Inquilab Logo

جرم اور سزا

Updated: June 08, 2024, 12:56 PM IST | Mumbai

’’نہیں راشد نہیں۔ کسی طرح بھی میرے نمبر بڑھوا دو۔ ورنہ مجھے یقین ہے کہ مَیں فیل ہوجاؤں گا۔‘‘ ’’آخر تم سمجھتے...‘‘ راشد نے کہنا چاہا لیکن طاہر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’راشد میں اب کچھ نہیں چاہتا۔ بس تم میرے نمبر بڑھوا دو۔‘‘

Photo: INN
تصویر : آئی این این

آج راشد کے امتحان کا آخری دن تھا۔ وہ جیسے ہی پرچہ ختم کرکے اسکول سے باہر آیا اس کو طاہر مل گیا۔ طاہر اُس کے ساتھ اسی کے درجہ میں پڑھتا تھا اور اس کا بہترین دوست تھا۔ لیکن وہ راشد کی طرح پڑھائی میں ہوشیار نہیں تھا۔ دونوں باتیں کرتے ہوئے اسکول کی باونڈری سے باہر آگئے۔ اچانک طاہر نے کہا، ’’راشد میں نے کبھی تم سے کوئی ایسی بات نہیں کہی، جس کو کہتے ہوئے مَیں نے ہچکچاہٹ محسوس کی ہو۔ لیکن آج میں تم سے ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جسے کہنے کے لئے میری زبان میرا ساتھ نہیں دے رہی ہے۔
 ’’لیکن وہ بات کیا ہے۔‘‘ راشد نے حیرت سے طاہر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیونکہ طاہر نے واقعی کبھی کسی بات سے پہلے اتنی لمبی چوڑی تمہید سے کام نہیں لیا تھا!
 ’’دیکھو راشد تم تو جانتے ہی ہو کہ مَیں پڑھائی لکھائی میں بہت کمزور ہوں.... ابھی تک تو مَیں کسی نہ کسی خاص پاس ہوتا رہا ہوں لیکن وہ چھوٹے درجوں کی بات تھی۔ اس مرتبہ نواں درجہ ہے اس لئے پروموشن ملنے کی بھی بہت کم اُمید ہے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ تم اپنے پاپا سے کہہ کر میرے نمبر بڑھوا دو۔‘‘ طاہر نے رکتے رکتے کہا۔ راشد کے پاپا اسی اسکول میں ماسٹر تھے جس میں وہ پڑھتا تھا۔
 ’’لیکن تم کس مضمون میں نمبر بڑھوانا چاہتے ہو۔ ہوسکتا ہے وہ کاپی پاپا کے پاس آئے ہی نہیں۔‘‘ راشد نے کہا۔
 ’’جس مضمون کی کاپیاں بھی تمہارے پاپا کو ملیں۔ کیونکہ مَیں تو ہر مضمون میں کمزور ہوں۔‘‘ طاہر نے جواب دیا۔
 ’’خیر میں کوشش کروں گا۔ ویسے اُمید نہیں ہے کہ پاپا اس پر تیار ہوجائیں۔ اس سلسلے میں وہ بہت سخت ہیں۔‘‘ راشد نے کہا۔
 ’’تم کہنا۔ مجھے اُمید ہے وہ تمہاری بات نہیں ٹالیں گے۔‘‘ طاہر نے کہا۔
 ’’ہوں، اُوں۔‘‘ راشد کا جواب تھا۔
 تھوڑی دیر کے بعد دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔
 یہ ششماہی امتحان تھا۔ امتحان کے بعد ایک ہفتہ کے لئے اسکول بند ہوگیا۔
 ایک دن شام کے وقت راشد کے پاپا نویں جماعت کی کاپیاں جانچ رہے تھے۔ ان کے پاس نویں جماعت کی انگریزی کی کاپیاں تھیں۔ راشد بھی ان کے پاس بیٹھا ’’مارکنگ‘‘ دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد طاہر کی کاپی کا نمبر بھی آگیا۔ پاپا نے کاپی جانچی۔ طاہر کو بہت کم نمبر ملے تھے.... جب پاپا طاہر کی کاپی رکھنے لگے تو راشد نے ڈرتے ڈرتے کہا، ’’پاپا!‘‘
 ’’ہوں۔‘‘ پاپا نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
 ’’اس لڑکے کے نمبر بڑھا دیجئے۔‘‘ راشد نے طاہر کی کاپی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
 پاپا نے پہلے ایک نظر کاپی کی طرف دیکھا پھر راشد کو گھورتے ہوئے بڑی سختی سے کہہ دیا ’’نہیں‘‘ اس ’نہیں‘ کے بعد راشد کی کچھ اور کہنے کی ہمت نہیں پڑی اور وہ وہاں سے اُٹھ گیا۔
 راشد نے طاہر کو پوری بات بتا دی۔ لیکن طاہر رو پڑا اور اس نے کہا، ’’کسی طرح سے بھی ہو راشد میرے نمبر بڑھوا دو۔ مَیں تمہارا احسان عمر بھر نہ بھولوں گا۔‘‘
 ’’لیکن طاہر یہ تو ششماہی امتحان تھا۔ تم کو اتنی فکر کیوں ہے.... تم سالانہ امتحان کے لئے خوب محنت سے پڑھو۔ مجھے اُمید ہے تم ضرور پاس ہو جاؤ گے۔ راشد نے اسے سمجھایا۔
 ’’نہیں راشد نہیں۔ کسی طرح بھی میرے نمبر بڑھوا دو۔ ورنہ مجھے یقین ہے کہ مَیں فیل ہوجاؤں گا۔‘‘
 ’’آخر تم سمجھتے....‘‘ راشد نے کہنا چاہا لیکن طاہر نے اس کی بات کاٹ دی۔
 ’’راشد میں اب کچھ نہیں چاہتا۔ بس تم میرے نمبر بڑھوا دو۔‘‘ ’’راشد نے اس کو بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانا اور آخرکار راشد نے ایک بار پھر اس سے وعدہ کر لیا۔
 طاہر سے وعدہ کرنے کے بعد راشد نے ایک ترکیب سوچی اور اس ترکیب پر عمل کرنے کا موقع اس کو چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے مل بھی گیا۔
 شام کا وقت تھا۔ پاپا کہیں گئے ہوئے تھے اور گھر کے دوسرے لوگ کاموں میں مصروف تھے۔ وہ سب کی نظر بچا کر لائبریری میں چلا گیا۔ پاپا امتحانات کی کاپیاں وہیں رکھتے تھے۔ وہاں پہنچ کر اس نے طاہر کی کاپی نکالی اور نمبر بڑھانے کے بعد کاپی کو اسی جگہ پر رکھا اور واپس لوٹنے لگا۔ لیکن.... دروازہ کی طرف اُٹھتے ہی اُس کو چکّر سا آگیا.... پاپا کھڑے اس کو گھور رہے تھے.... راشد جہاں تھا وہیں رکا رہ گیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اب وہ کبھی حرکت نہ کرسکے گا۔
 ’’کیوں تم نے کاپیوں میں کیا تبدیلی کی ہے؟‘‘ پاپا نے بھاری آواز میں پوچھا۔
 راشد خاموش رہا تو انہوں نے آگے بڑھ کر اور زور سے پوچھا، ’’بولتے کیوں نہیں۔‘‘
 لیکن وہ خاموش رہا۔
 دوسرے ہی لمحہ پاپا کا ہاتھ اس کے چہرے کو لال کر گیا۔ آخر دو تین ہاتھ اور کھانے کے بعد اس کو ساری بات پاپا کو بتانا ہی پڑی۔
 ’’ہوں تو تم اس قدر آگے بڑھ گئے۔ اچھا اپنی اور طاہر کی کاپیاں لاؤ۔‘‘ پاپا نے کہا۔
 راشد نے دونوں کاپیاں نکال کر پاپا کو دے دیں.... پاپا تھوڑی دیر تک ان کاپیوں میں کچھ تبدیلی کرتے رہے۔ پھر انہوں نے دونوں کاپیاں راشد کی طرف بڑھا دیں۔ راشد نے کاپیاں دیکھیں.... اُس کی کاپی پر پچھلے ملے ہوئے نمبروں سے بیس نمبر کم درج تھے اور طاہر، وہ پھر فیل کر دیا گیا تھا!
 راشد کے آنسو نکل پڑے۔ پاپا نے اس کو روتا دیکھ کر کہا۔
 ’’دیکھو راشد.... اگر تم مستقبل میں ایک اچھی حیثیت کے آدمی بننا چاہتے ہو تو تم اپنے دوستوں کو بھی اپنا جیسا ذہین بناؤ۔ ایمان داری ترقی کے زینے کی ابتدائی سیڑھی ہے۔ خود کو اور اپنے دوستوں کو غلط راہوں پر مت بھٹکنے دو۔ اس میں تمہاری اور تمہارے دوستوں کی ہی بھلائی ہے۔ طاہر کو سمجھاؤ.... اگر وہ مان جائے تو ٹھیک ہے ورنہ تم اس کے ساتھ ملنا جلنا چھوڑ دو۔‘‘
 پاپا کے الفاظ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آگ اور بھڑک اٹھی اور راشد کی ہچکیاں بندھ گئیں! پاپا اس کو تنہا چھوڑ کر لائبریری سے نکل گئے۔
 دوسرے دن طاہر سے ملنے پر راشد نے اس کو تمام باتیں بتا دیں اور اس سے کہا، ’’طاہر اگر تم چاہتے ہو کہ میرے دوست رہو تو تم کو بھی میرے ساتھ مل کر پڑھنا ہوگا تاکہ تم بھی پڑھائی لکھائی میں کسی سے کم نہ رہو۔‘‘
 ’’ہاں راشد میں ضرور ایسا کروں گا۔ تمہارے پاپا واقعی بہت عظیم شخص ہیں۔ مَیں ان سے بھی معافی مانگ لوں گا۔‘‘ طاہر کے لہجہ میں پشیمانی تھی۔
 ’’ٹھیک ہے۔‘‘ راشد نے کہا۔
 چند ماہ بعد سالانہ امتحان آیا اور گزر گیا۔ اور پھر کچھ دن بعد نتیجہ بھی معلوم ہوگیا۔ راشد اپنے درجہ میں اول آیا تھا۔ لیکن اس کو اپنے اول آنے سے زیادہ اس بات کی خوشی تھی کہ طاہر نے سالانہ امتحان کے لئے اتنی محنت کی تھی کہ وہ بغیر کسی بے ایمانی کے پاس ہوگیا تھا۔
(ماخوذ: کھلونا، ۱۹۶۳ء)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK