Inquilab Logo

طلبہ، کووڈ۔۱۹؍ ریسرچ اور سائنسی سفر کی بابت یہ حقائق ضرور جان لیں

Updated: June 25, 2021, 7:00 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کورونا وائرس کی وباء پھوٹنے پر اعلان کیا تھا کہ اس وائرس کے خلاف لڑنے کیلئے مؤثر ویکسین بنانے میں ۱۵؍ سے ۱۸؍ ماہ درکار ہوں گے۔

Symbolic image. Photo: INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

سائنس کی دنیا میں ۲۰۲۰ء کو اہم ترین سال قرار دیا جارہا ہے۔ اس سال نہ صرف دنیا کے تمام ممالک بلکہ ان کے سائنسداں بھی ایک جان لیوا وائرس کے خلاف متحد ہوگئے تھے، اور ان تمام نے مل کر کورونا وائرس (کووڈ۔۱۹) جیسے خطرناک وائرس سے دنیا کو چھٹکارا دلانے کیلئے جانفشانی سے کام شروع کردیا تھا۔ تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسا سال گزرا ہوگا جس میں دنیا نے یوں مل کر کام کیا ہوگا۔ اسی لئے طبی ماہرین کی جانب سے سائنسی تحقیق کے حوالے سے اس سال کو خاص اور اہم قرار دیا جارہا ہے۔ 
 سائنس نے آج بہت ترقی کرلی ہے لیکن اگر کوئی وائرس دنیا پر حملہ آور ہوجائے تو اس کے خلاف کوئی دوا یا ویکسین بنانے میں کم از کم چند برس تو ضرور لگ جائیں گے، وہ بھی اس صورت میں جب دنیا کے تمام بہترین دماغ مل کر ایک ساتھ کام کریں ۔ لیکن اگر کوئی ملک انفرادی طور پر اس وائرس کے خلاف لڑنے کی کوشش کرے گا تو اسے متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا نیز اسے ویکسین بنانے میں برسوں لگ جائیں گے۔ اس مضمون میں جانئے کہ کورونا وائرس پر قابو پانے کیلئے دنیا میں کون کون سے اقدامات کئے گئے، اور اس دوران دنیا نے کتنی مشکلات کا سامنا کیا:
نیا وائرس پایا گیا
 دسمبر ۲۰۱۹ء میں چین کے شہر ووہان میں کووڈ۱۹؍ کا پہلا معاملہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم، سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ چین میں یہ وائرس نومبر ۲۰۱۹ء ہی سے موجود تھا۔ یہ وائرس اتنی تیزی سے پھیلا کہ چین کی حکومت کو فوری طور پر ووہان میں لاک ڈاؤن لگانا پڑا۔ لیکن جتنی دیر میں حکومت اس پر عمل درآمد کرتی، اتنی دیر میں یہ وائرس چین سے نکل دیگر ملکوں میں پھیل چکا تھا، اور پھر محض چند مہینوں میں پوری دنیا اس وائرس کی لپیٹ میں آگئی اور تمام ممالک کو حفاظتی اقدامات کرنے پڑے۔ 
مرض کی تشخیص کیسے کی جائے؟ 
 دنیا کے سامنے پہلا چیلنج یہ تھا کہ اس مرض کی تشخیص کیسے کی جائے کیونکہ اس کی علامات ظاہر ہونے میں ۲؍ ہفتے (۱۴؍ دن) لگتے ہیں ۔ چنانچہ دنیا کی کئی کمپنیوں نے ایسے آلات اور ٹیسٹ پر کام شروع کردیا جن کی مدد سے انسانوں میں کم وقت میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو سکے۔ اس دوران ایسے ٹیسٹ بھی متعارف ہوئے جو محض ۱۰؍ منٹ میں بتا دیتے ہیں کہ کوئی شخص کورونا سے متاثر ہے یا نہیں جبکہ ایسے ٹیسٹ بھی ہیں جن کا نتیجہ آنے میں ایک ہفتہ تک لگا جاتا ہے۔
دواؤں کی مانگ میں اضافہ 
 دوسرا چیلنج ایسے مریضوں کا علاج تھا جن میں کورونا تشخیص ہوا تھا۔ کورونا وائرس ہوجانے کی صورت میں ایک شخص کو اسپتال میں کئی دن گزارنے پڑتے تھے۔ تاہم، اپریل ۲۰۲۰ء میں اس وائرس پر جو ٹیم کام کررہی تھی اس نے کہا کہ ’’ریمڈیسویر‘‘ نامی انجکشن اس مرض کے علاج میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ چنانچہ فارما کمپنیوں نے اس انجکشن کو بنانے کی شروعات کردی۔ لیکن کئی ایسے مسائل سامنے آئے کہ اکتوبر ۲۰۲۰ء میں عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس انجکشن کو استعمال کرنے سے منع کردیا۔ مگر اب بھی کئی ممالک میں اس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ دریں اثناء، دنیا کی تقریباً تمام فارما کمپنیوں نے کورونا کی علامات کے پیش نظر، اور اس سے لڑنے کیلئے دوائیں اور انجکشن بنانے شروع کردیئے تھے۔ چونکہ یہ وائرس ہونے پر مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے اس لئے آکسیجن کی مسلسل فراہمی بھی یقینی بنائی گئی۔ لیکن کئی ممالک میں ایسا بھی ہوا کہ آکسیجن کی فراہمی کی کمی کی وجہ سے ہا ہاکار مچ گئی، جن میں ہمارا ملک ہندوستان بھی شامل تھا۔کووڈ۱۹؍ کے علاج کیلئے استعمال ہونے والی دواؤں اور انجکشن کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ ان تمام چیزوں کا ایک ہی مقصد تھا، انسانوں کی جان بچانا۔
سائنسی معلومات اور تحقیقات عام کی گئیں 
 جنوری ۲۰۲۰ء میں چینی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے کووڈ۔۱۹؍ کے متعلق جتنی بھی سائنسی معلومات تھیں انہیں آن لائن شیئر کردیا تاکہ دیگر ممالک بھی اس سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرسکیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کے متعدد ممالک میں اس وائرس سے لڑنے کیلئے دواؤں اور ویکسین کی تیاری کا آغاز ہوگیا۔
 خیال رہے کہ کسی بھی ویکسین کو بازار میں لانے کیلئے اس پر ۳؍ مرحلے میں تحقیق کی جاتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ جب یہ کسی کو لگائی جائے تو اس کا کوئی منفی رد عمل سامنے نہ آئے۔ یہی وجہ ہے کہ ویکسین بننے میں کئی مہینے لگے۔ اس دوران لوگوں سے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کیلئے کہا گیا تاکہ انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو اس خطرے سے محفوظ کیا جاسکے۔ اسی لئے لاک ڈاؤن بھی لگائے گئے۔
 آج بھی کئی ممالک میں لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ ماہرین کے مطابق دیگر ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں کووڈ۱۹؍ کی دوسری لہر تاخیر سے آئی اور اس کا زور جولائی ۲۰۲۱ء میں ختم ہوگا۔ 
پہلی ویکسین
 فائزو وہ پہلی کمپنی تھی جس کی بنائی گئی ویکسین ’’کووی شیلڈ‘‘ کو ڈبلیو ایچ او کی جانب سے انسانوں کو لگانے کی اجازت دی گئی۔۳۰؍ اپریل ۲۰۲۱ء کو فائزو نے بتایا کہ اس کی بنائی ہوئی ویکسین سے کوروناوائرس کو ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کا خطرہ ٹالا جاسکتا ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کووڈ کی کسی بھی ویکسین کا پہلا ٹیکہ لیتا ہے تو کورونا وائرس ہونے کی صورت میں وہ اسے دوسرے شخص میں منتقل نہیں کرسکے گا۔ 
 مذکورہ کمپنی کے سائنسدانوں نے یہ بھی بتایا کہ پہلا ٹیکہ لینے کے ۲۱؍ دن کے اندر اندر مذکورہ شخص کووڈ سے متاثر ہوسکتا ہے۔ اس لئے احتیاط لازم ہے۔
ویکسین کتنی مؤثر ہوگی؟
 اس دوران بہت سے افراد نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ انسانوں کی ایک بڑی آبادی پر ٹرائل نہ کرنے کے سبب یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ویکسین پوری طرح سے اثر کرے گی؟ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں کووڈ کی اب تک ایسی کوئی بھی ویکسین نہیں بنائی جاسکی ہے جس سے اس وائرس سے نمٹنے میں ۱۰۰؍ فیصد کامیابی ملے۔ فی الحال جو ویکسین دستیاب ہیں وہ کورونا وائرس سے محفوظ رہنے میں ۷۸؍ تا ۹۵؍ فیصد مؤثر ہیں ۔کئی ممالک میں جنگی پیمانے پر لوگوں کو ویکسین لگائی جارہی ہیں تاکہ وہاں لاک ڈاؤن ختم کیا جاسکے، اور انسان پہلے کی طرح کھلی فضا میں سانس لے۔
کووڈ۔۱۹؍ کےمتعلق چند اہم باتیں 
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ہر ۵؍ میں سے ۴؍ شخص میں اس کی علامات چند دنوں میں ظاہر ہوتی ہیں ۔
اس مرض کا شکار ہونے والے ۹۵؍ فیصد سے زائد افراد صحت یاب ہوچکے ہیں ۔ 
بچے اور نوجوان اس سے بری طرح متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان میں ہلکی علامات ظاہر ہوتی ہیں ۔ مگر چند معاملات میں یہ خطرناک ثابت ہوا ہے۔ابتداء ہی میں علاج کرکے اس وائرس کو شکست دی جاسکتی ہے۔
یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلتا ہے اسلئے دنیا بھر میں جب تک اس پر قابو نہیں پالیا جاتا تب تک تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہوگا۔
ایک مرتبہ اس مرض کا شکار ہونے والا شخص اس سے دوبارہ متاثر ہوسکتا ہے۔
یہ وائرس کسی بھی قسم کی سطح پر کئی دنوں تک زندہ رہتا ہے اس لئے کسی بھی چیز کو چھونے کے بعد اپنا ہاتھ صاف پانی سے ضرور دھوئیں یا سینیٹائزر استعمال کریں ۔
ویکسین ہی اس مرض کا علاج ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK