Inquilab Logo

سیّد جلال اور جِن

Updated: November 05, 2022, 11:46 AM IST | Shamim Karhani | Mumbai

سیّد صاحب محکمۂ جنگلات کے داروغہ تھے۔ ایک دن جنگل کا معائنہ کرتے کرتے دور نکل آتے ہیں اور ایک اجاڑ گاؤں کے پاس ٹھہرتے ہیں مگر

Syed Jalal and Jinn .Picture:INN
سیّد جلال اور جِن ۔ تصویر:آئی این این

سیّد جلال، محکمۂ جنگلات کے داروغہ تھے۔ لمبے چوڑے نڈر۔ جدھر نکل جاتے لوگ تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے، جنگل کے ڈاک بنگلے میں وہ رہتے تھے صبح سویرے اُٹھتے نماز سے فارغ ہو کر ناشتہ کرتے اور جنگل کے معائنے کے لئے نکل جاتے۔ بہت دور دور کا چکّر لگاتے کبھی کبھی اتنی دور نکل جاتے کہ واپسی میں رات ہو جاتی اور انہیں سخت اندھیرے کا سامنا کرنا پڑتا مگر وہ ذرا بھی نہ ڈرتے۔ اپنے گھوڑے کو بڑھاتے اطمینان سے ڈاک بنگلے میں پہنچ جاتے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ سیّد صاحب معائنے کو نکلے اور بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ بالکل شام ہوگئی۔ وہ ایک اجڑے سے گاؤں کے باہر ایک مسجد کے قریب گھوڑا روک کر کھڑے ہوگئے اور سوچنے لگے کہ اگر واپس ہوتے ہیں تو بڑی رات ہو جائے گی اور راستہ بھول جانے کا خطرہ ہے۔ وہ اسی الجھن میں تھے کہ گاؤں کے ایک چرواہے نے سلام کرکے پوچھا ’’کیا بات ہے صاحب! کس کی تلاش ہے؟‘‘ سیّد صاحب نے بتایا کہ وہ محکمہ جنگلات کے داروغہ ہیں اور اپنے ڈاک بنگلے سے دور آپڑے ہیں رات یہاں بسر کرنا چاہتے ہیں۔ چرواہے نے کہا ’’صاحب ہم گاؤں کے مکھیا بڑے خان صاحب کو بلائے لاتے ہیں۔ آپ اُن سے باتیں کر لیجئے بلکہ آپ اُنہیں کے ہاں رات کو ٹھہریئے وہ آپ کی خدمت کریں گے اور آرام پہنچائیں گے۔‘‘ مگر سیّد صاحب نہیں مانے اور بولے کہ ہم تو اُسی مسجد میں سو رہیں گے۔ گاؤں والوں کو تکلیف دینے سے کیا فائدہ؟‘‘ چرواہے نے کہا ’’صاحب یہ جنوں کی مسجد ہے۔ اس میں جو مسافر رات کو سوتا ہے صبح کو مُردہ پایا جاتا ہے۔ آپ یہاں نہ سویئے اور گاؤں میں چل کر بڑے خاں صاحب کے گھر آرام کیجئے۔‘‘ سیّد صاحب ایک ہی جلالی تھے۔ بہادر، جری اور خطروں کا مقابلہ کرنے والے۔ انہوں نے کہا ’’نہیں بھائی، اب تو مَیں اسی مسجد میں رات گزاروں گا۔ دیکھوں تو کیا بات ہے کہ جو سوتا ہے وہ صبح مُردہ پایا جاتا ہے۔‘‘ چرواہا دوڑا ہوا گاؤں میں گیا اور اُس نے بڑے خاں صاحب اور دوسرے لوگوں کو خبر دی کہ محکمۂ جنگلات کے داروغہ باہر جنوں کی مسجد کے پاس کھڑے ہیں۔ سب لوگ دوڑے۔ بڑے خاں صاحب بھی لالٹین سنبھالے آپہنچے اور سیّد صاحب سے بولے ’’صاحب یہ سچ ہے کہ آج تک کوئی بھی اِس مسجد سے جان بچا کر نہیں نکلا، جو سویا وہ صبح کو مُردہ پایا گیا۔ گاؤں والوں نے اس مسجد کو چھوڑ دیا اور کوئی بھی یہاں شام کے بعد ٹکتا نہیں۔‘‘ سیّد صاحب بولے ’’بھائی بات یہ ہے کہ یہ بڑی کم ہمتی اور بزدلی کی بات ہوگی کہ ہم ڈر کے یہاں سے بھاگ جائیں اور اس کا پتہ نہ لگائیں کہ آخر کیا بات ہے کہ اس مسجد میں جو سوتا ہے وہ مر جاتا ہے۔‘‘ گاؤں والے جب سیّد صاحب کو سمجھا بجھا کر ہار گئے تو مجبوراً واپس گئے اور ساگ پات جو کچھ میسر ہوا سینی میں لگا کر لائے اور سیّد صاحب کو کھلا پلا کر رخصت ہوئے۔ بڑے خاں صاحب نے اپنی لالٹین سیّد صاحب کے لئے چھوڑتے ہوئے کہا ’’اگر آپ کہیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ یہاں سوجائیں۔‘‘ مگر سیّد صاحب نے لالٹین واپس کرتے ہوئے کہا ’’نہیں! آپ لوگ جایئے اور آرام کیجئے۔ اگر مَیں رات کے کسی حصے میں آواز دوں تو آپ لوگ آسکتے ہیں۔ ‘‘ خاں صاحب چلے گئے۔ سیّد صاحب نے مسجد میں قدم رکھا۔ مسجد مختصر سی تھی، ٹوٹی پھوٹی، صحن میں گھاس اُگ آئی تھی۔ در جھک گئے تھے۔ ہال کی چھت میں جگہ جگہ سوراخ تھے۔ سیّد صاحب نے ہال میں وہ کمبل بچھایا جو خاں صاحب دے گئے تھے اور اللہ کا نام لے کر لیٹ گئے۔ گھوڑا باہر ایک درخت کی جڑ سے بندھا ہوا تھا۔ گھاس اور چارے کا انتظام گاؤں والوں نے کر دیا تھا۔ سیّد صاحب نے لیٹتے ہی دو ایک کروٹیں لیں پھر اُٹھ کھڑے ہوئے اور وضو کرکے نماز ادا کی پھر گھنٹوں وظیفہ اور دعائیں پڑھتے رہے۔ اُدھر گاؤں میں لوگ ڈر کے مارے تھرتھر کانپ رہے تھے کہ محکمۂ جنگلات کا داروغہ اکیلا جنوں کی مسجد میں پڑا ہے۔ صبح اُس کی لاش مسجد سے برآمد ہوگی۔ سارے گاؤں پر مصیبت نازل ہوگی۔ گورنمنٹ انگریزوں کی ہے۔ گاؤں کے ایک ایک آدمی کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے گا۔ نہ جانے ہم سے کیا گناہ ہوگیا کہ یہ مصیبت اس سیّد کی شکل میں ہم پر ٹوٹی ہے۔ اے خدا تو رحم کرنا.... اِدھر سیّد صاحب دعاؤں سے فارغ ہو کر پھر کمبل پر دراز ہوگئے۔ کچھ خوف کچھ خطرے کا انتظار اُنہیں بے چین کر رہا تھا۔ کروٹیں بدلتے بدلتے ۲؍ بج گئے اور چاند اپنا سفر طے کرتا ہوا مسجد کے گنبد کی سیدھ میں آپہنچا۔ سیّد صاحب چت لیٹ گئے اور چھت کی طرف تکنے لگے، اچانک سیّد صاحب نے محسوس کیا کہ چھت پھٹی اور ایک خوفناک چمکیلا ہاتھ جھولنے لگا۔ وہ ذرا سنبھلے اور غور سے دیکھنے لگے کہ اچانک دوسرا چمکیلا ہاتھ بھی نکلا اور سیّد صاحب کی طرف ڈراؤنے انداز میں بڑھنے لگا۔ پھر دانت نکالے ہوئے ایک بے حد بھیانک چہرہ اُنہیں دیکھ کر ہنسنے لگا اور ہوا میں دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر اُنہیں پکڑنے لگا۔ سیّد صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ خوف سے اُن کا سارا جسم پسینے میں ڈوب گیا۔ سیّد صاحب نے ڈنڈا داہنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لیا۔ اچانک جِن کی آنکھوں سے ایک شعلہ تیزی سے نکل کر سیّد صاحب کی طرف لپکا سیّد صاحب نے کھڑے ہو کر ڈنڈے کا ایک بھرپور وار کر ہی تو دیا۔ چھن چھن چھن چھن.... کی زور دار آواز ہوئی اور جِن نظروں سے غائب ہوگیا۔ گاؤں والے آواز سن کر لالٹین لئے دوڑے۔ مسجد میں آئے بڑے خاں صاحب نے پوچھا ’’کیا ہوا سیّد صاحب؟‘‘
 سیّد صاحب حیران اور خوفزدہ کھڑے تھے۔ بڑے خاں صاحب نے لالٹین کی روشنی میں دیکھا کہ مسجد کے سارے فرش پر شیشے کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں۔ وہ افسوس کے لہجے میں بولے، ’’سیّد صاحب! مسجد کا یہ جھاڑ بزرگوں کی نشانی تھا۔ آپ نے اُسے کیوں توڑ دیا۔‘‘ سیّد صاحب اب سمجھے اور مسکرا کے بولے ’’اوہ.... یہ بات تھی بھائی۔ یہی جھاڑ لوگوں کی جان لیتا تھا، چاند کی روشنی جب سوراخ سے اس جھاڑ پر آتی اس کے ٹوٹے کنول اور اس کی شاخیں ہاتھ منہ اور دانت بن کر چمکتے اور لوگ اسے جِن سمجھ کر اتنے خوفزدہ ہوتے کہ مر جاتے تھے۔ اب آپ لوگ جانیں۔ مَیں نے اس مسجد کے جِن کو ختم کر دیا۔ اب یہاں ہر مسافر آرام سے سو سکتا ہے۔‘‘ اُس دن سے وہ مسجد آباد ہوگئی اور گاؤں کے لوگ سیّد جلال کی بہادری کو آج تک یاد کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK