Inquilab Logo

Reader’s corner

مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ…

ظالم و جابر طاغوتی طاقت کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ اور بارودی اسلحہ کی ہولناک تباہ کاریوں کے نتیجے میں خطّہ فلسطین خاک و خون میں نہایا ہواہے۔ہر پل ،ہر آن ایک نئی قیامت کاسامنا کر رہےبے قصور نہتے عوام ،لہو لہان معصوم بچےساری دنیا کی نگاہوں کا مرکزتو ہیں مگربدقسمتی سے توجہ کا مرکز نہیں ۔ دنیا کے ساتھ ساتھ سارے اسلامی ممالک بھی اس سفاکانہ نسل کشی کو ہر آن دیکھ رہے ہیں مگر اس قیامت کو روک پانے سے معذور ،کمزور اوربے تاثیر احتجاج کے ساتھ دورکھڑے ہیں ۔ مدد کے نام پر بیان بازی کا سلسلہ ہے ، سوشل میڈیا تک محدود چیخ پُکارہے یا پھرمنافقانہ خاموشی جو خود ظلم کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔ مظلوموں کو جس نوعیت کاانسانی و اخلاقی تعاون اور امداد اپنے ہم قوم حُکمرانوں اور مملکتوں سےدرکارہے ،ہماری بے حسی اور بے و زنی وہ بھی اُن تک پہنچا نہیں پا رہی ہے۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ایک نو زائیدہ چھوٹی سی طاقت کی رعونت کے آگے بڑی بڑی امیر وکبیراسلامی حکومتیں بھی پست ہو گئی ہیں ۔ حتّیٰ کہ جنگ بندی کی قرارداد منظور کروانے کیلئے عالمی مجلس اورعدالت میں ہمارے پاس ایک فیصلہ کن ووٹ تک کا اختیار نہیں ،نہ صرف ہماری قسمتوں کےفیصلے اغیار کی مرضی کے تابع ہیں بلکہ ہماری حفاظت بھی اغیار کے اسلحہ اور افواج کی محتاج ہے۔ ہماری ایمانی حمیت اب اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی چنگیزی طاقت ہمارے کسی اور پہلو پر وار کر دیگی اور ہم بس دہائیاں دیتے ہی رہ جائیں گے۔ دنیا عالمِ اسباب ہےاور ہرمسئلہ اپنے حل کے لئے اسباب کا محتاج ہے، شر یر دشمن کا سامنا ہو یا نا مساعد حالات کا، ٹھوس اقدامات، تدبیراورمستحکم لائحۂ عمل ہی اوّل و آخر چارۂ کار ہے۔ آج کے حالات کے آئینے میں فلسطینی عوام کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں توخدا نخواستہ ہمارا اور ہماری دیگر مملکتوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ کیااب بھی خوابِ غفلت سےجاگنے اور نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کا وقت نہیں آیا؟ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی نسل ، اپنا دین اورشناخت، اپنا مذہبی ورثہ محفوظ رکھنا ہے تو ہر صورت میں اقوام عالم کی برابری کی سطح پر کھڑےہونا ہوگا، اپنی نئی نسل کو آگاہی و خود بینی کے اوصاف سے آراستہ کر کےسائنسی تعلیم و ہنر،معاشی ،سیاسی ، دفاعی ہر میدانِ عمل میں خود کفیل بنانا ہوگا۔

November 04, 2023, 12:47 PM IST

فلسطینیوں پرمظالم! ایسے حالات میں فلسطینی عوام کہاں جائیں؟

فلسطینی عوام پر اسرائیل کےظالمانہ اقدامات کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے فلسطینی بچوں، عورتوں، ضعیفوں، عام شہریوں پر بےدردی سے بمباری کر کے اسرائیل نے اپنی شیطانیت ثابت کی ہے۔ ظُلم کی انتہا تو یہ ہے کہ فلسطینیوں پر بجلی، پانی، غذا اور طبّی امداد کی فراہمی تک بند کر دی گئی ہے۔ ظالم اسرئیلی عوام ناچ گانا کر کے فلسطینیوں کی موت کا جشن مناتے بھی نظر آئے۔ننھے جسموں کے ٹکڑے لئے والدین، لاشوں کے ڈھیر پر روتے بلکتے بچے اور اپنے تباہ و برباد گھروں کو دیکھتے ہوئے روتے چیختے لوگوں کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ ایسی بربادی جسے آباد کرنے میں ایک دہائی لگ جائیگی۔ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو کو تو جیسے اِسی موقع کی تلاش تھی۔مغرب کی پشت پناہی نے اسرائیل کو اِتناظالم بنا دیا ہے کہ اُس نے فلسطینیوں کو اُن کے ہی علاقے فوراً خالی کرنے کی کھلی دھمکی دے دی۔ ان حالات میں لاکھوں فلسطینی عوام کہاں جائیں ؟ اقوام متحدہ جیسے ادارہ کو مظلوم فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق دلانے کی ضرورت ہے۔ سلام ہے دنیا کی اُن اِنسانیت پسند قوموں کو جنہوں نے سوشل میڈیا پر، اخبارات میں، ریلی میں فلسطینیوں کے ساتھ اپنے اپنے طریقے سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے، ساتھ ہی وہ بہادر صحافی بھی قابل رَشک ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کرفلسطین کے بدترین حالات کی حقیقی رپورٹنگ کی اور کچھ نے تو اپنی جان بھی گنوا دی۔ فلسطین کی حالت پر آج اہل اِنسانیت افسردہ اور شرمندہ ہیں کہ کوئی ان کیلئے سوائے ہمدردی اوردعا کے کچھ نہ کر سکا۔ اُمید ہے کہ کوئی معجزہ ہی اب فلسطینیوں کی مدد کر سکتا ہے۔

October 21, 2023, 02:49 AM IST

اسرائیلی فوج کی بمباری ! کہاں ہیں حقوقِ انسانی کے علمبردار؟

دوسری جنگ عظیم کےبعد اقوام متحدہ کی تشکیل وجود میں آئی ہے۔ جس کا ظاہر کچھ اورباطن کچھ اور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس عالمی تنظیم کا مقصد دنیائے ا نسانیت کو جنگ کےخطروں سے بچانا، ایک دوسرےکےخلاف مظالم کا سدِ باب، عالمی سطح پر عدل وانصاف قائم کرنا ہے۔ مگر باطن کچھ اور ہی ہے، اس لئے کہ اب اس تنظیم پر مغربی مما لک کا قبضہ ہے جو اپنے مفادات کیلئے اس تنظیم کو استعمال کررہے ہیں ۔ حالات اور واقعات پر گہری نظر ڈالنےکےبعد نتیجہ یہ سامنےآتاہے کہ اب تک کوشش یہی ہے کہ مسلم ممالک میں نت نئے خطرات پیدا کرکے عالم ِاسلام کو کمزور کیا جائے اور ایسا ہوبھی رہا ہے۔ ۱۹۴۱ء میں امریکہ کےصدر ’ روزالٹ ‘ نے اقوام متحدہ کےقیام کااعلان کیا، ۲۵؍ اپریل ۱۹۴۵ء کو اس تنظیم کاچارٹ تیارہوا اور ۵ ؍ماہ بعد اکتوبر ۱۹۴۵ء میں اس کی باقاعدہ بنیادڈالی گئی، منصوبہ بندطریقہ سے۱۹۴۷ء میں فلسطین کامسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا، اقوام متحدہ نے نہایت چالاکی کےساتھ انتہا ئی تیزی سے اسی سال نومبر میں فلسطین کوعربوں اور یہودیوں کےدرمیان تقسیم کرنےکافیصلہ دے دیا، اس کےبعد کیا ہوا ؟ عربوں اورفلسطینیوں کے درمیان ایسی جنگ کا آغاز ہوگیا جوآج تک جاری ہے۔ فلسطینیوں پر تشدد اورمظالم کاسلسلہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا گیا، مقامات مقدسہ کی تخریب کاری کے ناپاک منصوبےجاری ہیں ۔ آخر ظلم سہنے کی بھی حد ہوتی ہے، ایک دن آتاہے کہ مظلوم اپنےسر سے کفن باندھ لیتا ہے، اپنی جان ومال کےتحفظ کا حق اس کو بھی توحاصل ہے، اب جب یہ مظلوم اپنے حقوق کی لڑائی کیلئے تیارہوجاتاہے اور اقدام کرتا ہے تو اس کو’دہشت گرد ‘کہاجاتا ہے اور یہ کہہ کر اس پر مزید ظلم کےپہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔ فلسطین میں موجودہ صورتِ حال اسی ظلم کی تصویر پیش کررہی ہے۔ حماس کا فطری ردِ عمل کیا سامنے آیا، اس کو’ دہشت گردی‘ کانام دے کر انسانی حقوق کے محافظ علمبردار غزہ پر ٹوٹ پڑے۔ اسرائیل کی مسلسل بمباری جاری ہے، عام شہریوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، بجلی، خوراک، پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کہاں ہیں حقوق انسانی کے علمبردار ؟ بات یہی ہے کہ ؃ ہرقدم پر زندگی کاقافلہ لٹتارہا راہ زن جب سےامیرِکارواں بنتےگئے۔

October 21, 2023, 02:48 AM IST

کاش پوری انسانیت کو دائمی راحت نصیب ہو!

عالمی منظر نامے میں کئی ممالک اندرونی و بیرونی سورشوں اور بد امنی کا شکار ہو کر کسی نہ کسی طور ممکنہ جنگوں کے دہانے پر ہیں۔ حالیہ اسرائیل فلسطین تنازع بھی اسی قیامت خیزصورت حال سےدوچار ہے۔برسوں سےظلم و جبر کا شکار، بنیادی انسانی حقوق،اپنی زمین و شناخت سے محروم عوام پر اپنے جائزحقوق کے مطالبے کی پاداش میں اگر جنگ بھی مسلط کر دی جائےتو اس سے بڑا ظُلم اورکوئی نہیں ، فلسطین کی تاراجی اور تباہی،معصوم بچوں کا قتل، اناج پانی ادویات اور بجلی کی فراہمی پر لگی ہوئی روک نے جس طرح وہاں زندگی قیامت بنا دی ہے اس کا تصور ہی محال ہے، یہ تلخ حقیقت ہے کہ جنگوں کا ایندھن صرف اور صرف عوام ہی بنتے ہیں،ہنستے بستے گھر ویران اور شہر قبرستان ہو جاتے ہیں۔ ہر تعمیر تخریب کا شکارہوکر زندگی کو صدیوں پیچھے دھکیل دیتی ہے۔جنگ ختم بھی ہوجائے تو اپنے عزیزوں کو ہمیشہ کیلئے کھو دینے والوں کیلئے ساری زندگی کا نہ ختم ہونے والا انتظار اور اپنے آشیانوں کی تباہی و بربادی کی داستانیں چھوڑ جاتی ہے۔ اس وقت ضروری ہے کہ تمام انصاف پسنداور خصوصاً اسلامی ممالک اپنے ذاتی مفادات کو طاق پر رکھ کرسفارتی تعلقات اور اثر ورسوخ کا استعمال کر کےفلسطینی جنگ زدہ بھائی بہنوں اور معصوم بچوں کی خیر خواہی اورامداد کیلئے بر وقت آگے آئیں کہ لاکھوں غم زدہ اورمنتظر آنکھیں اپنوں کی جانب سے ہر طرح کی امدادکی راہ تک رہی ہیں۔فلسطین اور دیگر تمام جنگ زدہ ملکوں و خطوں کے محکوم کمزور اور بے گناہ عوام کی تکلیف اور بے بسی کا مکمل احساس رکھتے ہوئے ہم دعاگو ہیں کہ ہٹ دھرمی،برتری، طاقت کے نشے میں چوراور عالمی تباہی کے ہلاکت خیز ہتھیاروں سے لیس حکومتیں اپنے عوام کی فلاح اور تعمیرو ترقی کیلئے لازم امن وآشتی کی اہمیت سمجھ لیں اور یہ بھی مان لیں کہ مسائل کے دیرپا حل جنگ سے نہیں بلکہ افہام وتفہیم سےہی ممکن ہوسکتے ہیں ،جابر حکومتیں عالمی انسانی بقاکیلئے درکار امن و آشتی کی اہمیت کو سمجھ لیں اور بس انسانیت کے قتل عام سے باز آجائیں۔کاش کہ ظلم واستبداد،جارحیت اور جنگی عزائم کی وجہ سے امن عالم کو جو لاحق خطرات لاحق ہیں اُن سب سے پوری انسانیت کو دائمی راحت نصیب ہو اور ہر خطۂ زمیں پر امن وامان کا دور ہو۔

October 21, 2023, 02:47 AM IST

کنگ خان کی ’’جوان‘‘ ملک کے ہر جوان سے سوال کرتی ہے

حال ہی میں ریلیز ہوئی شاہ رُخ خان کی فلم’’جوان‘‘ نے لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے دَور میں جبکہ اکثر اِسلاموفوبیا کے موضوع پر فلمیں بناکر لوگوں کے دِلوں میں نفرت کا زہر بھرا جا رہا ہو، جہاں جھوٹی اور پروپیگنڈےسے بھری کہانیوں کو پیش کر کے لوگوں کے درمیان دوریاں پھیلائی جا رہی ہوں اور جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کیا جا رہا ہو وہاں پر حقائق سے پُر اس طرح کی فلم بنانا یقیناً جرأت کا کام ہے۔شاہ رُخ خان، تمل فلم انڈسٹری، ’جوان‘ کے ڈائریکٹر ایٹلی اور پوری فِلم یونٹ کی ہمت کو داد دینی چاہئے اور اُن کے حوصلوں کو سلام کیا جانا چاہئے کہ اُنہوں نے اپنی فلم میں ملک کے سماجی اور قومی مسائل کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اس فلم کو دیکھنے والوں کی خوشی اور غصے سے آوازیں اور چیخیں تک نکل جاتی ہیں۔ ایسے دَور میں جہاں میڈیا نے سوال پوچھنا چھوڑ دیا ہو، جہاں فلمیں بھی خوشامد کیلئے بنائی جا رہی ہو، وہاں ’جوان‘ جیسی فلم بنانے کی جرأت کرنا اپنے آپ میں ملک کو آئینہ دِکھانے کےمترادف ہے۔ ایسی فلم جو سماج سے اور عوام سے سوال کرتی ہے اور انہیں ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتی ہے کہ جب آپ اگلے ۵ ؍سال کیلئے حکومت منتخب کرنے جا رہے ہیں تو اپنی ووٹ کی انُگلی کو ذات پات، فرقے اور مذہب کے نام پر ووٹ دینے کے بجائے تعلیم، روزگار، صحت اور ملک کے مسائل پر سوال اُٹھانے کیلئے استعمال کریں۔ اگر آپ یہ مطالبہ پورا کریں گے تو ہی غربت، بدعنوانی اور ناانصافی سے آزادی ملے گی۔ اس فلم میں کسانوں کی خودکُشی، صحت کے خراب شعبے، آکسیجن کی قلت، سرمایہ داری کی سیاست، فرقہ وارانہ منافرت اور ووٹنگ کے مسائل پر بات کی گئی ہے۔اِس فلم نے ایسے کئی سوالات سماج سے، عوام سے اور سیاسی لیڈروں سے پوچھے ہیں جیسے پوچھنے کی ہمت کئی سال سے نہ میڈیا نے کی، نہ ہی عوام نے۔ شاہ رُخ خان نے لوگوں کی آواز بن کر اِس فلم سے بہت گہری بات کہہ دی، جو نا قابل فراموش ہے۔

September 21, 2023, 03:18 AM IST

یا اللہ! لیبیا کے شہریوں کیلئے آسانی پیدا فرما

لیبیا شمالی افریقہ میں مغرب کے علاقے کا ایک ملک ہے۔ لیبیا اس وقت بڑی معیشتوں میں ۹۱؍ ویں نمبر پر ہے لیبیا کے بندرگاہی شہر ڈیرنا کی صورتحال، جہاں ہفتے کے آخر میں دو ڈیم پھٹ گئے، جیسا کہ ریڈ کراس اور مقامی حکام نے کہا کہ تباہ کن سیلاب کے بعد کم از کم ۱۰؍ ہزار افراد لاپتہ ہیں۔ شمال مشرقی لیبیا میں موسلا دھار بارش کی وجہ سے دو ڈیم ٹوٹ گئے، ۱۰؍ ستمبر کی رات پہلے ہی سیلاب زدہ علاقوں میں ڈوب گئے۔ لیبیا کے سیلاب نے ڈیرنا اور ملک کے مشرقی حصوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مشرقی لیبیا پر کنٹرول کرنے والی انتظامیہ کے ترجمان محمد ابو لاموسہ نے منگل کو دیر گئے ایک سرکاری خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ تصدیق شدہ ہلاکتوں کی تعداد ۵؍ ہزار ۳۰۰؍ سے تجاوز کر گئی ہے۔ مشرقی حکومت کے ایک اور نمائندے طارق الخراز نے بتایا کہ پورے محلے بہہ گئے ہیں اور کئی لاشیں سمندر میں بہہ گئی ہیں۔ سیکڑوں لاشوں کا ڈھیر قبرستانوں میں پڑا تھا جن میں سے چند زندہ بچ جانے والے ان کی شناخت کرنے میں کامیاب تھے، خرز کے مطابق، جس نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ مرنے والوں کی تعداد ۱۰؍ ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔ یہ اعداد و شمار انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز نے بھی نقل کئے ہیں۔ لیبیا اس طرح کی تباہی کے لئے تیار نہیں تھا۔ ایمرجنسی اور ایمبولینس سروس کے ترجمان اسامہ علی نے کہا، ۱۲؍ ستمبر ۲۰۲۳ء کو لیبیا کے شہر ڈیرنا میں طوفان ڈینیئل کی وجہ سے آنے والے سیلاب کے بعد ایک تباہ شدہ گاڑی ملبے میں پھنسی ہوئی ہے۔ لیکن ڈیرنا میں دو ڈیموں کا گرنا، جس کے دباؤ سے وہ سنبھل نہیں سکتے تھے، اس میں سب سے خراب تھا۔ طوفان کے دوران اپنے پیچھے جمع ہونے والے پانی کے دباؤ کے نیچے گرنے والے ڈیم صرف بندرگاہی شہر میں ہزاروں اموات کا باعث بنے۔ یا اللہ! لیبیا کے شہریوں کے لئے آسانی پیدا فرما، زخمیوں کو جلد صحت یابی عطا فرما، اپنے پیاروں اور قیمتی املاک سے محروم ہونے والوں کو صبر جمیل عطا فرما اور باقی شہریوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا (آمین)۔

September 21, 2023, 03:15 AM IST

مالیگاؤں : فراہمی ٔ آب سے متعلق رپورٹنگ کے پیش نظر ایک توجہ طلب نکتہ

اِس وقت میرے سامنے روزنامہ انقلاب میں مالیگاؤں میں پانی کے مسائل پر مختار عدیل کی رپورٹ کی چوتھی قسط ہے جس میں اعداد و شمار اور ماضی کے حوالے قابل تعریف ہیں۔ محنت سے تیار کی گئی یہ رپورٹس مالیگاؤں کے ہر شہری کے دل کی آواز اور ان کے مسائل کے مختلف پہلوؤں کا بے باک اظہار ہے۔ اس سلسلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ مالیگاؤں کے کئی وارڈ وں میں میونسپل کارپوریشن کی جانب سے رات چار بجے پانی سپلائی کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ چالیس سال سے جاری ہے۔ اس کی وجہ سے خواتین کو بھرپور نیند سے اٹھنا پڑتا ہے جو ان میں مستقل سر درد، چڑ چڑا پن، پریشر، بے خوابی یا ایسیڈیٹی وغیرہ کا سبب بن چکا ہے۔ پانی بھرنے کی ہماہمی اور واٹر پمپ کے شور کی وجہ سے بچوں اور بزرگوں کی بھی نیند خراب ہوتی ہے۔ کارپوریشن کے افسران سے اس پریشانی کی شکایت کی جاتی ہے تو وہ پانی کے اسٹوریج، فلٹریشن اور دیگر مسائل کا رونا روتے ہیں۔ ماضی کے ایک میونسپل کمشنر نے شہریوں کی شکایات لے کر پہنچنے والے وفد کو ٹالنے والا جواب دینا چاہا تو وفد کے نمائندہ نے برجستہ جواب دیا کہ کمشنر صاحب ہم آپ سے اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں آپ تو الٹا کارپوریشن کے مسائل بتا رہے ہیں ؟ آپ مسائل حل کرنے بیٹھے ہیں یا اپنا دکھڑا سنانے کیلئے آپ کو یہ عہدہ ملا ہے؟ پانی کا مسئلہ ہو یا اور کوئی پریشانی آپ کسی بھی کارپوریٹر، وارڈ آفیسر یا سیاستدانوں سے رابطہ قائم کریں تو وہ اتنی دقتوں اور رکاوٹوں کا ذکر کریگا کہ آپ کو اپنی پریشانی بہت ادنیٰ محسوس ہوگی۔ مالیگاؤں میں پانی کا مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے اور موجودہ قیادت اور ایم ایل ایز کی صلاحیتوں کے مد نظر بہتری کی امید خود کو دھوکہ دینے جیسی ہے۔ واضح رہے کہ جس شہر میں سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق صبح پانچ بجے اذان اور بھجن کیرتن نہیں ہوسکتا کہ اس سے عام شہریوں کی نیند میں خلل پڑتا ہے اور نیند ہر انسان کا بنیادی حق ہے اسی شہر میں میونسپل واٹر رات چار بجے سپلائی کیا جاتا ہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی! اِسے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر محمول کیا جائے تو کیا غلط ہوگا؟ انتظامیہ سے مسئلہ حل ہو نے کی اُمید فضول ہے اس لئے میں شہر پولیس ایس پی صاحب اور ڈی ایس پی صاحب سے التجا کرتا ہوں کہ جس طرح وہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے شہریوں کے نیند کے بنیادی حق کو یقینی بنانے کیلئے صبح چھ تک لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر قانونی کارروائی کرتے ہیں، اسی طرح ان کو شہری انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہئے۔

September 21, 2023, 03:13 AM IST

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK