Inquilab Logo

کالم نگار

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سکریٹری ہیں۔ آپ کی درجنوں کتابیں شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔ متعدد کتابیں بیرونی جامعات میں داخل ِ نصاب ہیں۔ آپ کا تعلق دربھنگہ بہار سے ہے مگر چار دہائیوں سے حیدرآباد میں سکونت پزیر ہیں جہاں اُنہوں نے المعہد العالی الاسلامی کی بنیاد ڈالی۔ ۱۰۰؍ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔

مولانا ندیم الواجدی

ندیم الواجدی کا تعلق دیوبند سے ہے۔ کالم نگار، مضمون نگار، نقاد، سوانح نگار، مصنف، مترجم، اردو و عربی زبان کے ادیب اور مایۂ ناز عالم دین ہیں۔ کئی سال سے سیرت نبویؐ پر انقلاب کیلئے مستقل کالم لکھ رہے ہیں۔ ملت اسلامیہ کا دھڑکتا ہوا دل، ہمارے مدارس مزاج اور منہاج اُن کی مشہور کتابیں ہیں۔ القاموس الموضوعی، عربی زبان کے قواعد اور جدید عربی زبان ایسے بولیں جیسی کئی کتابیں طلبہ میں کافی مقبول ہیں۔

حسن کمال

اُردو صحافت کا اہم نام ہیں۔ لکھنؤ آپ کا آبائی وطن ہے مگر عرصۂ دراز سے ممبئی میں سکونت پزیر ہیں۔ شاعر اور نغمہ نگار (سب سے مشہور فلم ''نکاح'') کی حیثیت سے اُن کی شہرت تو ہے ہی، وہ سیاسی مبصر کی حیثیت سے بھی مشہور ہیں۔ اُردو بلٹز کے مدیر تھے۔ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے اُن کے مضامین انقلاب میں شائع ہورہے ہیں۔ تجزیہ کے علاوہ زبان و بیان کی شگفتگی اُن کے مضامین کا خاصہ ہے۔

آکار پٹیل

تجربہ کار صحافی، مدیر، مصنف اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ کئی بڑے اخبارات کے مدیر رہ چکے ہیں۔ ''اَوَر ہندو راشٹر'' اور ''پرائز آف مودی ایئرس'' جیسی مقبول عام کتابیں تصنیف کیں۔اُردو زبان و ادب کے شائق ہیں۔ اُنہوں نے اُردو زبان سیکھی اور سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ منٹو پر اُن کی کتاب ''ریلیونس آف منٹو ٹوڈے'' شائع ہوچکی ہے۔ایمنیسٹی انٹرنیشنل (انڈیا) کے ڈائریکٹر ہیں۔

شمیم طارق

وطن بنارس ہے مگر مستقل سکونت ممبئی میں ہے۔ صحافی، مصنف، ادیب، شاعر اور محقق ہیں۔ ایک درجن سے زائد کتابیں اُن کی تخلیقی و تصنیفی سرگرمیوں کا ثبوت ہیں۔اُن کی تصنیف 'شرفِ محنت و کفالت'' کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ امیر خسرو، ٹیگور، غالب، اقبال اور کالیداس گپتا رضا پر بھی اُن کی کتابیں مقبول ہوچکی ہیں۔انقلاب کیلئے سیاسی، سماجی، معاشی، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر لکھتے ہیں۔

پرویز حفیظ

کولکاتا میں مقیم سینئر صحافی ہیں۔ انگریزی صحافت سے وابستہ رہے مگر اُردو سے اُن کی دلچسپی کم نہیں ہوئی۔ دونوں ہی زبانوں میں اُنہوں نے لکھا اور اُن کے مضامین شوق سے پڑھے گئے۔ ''دی ایشین ایج'' کولکاتہ سے کئی سال وابستہ رہے۔ بین الاقوامی اُمور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی سیاست پر اُن کی گہری نگاہ ہے، یہ الگ بات ہے کہ قومی سیاست اور دیگر موضوعات پر بھی اُن کا قلم جادو جگاتا ہے۔

ڈاکٹر مشتاق احمد

دربھنگہ، بہار وطن ہے۔ وہیں سکونت پزیر ہیں۔ درس و تدریس سے وابستہ اور تعلیمی حلقوں میں مقبول ہیں۔ شمالی ہندوستان بالخصوص بہار کے سیاسی، سماجی اور تعلیمی مسائل و معاملات پر اُن کے تجزیاتی مضامین کا اپنا انداز ہے جن کا مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ دربھنگہ کے ملت کالج اور مارواڑی کالج سے وابستہ رہے۔ اُردو جریدہ ''جہان اُردو'' نکالتے ہیں۔ درجنوں ادبی مضامین بھی قلمبند کرچکے ہیں۔

شاہد لطیف

وطن بھساول (مہاراشٹر) ہے مگر مستقل سکونت ممبئی میں ہے۔ تجربہ کار صحافی، شاعر اور کالم نگار ہیں۔ ۱۹۹۰ء سے ادارہ انقلاب سے وابستہ ہیں اور ۲۰۰۳ء سے بحیثیت مدیر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ سماجی، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اظہارِ خیال کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کی ادارت میں ادارہ انقلاب کا ہفت روزہ ''تعلیمی انقلاب'' بھی شائع ہوتا ہے جو طلبہ کا نہایت مقبول اخبار ہے۔

مبارک کاپڑی

مبارک کاپڑی ماہر تعلیم ہیں اور روزنامہ انقلاب کیلئے گزشتہ کئی دہائیوں سے کالم لکھ رہے ہیں۔ اُن کے کالم دیگر اخبارات میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ تعلیم کے عنوان پر اب تک ۱۷؍ کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔ تحریر کے ساتھ تقریر کے ذریعے بھی تعلیمی و سماجی تبدیلی کیلئے کوشاں ہیں۔ اس ضمن میں طلبہ، والدین اور اساتذہ کیلئے ملک و بیرون ملک ۵؍ ہزار سے زائد عوامی خطبات دے چکے ہیں۔

مدثر احمد قاسمی

مدثر احمد قاسمی کا تعلق ارریہ، بہار سے ہے۔ مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ممبئی اور ڈائریکٹر الغزالی انٹر نیشنل اسکول، ارریہ کے عالمی رابطہ کار ہیں۔ ایسٹرن کریسنٹ کےاسسٹنٹ ایڈیٹر اور انقلاب کے کالم نگار ہیں۔ یومیہ انگریزی کالم ''دی میسیج'' انقلاب کیلئے لکھتے ہیں۔ پروفٹ محمدس لائف (انگریزی)، انقلابی تحریریں (دوجلدیں، اردو) اور رسولؐ اکرم کی عملی زندگی (اردو) اُن کی تصانیف ہیں۔

جمال رضوی

گزشتہ۱۵؍ برسوں سے اردو درس و تدریس میں سرگرم عمل ہیں۔ فی الوقت لکھنؤ میں خواجہ معین الدین چشتی لینگویج یونیورسٹی کے شعبہ اُردو میں اسو سی ایٹ پروفیسر کےطور پراپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ شاعری کی تنقید پر دو کتابیں 'سخن شناسی' اور'تفہیم سخن' شائع ہوچکی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی سے انقلاب میں سیاسی، سماجی،تعلیمی اور تہذیبی موضوعات پر مضامین لکھ رہے ہیں۔

قطب الدین شاہد

گزشتہ ۲۰؍ برسوں سے روزنامہ انقلاب کے ادارتی شعبے سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور تعلیمی موضوعات پر گہری نظر ہے اس لئے ان پر تجزیاتی مضامین تحریر کرتے ہیں۔ انقلاب کا ''سنڈے میگزین'' ترتیب دیتے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں''ابن صفی'' سے متعلق موضوع پر ممبئی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ حاصل کی۔ مہاراشٹر حکومت اور مہاراشٹر ساہتیہ اُردو اکادیمی سمیت کئی اداروں نے اُنہیں انعام و اعزاز سے نوازا ہے۔

عاصم جلال

عاصم جلال کا تعلق ضلع فتح پور (ہسوا، اُترپردیش) کے علمی گھرانے سے ہے۔ سیاسی، سماجی اور قانونی اُمور کا اچھا درک رکھتے ہیں اور انہی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ مہاراشٹر کالج، ممبئی سے تاریخ میں بی اے اور ممبئی یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد پیشۂ وکالت اختیار کرنے کے مقصد سے تعلیم حاصل کی مگر قسمت اُنہیں دربارِ صحافت میں لے آئی۔ گزشتہ ۲۰؍ برس سے انقلاب کے شعبہ ادارت سے وابستہ ہیں۔

سعادت خان

تجربہ کار صحافی، رپورٹر اور کالم نگار ہیں۔ اُترپردیش کے شہر مرزاپور سے تعلق ہے مگر۴۵؍ سال سے ممبئی میں مقیم ہیں۔ گزشتہ ۱۵؍ سال سے ادارہ انقلاب سے وابستہ ہیں۔ تعلیمی، سماجی، طبی، کھیل کود اور کمیونٹی اچیورس کی رپورٹنگ ان کا دائرۂ کار ہے۔ اتوار کے انقلاب میںان کا کالم ''گوشۂ بانیان'' پسند کیا گیا۔ بعد ازیں ''گوشۂ بزرگاں'' جاری ہوا جس کی ۱۰۰؍ قسطیں مکمل ہوچکی ہیں، اس کالم میں سن رسیدہ افراد کے تجربات اور مشاہدات سے استفادہ کی کوشش کی جاتی ہے۔

نادر

زائد از ۲۰؍ سال سے تخلیقی و صحافتی سفر جاری ہے۔ طنزو مزاح ان کا خاص میدان ہے۔ انقلاب کیلئے کئی برس کالم ''طنزومزاح ڈاٹ کام'' لکھا۔ ۹؍ سال سے انقلاب سے وابستہ ہیں۔روزانہ ادارتی صفحہ پر ان کا کالم ''خود سوچ لو'' گزشتہ کئی برسوں سے نہ صرف جاری ہے بلکہ دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔سماجی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی اُمور پر اُن کی گہری نگاہ ہے اور انہی موضوعات پر لکھتے ہیں۔

عبدالکریم قاسم علی

عبدالکریم قاسم علی ممبئی میں مقیم صحافی ہیں۔ ۲۰۰۵ء میں ڈپلوما اِن جرنلزم مکمل کرنے کے بعد انقلاب سے اپنے صحافتی کریئر کا آغاز کیا۔ گزشتہ ۱۸؍ برس سے صحافت کے میدان میں فعال اور انقلاب کے ادارتی عملہ کا حصہ ہیں۔ اب تک سیکڑوں فلمی ستاروں، اداکاروں اور کھلاڑیوں کا انٹرویو کرچکے ہیں جو انقلاب کے سنڈے میگزین میں شائع ہوئے۔ اُنہوں نے کئی دیگر موضوعات پر بھی لکھا ہے۔

مبشر اکبر

وطن ملکاپور (مہاراشٹر) ہے مگر مستقل سکونت ممبئی میں ہے۔ علمی و ادبی خاندان کے چشم و چراغ ہیں جس نے سہ ماہی ادبی رسالہ ''تکمیل'' کم و بیش تین دہائی تک جاری رکھا۔ ۱۵؍ برس سے انقلاب سے وابستہ ہیں اور اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ سنڈے میگزین میں سیاسی و سماجی موضوعات پرلکھنے کے علاوہ ادب سے خاص دلچسپی ہے۔ صفحہ ادب نما کیلئے کئی خصوصی فیچرس لکھے اور دلچسپ سلسلے جاری کئے۔

ارقم نورالحسن

ارقم نورالحسن کا تعلق مہاراشٹر کے صنعتی شہر بھیونڈی سے ہے۔ روزنامہ انقلاب سے گزشتہ ۱۵؍ سال سے وابستہ ہیں۔ سیاسی اور سماجی اُمور کا خاصا درک رکھتے ہیں اور ایسے ہی موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اُن کے اکثر مضامین سنڈے میگزین میں شائع ہوئے ہیں۔انقلاب کے ذریعہ حالیہ برسوں میں جن صحافیوں نے اپنی پہچان بنائی ہے اُن میں ارقم نورالحسن کا نام شامل اور اہمیت کا حامل ہے۔

حمزہ فضل اصلاحی

آبائی وطن اعظم گڑھ ہے۔ گیارہ سال سے روزنامہ انقلاب ممبئی سے وابستہ ہیں۔ ہر اتوار کو شائع ہونے والا ان کا کالم ''گاؤں کی باتیں'' کافی مقبول ہے جس میں دیہی علاقوں کے بدلتے حالات کا احاطہ نیز ماضی اور حال کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ ساون کے جھولے، دیوالی کے دیے، رمضان اور عید کی رونقیں، مویشی، کھیت کھلیان، تالاب، پوکھر، ندی وغیرہ اُن کی تحریروں کا جزوِ لاینفک ہوتے ہیں۔

اظہر مرزا

وطن مالیگاؤں ہے مگر ممبئی میں مقیم ہیں۔ ۲۰۱۳ء سے ادارہ انقلاب سے وابستہ ہیں۔ نوجوانوں کا صفحہ''پیش رفت'' ترتیب دینے کے دوران نئی نسل کی جدوجہد اور کامیابی کو اُجاگر کرتے ہیں۔ تکنالوجی، تعلیم، کریئر، روزگار، خود بہتری اور ترغیب و تحریک جیسے موضوعات پر لکھتےہیں۔ سوشل میڈیا کی ہلچل اور اس پر زیر بحث موضوعات پر مبنی ہفت روزہ کالم ''سوشل میڈیا راؤنڈاپ'' لکھتے ہیں۔

اعجاز عبدالغنی

گزشتہ ۲۵؍برسوں سے درس وتدریس سے وابستہ ہیں۔ کلیان میں روزنامہ انقلاب کی نمائندگی کے ساتھ ہی گزشتہ کئی سال سے انقلاب کا مقبول کالم 'مراٹھی اخبارات سے' ترتیب دے رہے ہیں۔ 'کاغذی ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی' کے ۶؍ سال تک جنرل سیکریٹری اور' کے ڈی ایم سی' پترکار سنگھ کے خازن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف تعلیمی، ادبی اور سماجی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں۔

احسان الحق

احسان الحق کا تعلق الہ آباد سے ہے مگر ملازمت کے سبب لکھنؤ میں سکونت پذیر ہیں۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے مکمل کیا۔ ابتداء ہی سے رجحان صحافت کی طرف تھا، ابتداء میں روزنامہ ''آگ'' سے وابستہ ہوئے۔ ۲۰۱۱ء میں روزنامہ انقلاب کا لکھنؤ ایڈیشن جاری ہوا تھا تب سے انقلاب کے ساتھ ہیں۔ درجنوں انٹرویو کرچکے ہیں بالخصوص اُردو کے عظیم ادیبوں اور شاعروں کے ورثاء کے انٹرویوز۔

شہباز خان

صحافت بالخصوص اُردو صحافت سے گہرا شغف ہے۔ اتوار کے انقلاب میں ان کا کالم ''معاشیانہ'' توجہ سے پڑھا جاتا ہے۔ادارہ انقلاب کے ہفت روزہ طلبہ کے اخبار ''تعلیمی انقلاب'' کے مرتب ہیں اور ہمہ وقت اسی تگ و دو میں رہتے ہیں کہ قوم کے طلبہ کو نئے عہد کے تقاضوں سے کس طرح واقف کرایا جائے۔ جدید لفظیات، اصطلاحات، رجحانات اور اکنامک نیز ڈجیٹل اُمور کا خاصا درک رکھتے ہیں۔

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK