے چھتری کے بارے میں نہ پوچھ بیٹھے۔ اگر کسی نے پوچھ لیا تو کیا جواب دوں گا۔ اپنا بیگ میز پر رکھ کر وہ صوفے پر آرام کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ ان کی نظر کونے میں رکھی ایک چھتری پر پڑ گئی اور وہ خوشی سے اچھلتے ہوئے تیزی سے اس کی طرف لپک پڑے۔ اچانک ان کے منہ سے نکل گیا، ’’اچھا تو بی چھتری! آپ یہاں براجمان ہیں اور آپ کو ہر جگہ ڈھونڈ آیا۔‘‘
 پھر اسد کو آواز دے کر پوچھا، ’’ارے اسد! یہ چھتری یہاں کیسے آگئی۔ اسے کون دے گیا تھا؟ مَیں تو اس کی وجہ سے آج دن بھر پریشان رہا۔‘‘ مگر ان کی امیدوں پر اس وقت پانی پڑ گیا جب اسد نے بتایا، ’’پاپا! ابھی انکل چودھری آپ سے ملنے آئے تھے وہی اپنی چھتری بھول گئے ہیں۔‘‘ اس کی بات پر انہیں یقین نہیں آیا تو انہوں نے ہاتھ میں لے کر اسے غور سے دیکھا۔ ہوبہو ان کی گمشدہ چھتری سے مشابہ تھی مگر اس کے کور پر ایک کونے میں اشوک کمار چودھری کے نام نے انہیں مزید مایوس کر دیا۔ انہیں ایسا لگا کہ جیسے ان کے ہاتھ میں آئی ہوئی قیمتی چیز پھسل کر زمین پر گر پڑی ہو اور چکنا چور ہو گئی ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK