Inquilab Logo

وہ ۵؍ نوجوان ہندوستانی ارب پتی جن کی محنت کامیابی کی کلید بنی

Updated: August 27, 2021, 7:00 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی برسوں میں ہر انٹرپرینیور کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر ثابت قدمی اور ہدف طے کرکے ہر مشکل کا سامنا کیا جاسکتا ہے، اسی سے کامیابی ملتی ہے۔اویو رومز، اولا کیبس، ریویگو، امپروبیبل ورلڈس اور زوماٹو سے آپ یقیناً واقف ہیں ، مگر انہیں قائم کرنے اور برانڈ بنانے میں اِن انٹرپرینیورز نے کتنی محنت کی ، اس سے واقف نہیں ہونگے۔

Symbolic image. Photo: INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

کروڑ پتی اور ارب پتی افراد کے بارے میں ہم اکثر و بیشتر سنتے رہتے ہیں اور ان کی شخصیت اور دولت پر رشک کرتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ اس مقام پر کتنی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد پہنچے ہیں ۔ برسوں کی کڑی محنت اور جدوجہد کے بعد کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ اِسٹیٹسٹا ۲۰۲۱ء کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ارب پتی چین میں ہیں ۔دوسرے نمبر پر امریکہ جبکہ تیسرے نمبر پر ہندوستان ہے۔ بزنس انسائڈر کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ۱۷؍ ایسے انٹرپرینیور ہیں جن کی عمریں ۴۰؍ سال کم ہیں ، اور ان تمام کے اثاثوں کی مشترکہ مالیت ۴۵؍ ہزار کروڑ روپے ہے۔ ملک کے ۱۷؍ ارب پتیوں میں سے ۹؍ کی کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرس بنگلور میں واقع ہیں ۔ ان میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جنہوں نے اپنی محنت سے دولت اور شہرت حاصل کی ہے۔ ان کا تعلق ملک کے متوسط اور غریب خاندانوں سے ہے لیکن جہد مسلسل نے انہیں کامیابیاں عطا کی ہیں ۔ جانئے ملک کے۵؍ کم عمر ارب پتیوں اور ان کی جدوجہد کی کہانیوں کے بارے میں ۔
 رتیش اگروال
 اویو رومز کے بانی اور سی ای او رتیش اگروال نے پورے ہندوستان میں کفایتی داموں میں ہوٹلوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ سیاحوں کو ہوا ہے۔ پہلے سیاح ہوٹل کا کمرہ بک کرنے کیلئے ایک بڑی قیمت ادا کرتے تھے، لیکن اب اویو رومز کے سبب انہیں رعایت ملنے لگی ہے۔ اویو کے سبب دوسرے شہروں میں چند دنوں کیلئے ٹھہرنا آسان اور کفایتی ہوگیا۔ رتیش کا تعلق ادیشہ کے ایک چھوٹے سے قصبے بسام کٹک سے ہے۔ وہ یہاں پر سم کارڈز فروخت کیا کرتے تھے۔ کالج کی تعلیم کیلئے وہ ۲۰۱۱ء میں دہلی گئے تھے۔ چند برسوں بعد انہیں ایک لاکھ ڈالرز کی تھیل فیلو شپ ملی۔ فیلو شپ ملنے سے قبل ہی انہوں نے اویو کے بزنس ماڈل پر کافی محنت کی تھی۔ اس رقم سے انہوں نے محض ۱۹؍ برس کی عمر میں اویو کمپنی قائم کرلی۔ یہ بالکل انوکھا بزنس ماڈل تھا اس لئے بعد میں کئی کمپنیوں نے اس میں سرمایہ کاری کی۔
بھاویش اگروال
 آج ہم سب اولا کیب سے واقف ہیں ۔ اس کے بانی بھاویش اگروال ہیں ۔ ملک میں ایسے کئی افراد ہیں جو پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنے سے گھبراتے ہیں ۔ ایسے میں بھاویش نے اولا کیب شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ان کے بزنس ماڈل کے تحت شہر کی تمام ٹیکسیوں کو ایک ایپ کے ذریعے جوڑ دیا گیا، اور وہ افراد جو پیشہ کے اعتبار سے ڈرائیور تھے، وہ بھی اس سے منسلک ہوگئے۔ اس طرح لوگوں کو کفایتی داموں میں سفر کرنے میں آسانی ہوگئی اور ٹیکسی ڈرائیوروں کو روزگار مل گیا۔ اولا کیب کا آغاز ۲۰۱۰ء میں ممبئی سے ہوا تھا۔ بھاویش نے آئی آئی ٹی بامبے سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اور اسی دوران انہوں نے اولا کیب کا ماڈل بنایا تھا۔ جب انہوں نے یہ کمپنی قائم کی، اس وقت ان کی عمر ۲۵؍ سال تھی۔ ابتداء میں انہوں نے او لا کے شریک بانی انکیت بھاٹی کے ساتھ کافی محنت کی۔ انکیت ایپ کیلئے کوڈنگ کرتے تھے۔ ابتداء میں اکثر ایسا ہوتا تھاکہ ڈرائیور نہ ہونے کی صورت میں ان دونوں کو گاہک کو خود منزل تک پہنچانا پڑتا تھا۔ اپنے کاروبار کو جمانے کیلئے وہ دن رات محنت کرتے تھے، اور لوگوں کو اس ایپ سے جوڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ دونوں ۴۸؍ گھنٹے تک کام کرتے رہے۔ ابتدائی برسوں میں کئی تکنیکی مسائل پیدا ہوئے اور گاہک ان سے ناراض ہوگئے مگر انہوں نے ہر ممکن کوشش کی اور آج اولا کیب ایک ایسا برانڈ بن گیا ہے جو محفوظ سفر کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ 
دیپک گرگ
 دیپک گرگ نے ریویگو کا آغاز ۲۰۱۴ء میں کیا تھا۔ ان کا مقصد تھا ٹرک ڈرائیوروں کو سہولت فراہم کرنا۔ وہ چاہتے تھے کہ ٹرک ڈرائیور لمبے سفر کے دوران اپنے خاندان سے کئی کئی دنوں تک دور نہ رہیں بلکہ روزانہ اپنے گھر پہنچیں اور رات کا کھانا اپنے خاندان کے ساتھ کھائیں ۔ اسی خیال کو دیپک گرگ نے عملی جامہ پہنایا اور ملک میں ٹرک نیٹ ورک کو جوڑ دیا۔ ان کے بزنس ماڈل کے تحت ایک ٹرک ڈرائیور جب ٹرک لے کر نکلتا ہے تو ایک مخصوص مقام تک پہنچ کر رک جاتا ہے، اس کے بعد دوسرا ڈرائیور اسے ایک مخصوص مقام تک لے جاتا ہے اور وہ وہاں سے لوٹ آتا ہے جبکہ ٹرک مختلف ڈرائیوروں کے ذریعے اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ اپنا کاروبار شروع کرنے سے قبل دیپک نے میکینزی میں ۹؍ سال تک ملازمت کی تھی۔ لیکن وہ ہمیشہ ایک ایسا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے جو جذبات سے جڑا ہو اور جسے حل کرنے کے بعد لوگ خوش ہوں ۔ چنانچہ انہوں نے لاجسٹک کے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا۔ ایک مرتبہ انہیں اتفاقاً جے پور جانا پڑا، جہاں انہوں نے متعدد ٹرک ڈرائیورز سے بات چیت کی، اور ان کے مسئلے کو سمجھا، اس کے بعد اپنا بزنس ماڈل تیار کیا۔ ابتدائی چند سال مشکل ترین تھے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، اور چند برسوں بعد کچھ غیر ملکی کمپنیوں کو ان کا بزنس پلان پسند آیا اور انہوں نے اس میں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہرمن نرولا
 امپروبیبل ورلڈز لمیٹڈ کے شریک بانی ہرمن نرولا ایک ہندوستانی نژاد برطانوی بزنس مین ہیں ۔ یہ کمپنی ویڈیو گیمز اور کارپوریٹ سیکٹر کیلئے سیمولیشن سافٹ ویئر بناتی ہے۔ ہرمن نے کیمبرج، لندن سے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی انہوں نے یہ کمپنی قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور بزنس پلان بنانا شروع کردیا تھا۔ تاہم، انہوں نے ابتداء میں مائیکرو سافٹ کمپنی میں ملازمت کی۔ اپنے پلان کے متعلق جب انہوں نے چند سرمایہ کاروں کو بتایا تو وہ اس میں سرمایہ کاری کیلئے راضی ہوگئے، اور اس طرح ان کی کمپنی کا آغاز ہوا۔ ہرمن کا تعلق دہلی سے ہے۔ ان کا خاندان کنسٹرکشن بزنس میں ہے۔ ہرمن کو ابتداء میں اپنے بزنس کو سیٹ کرنے کیلئے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ یہ کاروبار کوڈنگ کے متعلق ہے، اس لئے اس میں کئی مشکلات پیش آئیں ، اور اب بھی آتی ہیں ۔ اپنا بزنس قائم کرنے کیلئے ہرمن نے اپنے والدین سے مالی مدد نہیں لی۔ یہ انہی کی محنت کا نتیجہ ہے کہ ان کی کمپنی میں آج بھی دنیا کے مختلف ممالک کی کمپنیاں سرمایہ کار کررہی ہیں ۔
دپیندر گوئل
 آج ملک کا تقریباً ہر شخص زوماٹو سے واقف ہے۔ یہ آپ کے گھر تک کھانا پہنچانے والی ایک سروس ہے۔ اس کے بانی ہیں دپیندر گوئل۔ ان کا تعلق ملک کے ایک متوسط طبقے سے ہے۔ انہوں نے آئی آئی ٹی دہلی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ چونکہ انہیں کھانوں کا شوق ہے اس لئے انہوں نے اسی میں اسٹارٹ اپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ ایک ایسا ایپ بنائیں جہاں گاہکوں کو صبح کے ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک ہر چیز آسانی سے مل جائے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے بین اینڈ کمپنی میں سینئر اسوسی ایٹ کنسلٹنٹ کے عہدے سے ملازمت کی شروعات کی تھی۔ اسی دوران انہوں نے فوڈی بے ڈاٹ کام شروع کی، جو بعد میں زوماٹو بن گئی۔ یہ ویب سائٹ انہوں نے بین کے ملازمین کیلئے بنائی تھی۔ مگر جب انہوں نے ملازمت ترک کرکے اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اسے زوماٹو کا نام دیا۔ انہوں نے ملک کے بڑے شہروں میں اپنا ایپ لانچ کیا۔ چونکہ یہ کانسپٹ نیا تھا اس لئے ابتداء میں دپیندر کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدائی دو برسوں میں ان کے ساتھ چند ریستوراں اور ہوٹل ہی نے ٹائی اپ کیا۔ نیا آئیڈیا ہونے کے سبب ہوٹل ان سے ٹائی اپ کرنے سے گھبراتے تھے، لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، ہوٹلوں نے ایپ سے منسلک ہونے کی کوشش شروع کردی۔ اس دوران انہیں مالی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ نوبت زوماٹو کو بند کرنے کی آگئی لیکن تبھی انفو ایچ نامی کمپنی نے اس میں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد زوماٹو میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی لائن لگ گئی۔آج کئی سرمایہ کار اس میں دلچسپی ظاہر کررہے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK