Inquilab Logo

تقریباً ایک صدی قبل پھیلنے والی وبا کے دوران تعلیمی حالات کیا تھے؟

Updated: September 18, 2020, 7:12 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai

جس طرح آج دنیا بھر میں کورونا وائرس (کووڈ۱۹) کی وباء پھیلی ہوئی ہے، ٹھیک اسی طرح ۱۹۱۸ء میں ’’ہسپانوی فلو‘‘ پھیلا ہوا تھا جس سے ۵۰؍ ملین افراد ہلاک ہوئے تھے، اس وقت بھی تمام تعلیمی ادارے، مذہبی مقامات اور سنیما گھر بند کردیئے گئے تھے۔ اسی دوران سماجی دوری کی اصطلاح بھی منظر عام پر آئی تھی اور عوامی نقل و حمل کو محدود کردیا گیا تھا۔ تاہم، امریکہ کے ۳؍ اسکول جاری تھے۔امریکہ میں جن ۳؍ شہروں کی اسکولیں شروع تھیں ، وہاں دیگر شہروں کی بہ نسبت حالات زیادہ خراب ہوگئے تھے۔ ماہرین صحت کے مطابق عالمی وباء کے دوران بچوں کی صحت کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ہسپانوی فلو یا انفلوئنزا ۱۹۱۸ء: ہسپانوی فلو کو ’’لنگڑا بخار‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی مہلک عالمگیر وبائی بیماری تھی۔ جنوری ۱۹۱۸ء سے لے کر دسمبر ۱۹۲۰ء تک جاری رہنے والی اس وبا سے ۵۰۰؍ ملین افراد متاثر ہوئے تھے جو اس وقت دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد۱۷؍ سے ۵۰؍ ملین کے درمیان ہے۔ اس وباء کا شمار انسانی تاریخ کی مہلک ترین وباؤں میں ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت جرمنی، برطانیہ، فرانس اور امریکہ نے اس بیماری سے ہونے والی اموات کی تعداد کم ظاہر کی تھی تاکہ عوام میں بے چینی نہ پھیلے۔ اس سے سب سے زیادہ کم عمر کے افراد متاثر ہوئے تھے۔ اکثر خبروں میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس سے اسپین بری طرح متاثر ہے جس کی وجہ سے اس بیماری کا نام ’’اسپینش فلو‘‘ پڑ گیا تھا لیکن یہ مکمل طور پر درست نہیں تھا۔ تاہم، اس بات کے واضح ثبوت نہیں ہے کہ یہ بیماری دنیا کے کس علاقے سے پھیلی تھی۔
کورونا وائرس ۲۰۱۹ء: کورونا وائرس کے سبب پوری دنیا کا نظام متاثر ہے۔ اس وبا کا باعث سارس کووی۲؍ نامی وائرس ہے جو انسان کا نظام تنفس بری طرح متاثر کرتا ہے۔ یہ وباء دسمبر ۲۰۱۹ء میں چین کے شہر ووہان سے پھوٹی اور چند ہی مہینوں میں اتنی تیزی سے پھیلی کہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آگئی۔ اس سے اب تک ۳؍ کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوچکے ہیں ، ۹؍ لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ہیں اور ۲؍ کروڑ سے زائد لوگ صحت یاب ہوچکے ہیں ۔ اس وبا کے سبب مارچ ۲۰۲۰ء سے تعلیمی ادارے، مذہبی اور عوامی مقامات بند ہیں نیز عوامی نقل و حمل کو محدود کردیا گیا ہے۔ اب تک اس مرض کی کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی ہے۔ بیماری سے بچنے کیلئےہاتھوں کو بار بار دھونے، کھانستے وقت منہ کو ڈھانپنے اور دوسروں سے فاصلہ رکھنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں جو افراد مشکوک ہیں انہیں ۱۴؍ دن تک گھریلو قرنطینہ میں رکھنے کی تلقین کی جارہی ہے۔

مارچ ۲۰۲۰ء میں جب عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے کورونا وائرس (کووڈ۱۹) کو عالمی وباء قرار دیا گیا، اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے تمام تعلیمی اداروں ،مذہبی اور عوامی مقامات کو بند کردیا گیا تاکہ وائرس کو پھیلنے سے روکا جاسکے۔ تب سے لے کر اب تک تمام اسکولیں بند ہیں ۔ چونکہ اس وائرس سے بچے بری طرح متاثر ہوسکتے ہیں اس لئے اسکولوں کو اَب تک بند رکھا گیا ہے۔ اس دوران طلبہ کے سالانہ امتحان بھی نہیں ہوئے۔اور پھر چند مہینوں بعد نیا تعلیمی سال شروع ہوگیا۔ فی الحال طلبہ کو آن لائن تعلیم دی جارہی ہے۔ عالمی لیڈران کے درمیان اب بھی یہ موضوع بحث ہے کہ تعلیمی اداروں کو شروع کیا جائے نہیں ! فی الحال طلبہ کو آن لائن تعلیم ہی حاصل کرنی ہوگی۔ تاہم، طلبہ کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ۱۹۱۸ء میں یعنی آج سے تقریباً ۱۰۰؍ سال قبل جب دنیا بھر میں ’’اسپینش فلو‘‘ پھیلا تھا تب تعلیمی ادارے شروع تھے یا نہیں ۔
 آج ہی کی طرح اس دور میں بھی عالمی لیڈران کے درمیان یہ بحث کا موضوع تھا۔ اس بیماری سے پوری دنیا میں تقریباً ۵۰؍ ملین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس دوران وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے ان تمام ممالک نے جہاں یہ تیزی سے پھیلا تھا، اپنے تعلیمی اداروں سمیت وہ تمام مقامات بند کردیئے گئے تھے جہاں کسی نہ کسی وجہ کے سبب لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہوتی تھی۔ 
 چونکہ یہ وباء ۱۰۰؍ سال قبل پھیلی تھی اور اس وقت آج کی طرح سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اتنے سرگرم نہیں تھے اسلئے اس وقت کے تمام ریکارڈز موجود نہیں ہیں ۔ تاہم، سپر پاور کہلائے جانے والے ملک امریکہ کے تین بڑے شہروں ، نیویارک، شکاگو اور نیو ہیون کے ۳؍ اسکول بند نہیں کئے گئے تھے۔ ان شہروں کے صحت عامہ کے اہلکاروں کا خیال تھا کہ طلبہ اسکولوں میں زیادہ محفوظ اور بہتر حالت میں تھے۔اس وقت دنیا ترقی کی جانب گامزن تھی اور امریکہ جیسے بڑے اور امیر ممالک میں اسکولوں کو خاص طور پر صاف ستھرا رکھا جاتا تھا تاکہ بچے ابتدائی عمر ہی سے اچھی عادتیں سیکھیں ۔ اس دوران اسکولوں میں طلبہ کی تعداد کی مناسبت سے اضافی نرسوں کا بھی بندوبست کیا گیا تھا مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ آج دنیا بھر میں لاکھوں اسکولیں ہیں ۔
 ۲۰۱۰ء میں یو ایس پبلک ہیلتھ سروس کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ۱۹۱۸ء میں نیو یارک میں تقریباً ایک ملین اسکولی طلبہ تھے اور ان میں سے بیشتر خیموں اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں رہتے تھے۔یہ علاقے بھی صاف ستھرے نہیں تھے اس لئے طلبہ کے فلو سے متاثر ہونے کے خطرات زیادہ تھے۔پبلک ہیلتھ رپورٹس کے مطابق ’’ایسے علاقوں کے طلبہ کیلئے ، اسکول نے صاف ستھرا اور ہوا دار ماحول پیش کیا جہاں اساتذہ ، نرسیں اور ڈاکٹر پہلے ہی موجود تھے۔‘‘خبروں کے مطابق نیویارک اسپینش فلو سے بہت پہلے اور بری طرح متاثر تھا۔ 
 جب حالات زیادہ خراب ہوگئے تو والدین نے بھی اپنے بچوں کو بہتر ماحول دینے اور ان کی بہتر صحت کے پیش نظر انہیں اسکول ہی میں رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ طلبہ بھی اپنے آپ کو اسکول کی بڑی بڑی، صاف ستھری اور ہوا دار عمارتوں میں اپنے گھروں سے زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے۔ یہاں ان کی دیکھ ریکھ کیلئے اساتذہ، نرسیں اور ڈاکٹر بھی موجود تھے جو روزانہ ان کا چیک اپ کرتے تھے۔ طلبہ کو اسکول کے باہر جمع ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں صبح اپنے اپنے ٹیچروں کے پاس جمع ہونا ہوتا تھا۔ ٹیچرطلبہ کا چیک اپ کرتے تھے اور اگر انہیں اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ کسی طالب علم کو بخار ہے تو وہ اسے فوراً اسکول ہی میں موجود ڈاکٹر کے پاس لے جاتے تھے۔جن طلبہ میں اسپینش فلو کی علامات پائی جاتیں انہیں الگ تھلگ کردیا جاتا تھا۔ 
 اسی طرح اگر کسی طالب علم کو بخار آتا تو اسے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے کسی اہلکار کے ساتھ اس کے گھر بھیجا جاتا تھاجہاں وہ اس بات کا جائزہ لیتا تھا کہ بچے کیلئے یہاں کا ماحول درست ہے یا نہیں ۔ اگر ماحول ٹھیک نہیں ہوتا تھا تو اسے اسپتال منتقل کردیا جاتا تھا۔ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے اہلکار اس بات کو بھی یقینی بناتے تھے کہ بچوں کا کوئی فیملی فزیشین یا ڈاکٹر ہے یا نہیں ۔ اگر نہیں ہوتا تو انہیں پبلک ہیلتھ ڈاکٹر سے رابطہ کرنے کیلئے کہا جاتا تھا جہاں انہیں کوئی فیس ادا نہیں کرنی ہوتی تھی۔ 
 اسی طرح شکاگو میں بھی ۵؍ لاکھ طلبہ کیلئے اسکولیں جاری رکھنے کی وجہ یہی تھی کہ اسکولوں میں بچے زیادہ محفوظ رہیں گے اور سڑکوں پر گھوم پھر کر بالغ افراد سے متاثر نہیں ہوں گے۔ لیکن شکاگو کے اکثر والدین بچوں کو اسکول بھیجنے کے حق میں نہیں تھے۔ ان میں اس وبا کے تعلق سے خوف تھا۔ اسلئے اسکول میں غیر حاضریاں بہت بڑھ گئی تھیں ۔ تاہم، ماہرین کا خیال ہے کہ اگر اس وقت سماجی دوری پر سختی سے عمل کیا جاتا تو اسکولوں میں غیر حاضریاں نہیں ہوتیں ۔ مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسکولوں میں غیر حاضریاں اتنی زیادہ تھیں کہ اس بات سے فرق ہی نہیں پڑتا تھا کہ اسکولیں شروع ہیں یا نہیں ۔شکاگو کی حکمت عملی کاحصہ تازہ ہوا کی گردش کو یقینی بنانا تھا۔ موسم سرما میں اسکول کے کمرے زیادہ گرم کردیئے جاتے تھے تاکہ کھڑکیاں ہر وقت کھلی رہ سکیں اور یہ کسی حد تک درست بھی تھا۔
 تاہم، اس رپورٹ کے محقق مارکل جنہوں نے ۱۹۱۸ء کی وبا کے تعلق سے امریکہ کے کل ۲۳؍ شہروں کی تحقیق کی ہے، کا کہنا ہے کہ ’’وبائی حالات میں تعلیمی اداروں اور مذہبی و عوامی مقامات کو بند رکھنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ ۱۹۱۸ء میں جن شہروں میں ان تمام اصولوں پر عمل کیا گیا تھا، وہ اُن شہروں سے بہتر تھے جنہوں نے اسکولوں کو شروع رکھنے کو ترجیح دی تھی۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ کورونا وائرس (کووڈ۱۹) کی بابت ابھی سائنس دانوں کو زیادہ معلومات نہیں ہے اس لئے تعلیمی اداروں کا بند رہنا ہی مناسب ہے اور عالمی لیڈران کا یہ ایک بہترین فیصلہ ہے۔چونکہ یہ وائرس کم عمر کے افراد کو زیادہ متاثر کرتا ہے اس لئے طلبہ کا ان کے گھروں ہی میں رہنا مناسب ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK