Inquilab Logo

تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا شکار ہونے پر جماہی آتی ہے، کیوں ؟

Updated: October 15, 2021, 7:15 AM IST | Mumbai

جماہی ایک متعدی عمل ہے۔ اگر آپ کسی کو جماہی لیتے ہوئے دیکھیں گے تو آپ کو خود بخود جماہی آنے لگے گی۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لفظ ’’جماہی‘‘ دیکھ کر بھی جماہی آنے لگتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہمیں جماہی کیوں آتی ہے؟

Representation Purpose Only- Picture INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

جماہی ایک متعدی عمل ہے۔ اگر آپ کسی کو جماہی لیتے ہوئے دیکھیں گے تو آپ کو خود بخود جماہی آنے لگے گی۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لفظ ’’جماہی‘‘ دیکھ کر بھی جماہی آنے لگتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہمیں جماہی کیوں آتی ہے؟
 محققین نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ آخر دماغ میں ایسا کیا ہوتا کہ جس سے جماہی آجاتی ہے۔ نوٹنگھم یونیورسٹی کی ایک ٹیم اس تحقیق کو انجام دے رہی تھی جس میں معلوم ہوا کہ دماغ کے جس حصے میں اعصابی افعال کو منظم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہیں سے جماہی کا عمل بھی وقوع پذیر ہوتا ہے۔
 سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ متعدی جماہی کا راز سمجھ میں آجانے سے اس طرح کی دیگر چیزوں کو سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ متعدی جماہی ’’ایکوفینومینا‘‘ یا گونج کے عمل جیسا ہی ہے جس میں انسان خود بخود ہی کسی دوسرے کی آواز یا عمل کی نقل کرنے لگتا ہے۔ واضح ہو کہ کئی تحقیقات میں ذہنی بیماریوں جیسے مرگی یا پھر آٹزم کے مریضوں میں بھی ایکوفینومینا ہی پایا گيا ہے۔
 یہ جاننے کیلئےکہ ایکوفینومینا جیسی صورت حال میں آخر دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے، سائنسدانوں نے ۳۶؍ رضاکاروں کا اس وقت معائنہ کیا جب وہ دوسروں کو جماہی لیتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔تحقیق کے دوران کچھ رضاکاروں سے کہا گيا تھا کہ اگر انہیں جماہی آئے تو وہ جماہی لیں جبکہ کچھ سے کہا گیا کہ اگر انہیں جماہی آئے تو وہ اس پر کنٹرول کریں اور اس سے گریز کریں ۔
 اس کے مطابق کسی شخص میں جماہی لینے کی خواہش میں کمی اسی مناسبت سے تھی کہ اس کے دماغ کا وہ حصہ کس طرح سے کام کر رہا ہے۔ اس کے ذریعے سائنسدانوں کو یہ جاننا تھا کہ ایکسائیبیلٹی یعنی تحریک پذیری کا عمل کیسے ہوتا ہے۔
 ٹی ایم ایس (ایکسٹرنل، `ٹرانسکرینیئل میگنیٹک اسٹمیولیش) کے استعمال سے دماغ کے اس حصے میں ایکسائیبیلٹی میں اضافہ ممکن ہے اور اس طرح لوگ متعدی جماہی کے اپنے فطری میلان میں کمی کر سکتے ہیں ۔
 نیورولوجی کے ماہر پروفیسر جیورجیئن جیکسن، جنہوں نے اس پر کام کیا ہے، کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ہونے والی دریافت کا استعمال بہت سی دیگر خامیوں میں کیا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے پروفیسر اسٹیفین جیکسن کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہم یہ سمجھ جائیں کہ دماغ کے اس حصے میں ہونے والی تحریک پذیری کو، جو کئی قدرتی خرابیوں کی وجہ بنتی ہے، کیسے بدلا جاسکتا ہے تو ممکن ہے کہ ہم اسے ہونے سے روک سکیں ۔‘‘
 ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جب ہم تھکے ہوتے ہیں یا اکتاہٹ کا شکار ہوتے ہیں تو عام طریقے سے سانس نہیں لیتے۔ اس دوران ہمارے جسم میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے جسے ختم کرنے کیلئے قدرتی طور پر ہمارا منہ کھل جاتا ہے یعنی جماہی آجاتی ہے اور ہم زیادہ سے زیادہ آکسیجن اپنے اندر لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس طرح ہمارے خون سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکل جاتا ہے۔
 نیویارک اسٹیٹ یونیورسٹی میں نفسیات کے ماہر ڈاکٹر اینڈریو گیلپ کا کہنا ہے کہ `ہمیں ابھی بھی نہیں پتہ ہے کہ آخر ہم جماہی کیوں لیتے ہیں ۔ البتہ بہت سی تحقیقات سے لوگوں کی حرکات و سکنات اور متعدی جماہی کے درمیان رابطے کا پتہ چلا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK