Inquilab Logo

درخت میرا دوست

Updated: May 21, 2022, 11:42 AM IST | Shaikh Gulnaz Sadiq | Chopda/Jalgaon

فتح پور نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اس گاؤں میں رمشا نام کی ایک لڑکی رہتی تھی۔ بچپن میں اس کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا، اسی لئے وہ اپنے چاچا چاچی کے ساتھ رہا کرتی تھی۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

فتح پور نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ اس گاؤں میں رمشا نام کی ایک لڑکی رہتی تھی۔ بچپن میں اس کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا، اسی لئے وہ اپنے چاچا چاچی کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ ان کے گھر کے باہر جامن کا ایک بڑا سا پیڑ تھا۔ رمشا کو جامن کے اس پیڑ سے بڑی محبت تھی۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ جامن کے پیڑ کے نیچے کھیلتی۔ اس کی پیاری بکری بھی جامن کے پیڑ کی کے نیچے رہتی تھی۔ جامن کے پیڑ پر بہار آنے پر خوب جامن کھاتی۔ ایک روز استاد نے کلاس میں سائنس کے پیریڈ میں نباتات کے فوائد سبق پڑھایا جس میں انہوں نے درختوں سے انسانوں کو ہونے والے فائدے کے بارے میں معلومات دی کہ درخت ہمیں آکسیجن دیتے ہیں، ان سے ہمیں دوائیاں ملتی ہیں، ان کی وجہ سے بارش ہوتی ہے، ماحول کی گرمی کم کرنے میں درخت اہم رول ادا کرتے ہیں، درختوں کے پتے ہمارے جانور بطور غذا استعمال کرتے ہیں، ان پر طرح طرح کے پرندے اور جانور بسیرا کرتے ہیں جو ہمارے ماحول کا توازن قائم رکھنے میں بڑا اہم رول ادا کرتے ہیں اور درختوں کی وجہ سے فضائی آلودگی میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہ سب جاننے کے بعد رمشا درختوں سے بے پناہ محبت کرنے لگی۔ وہ اپنے گھر کے آس پاس کے پیڑوں کی بھی حفاظت کے بارے میں سوچتی رہتی۔ اسکول سے لوٹتے وقت بوتل میں بچا ہوا پانی پودوں کو ڈالتی۔ وہ اپنے دوستوں کو درخت کی اہمیت اور اس کی ضرورت کے بارے میں بتانے لگی تاکہ ہر کوئی اس نیکی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔   ایک دن رمشا اسکول سے گھر لوٹتے وقت یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے گھر کے قریب کے پیڑوں کو کاٹا جارہا ہے۔ وہ بہت بے چین ہو گئی۔ ا س نے تمام دوستوں کو جمع کیا۔ سب مل کر وہاں پہنچے اور انہوں نے لوگوں سے درختوں کو نہ کاٹنے کی التجا کی مگر کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ وہ بہت پریشان ہوئی۔ پھر وہ اپنے استاد کے پاس گئی اور سارا ماجرا سنایا۔ استاد نے اسے کہا کہ، ’’محکمہ تحفظ جنگلات آفیسر کے پاس جائیں۔ وہ آپ کی مدد کریں گے۔‘‘ وہ فوراً گاؤں کے باہر واقع تحفظ جنگلات کے محکمے میں پہنچیں۔ افسران، ’’کس علاقے کے درختوں کو کاٹا جارہا ہے؟‘‘ ’’اگر آپ نے میری بات نہ سنی تو میں اخبارات کے آفس کو اطلاع دوں گی۔‘‘
 افسران نے کہا کہ، ’’ٹھیک ہے ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔‘‘ تمام لوگ وہاں پہنچے مگر تب تک کئی درخت کاٹے جا چکے تھے۔ وہ معافی مانگنے لگےمگر رمشا نے کہا کہ ’’ان لوگوں کو سزا ملنی چاہئے۔‘‘ افسران نے کہا، ’’ٹھیک ہے ہم ان کے خلاف مقدمہ درج کریں گے تاکہ انہیں کڑی سے کڑی سزا ملے۔‘‘ مگر رمشا نےکہا کہ ’’انہوں نے درختوں کو کاٹا ہے آپ انہیں ایسی سزا دیجئے کہ انہوں نے جتنے درخت کاٹے ہیں اتنے ہی پودے لگا کر ان کی افزائش کریں۔‘‘ رمشا کی بات سن کر افسران نے اسے بھروسہ دلایا کہ وہ ضرور اور اسی طرح کی سزا دلوانے کی کوشش کریں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK