Inquilab Logo

دوستی کا حق

Updated: October 23, 2021, 1:48 PM IST | Pnajari Musklan Haroon | Jalgaon

گلہری اور چڑیا رانی میں گہری دوستی تھی۔ اچانک ایک دن گلہری بیمار پڑ جاتی ہے اور چڑیا رانی اپنے دوست کو بچانے کیلئے اُلّو حکیم کے پاس جاتی ہے لیکن....

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

پیارے بچو! دور دراز پہاڑوں کے درمیان ایک خوبصورت جنگل آباد تھا۔ وہاں ایک بڑے سے پیڑ پر چڑیا رانی اور گلہری بی رہتی تھیں۔ دوستی ان دونوں میں ایسی تھی جیسے چاند ستاروں کی ہوتی ہے۔ اُن میں کبھی بھی ان بن نہ ہوئی۔جنگل کے تمام پرندے، تمام جانور ان کی دوستی پر ناز کرتے تھے۔ ہر روز سورج کی ننھی ننھی شعاعیں زمین پر بکھیرتی تو چڑیا رانی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے دانہ لینے کے لئے نکل پڑتی ۔اُدھر گلہری بی بھی چھو ٹی چھوٹی لکڑیاں جمع کرتی پھر دونوں مل کر کھانا بناتے اور ساتھ مل کر کھانا کھاتے۔ یہ ان دونوں کا ہمیشہ کا معمول تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش تھیں۔
 لیکن پیارے بچوں قدرت کا بھی ایک اصول ہے ہر خوشی کے بعد غم بھی ضرور ہے۔ یہ بندے کے لئے ایک آزمائش ہوتی ہے جو مصیبت میں صبر سے کام لیتا ہے پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اللہ کے یہاں اس کا درجہ بڑھ جاتا ہے۔
 ان دونوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک بار گلہری بی کی طبیعت سخت خراب ہو گئی۔ چڑیارانی یوں اپنی دوست کو تڑپتے ہوئے دیکھ نہ سکی اور اس کے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔چڑیا رانی کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیسے اپنی دوست کو ٹھیک کرائے۔ آخر اس نے اللہ کی بارگاہ میں اپنے دونوں پَر اٹھائیں اور خوب دعائیں مانگی۔ پھر اچانک ایک ترکیب اس کے دماغ میں آئی اس نے فوراً ایک اونچی اڑان بھری اور اڑتے اڑتے ندی کے دوسرے کنارےایک پرانے برگد کے پیڑ پر پہنچی وہاں اونچی شاخ پر پہنچ کر اُس نے دستک دی۔ تبھی الو حکیم ہاتھوں کا چھجا بناتے ہوئے باہر نکلے اُنھیں چڑیا رانی کا چہرہ دھندلا دھندلا دکھائی دیا۔
 ’’آداب عرض ہے اُلّو حکیم!‘‘ چڑیا رانی نے کہا۔ ’’آداب...آداب! کیسے آنا ہوا چڑیارانی۔‘‘
 چڑیارانی نے کہا ’’میری سہیلی گلہری بی کی طبیعت سخت خراب ہوگئی ہے آپ سے گزارش ہے کہ چل کر گلہری بی کا علاج کردیجئے۔‘‘
 ’’ارے چڑیا رانی میں ٹھیک سے دیکھ نہیں سکتا ہوں۔ کچھ دنوں پہلے میرے گھر سے میرا چشمہ چوری ہوگیا۔ مَیں نے تھانے میں رپورٹ لکھوائی ہے میرا چشمہ کچھ دنوں میں مل جائے گا پھر میں اس کا علاج کردوں گا۔‘‘
 ’’ لیکن اُلّو حکیم! گلہری بی کی طبیعت خاصی بگڑ چکی ہے۔ اب مَیں کیا کروں....؟‘‘ یہ کہہ کر چڑیا رانی رونے لگی۔
 ’’ارے ارے چڑیا رانی رکو، روؤ مت! مَیں تمہیں ایک حکیم کا پتہ بتلاتا ہوں....‘‘ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے۔ پھر باہر آکر پیپل کے پتّے پر ایک نقشہ بنا کر دیا۔ اور کہا:
 ’’یہ لو یہاں جاکر انہیں میرا سلام پیش کرنا اور گلہری بی کی طبیعت کا پورا حال سنانا۔ فوراً جاؤ .... دیر بالکل بھی نہ کرنا۔‘‘
 چڑیا رانی نے نقشہ ساتھ لیا اور پہاڑی جنگل کی سمت اڑ گئی۔اُڑتے اُڑتے دوپہر ہوگئی۔ اُسے دور دور وہ درخت نظر نہ آیا۔اُڑنے کی طاقت اُس کے پَروں سے ختم ہوچکی تھی لیکن چڑیا رانی نے ہمت نہ ہاری اور پوری قوت و طاقت لگا کر سفر کو جاری رکھا۔آخر بڑی دیر بعد اُسے وہ درخت نظر آہی گیا جہاں سبز پتّوں میں صرف طوطامیاں کی سرخ چونچ نظر آرہی تھی۔
 چڑیا رانی اجازت لے کر اُن کے پاس آئی۔ سلام پیش کیا اور گلہری بی کا احوال سنایا۔ طوطا میاں نے سکون سے سب بات سنی پھر عینک چڑھائی اور اپنا چھوٹا صندوق کھولا پھر چڑیا رانی کو جڑیں بوٹیاں نکال کر دیں اور کہا ’’گھر پہنچتے ہی گلہری بی کے منہ میں انڈھلنا، ان شاء اللہ مل جائے گی اُسے شفا۔‘‘
 چڑیا رانی نے طوطا میاں کا شکر ادا کیااور واپسی کا سفر شروع کیا وہ تیزی سے گھر کی طرف اُڑنے لگی۔اُڑتے اُڑتے جب تھک گئی تو سوچا ایک شاخ پر بیٹھ کر تھوڑا آرام کرلوں۔ یہ سوچ کر وہ ایک درخت کی شاخ پر بیٹھی لیکن یہ کیا!  آہ.... اس شاخ پر دھاگوں کا گچھا تھا جس میں چڑیا رانی کے پاؤں پھنس گئے۔ لگتا تھا کسی شریر بچّے نے شاخ پر دھاگے میں پتھر باندھ کر درخت کے پھول گراے ہوں گے۔ بیچاری چڑیا رانی! اُسے گلہری بی کا خیال ستانے لگا لیکن اس نے ہمت نہ ہاری پھر اللہ کو یاد کیا اور دھاگے سے پاؤں نکالنے کی بھرپور کوشش کی۔ بڑی مشکل سے اس کے پاؤں آزاد ہوئے۔ جیسے ہی وہ آزاد ہوئی پُھر سے اُڑان بھرکر گھر کی طرف بھاگی۔
  فوراً گھر پہنچ کر بے ہوش پڑی گلہری بی کے منہ میں دوا انڈھيلی۔کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ دھیرے دھیرے گلہری بی کو ہوش آنے لگا۔ چڑیا رانی نے جب یہ دیکھا تو فوراً اپنے رب کے حضور سجدہ شکر ادا کیا۔ گلہری بی نے جب اپنی دوست کو دیکھا تو بے اختیار روتے ہوئے اس سے گلے لگ کر اس کا شکریہ ادا کیا۔
 چڑیا رانی اپنے دوست کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی ’’نہیں! میری سہيلی مَیں نے کوئی احسان نہیں کیا.... مَیں نے صرف ’دوستی کا حق‘ ادا کیا۔
 پیارے بچو! سچے دوست تو وہ ہوتے ہیں جو مصیبت کے وقت کام آتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK