وہ تعلیم اور حقوق نسواں کی علمبردار تھیں،مختلف موضوعات پر ۵۰؍ سے زائد کتابیں لکھیں،انہیںکئی اعزازات اور خطابات سے نوازا گیا۔
EPAPER
Updated: June 08, 2024, 4:25 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai
وہ تعلیم اور حقوق نسواں کی علمبردار تھیں،مختلف موضوعات پر ۵۰؍ سے زائد کتابیں لکھیں،انہیںکئی اعزازات اور خطابات سے نوازا گیا۔
سلطان جہاں(Sultan Jahan) ریاست بھوپال کی آخری خاتون فرمانروا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر تھیں۔ نواب سلطان جہاں بیگم ۱۹۰۱ءمیں ریاست بھوپال کے تخت متمکن ہوئی تھیں اور انہوں نے کامیابی کے ساتھ۲۶؍ سال حکومت کی تھی۔ وہ ایک کامیاب ایڈمنسٹریٹر کے ساتھ بہترین ادیب اور انشا پرداز بھی تھیں۔ ۱۹۲۰ءمیں جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنی تو وہ اس کی نہ صرف پہلی خاتون چانسلر بنیں بلکہ تاحیات(۱۹۳۰ء تک) اس ادارے کی چانسلر رہیں۔
سرکار اماں جو سلطان جہاں کے نام سے مشہور ہیں ،کی پیدائش ۹؍ جولائی ۱۸۵۸ء کو بھوپال میں ہوئی تھی۔وہ نواب بیگم سلطان شاہ جہاں اور ان کے شوہر باقی محمد خان بہادر اکلوتی اولاد تھیں۔ ۱۸۶۸ میں سلطان جہاں کی دادی سکندر بیگم کی موت کے بعد ان کی والدہ تخت نشیں ہوئیں۔ ۱۹۰۱ء میں سلطان جہاں نے اپنی والدہ کی وفات کے بعد دارالاقبال بھوپال کی نواب بیگم بنیں۔
نواب سلطان جہاں بیگم نے اپنے عہد میں بھوپال میں تعلیم، تاریخ نویسی اور اردو زبان و ادب کے فروغ کیلئے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ بے مثل ہیں۔ انہوں نے کھانا پکانے، گھر کی دیکھ بھال، صحت، خواتین کے حقوق اور ذمہ داریوں وغیرہ پر تقریباً ۴۲؍ کتابیں تصنیف کی تھیں۔ اگر اس میں ان کی تالیف کردہ کتابوں کو شامل کرلیا جائے تو اس کی تعداد۶۰؍ سے زیادہ ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں کی سوانح عمری لکھی اور اپنی خودنوشت کو انگریزی کے عنوان سے تین جلدوں میں’’این اکاؤنٹ آف مائی لائف‘‘ (گوہرِ اقبال، ۱۹۱۲ء، ۱۹۲۲ء،۱۹۲۷ء) میں بیان کیا۔ ان کے علاوہ، انہوں نے’’ `سیرت مصطفیٰ ؐ‘‘ بھی لکھی جس نے اسلامی تاریخ میں ان کی وسیع دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔
سلطان جہاں بیگم بہت دور اندیش اور اعلی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ وہ جتنا مشرقی تھیں اتنا ہی مغربی اصولوں کو بھی پسند کرتی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے تعلیم کے معاملے میں مشرق و مغرب کے درمیان ایک توازن پیدا کیا۔ انہوں نے نصاب بھی ترتیب دیا۔ انہوں نے کئی اسکول کھولے۔ خاص طور پر وہ تعلیم نسواں کی بہت بڑی مبلغ تھیں۔ انہوں نے تعلیم نسواں کے تعلق سے جو بھی کام کیا چاہے وہ علی گڑھ میں ہو یا بھوپال میں، نا قابل فراموش ہیں۔۱۹۱۰ء میں بھوپال میں خواتین کیلئے لیڈیز کلب بنوایا۔ سلطان جہاں نے خواتین کے کلبوں اور کنونشنوں میں خواتین کی تعلیم پر کئی تقاریر کیں، جنہیں ۱۹۱۹ء میں `’’ریشمِ شہوار‘‘ میں جمع کیا گیا تھا۔ انہوں نے کئی ادیبوں کو بھوپال بلاکر انہیں وظائف اور اعلی مناصب پر متعین کیا اور ان سے پروجیکٹ وائز کام کروایا۔ دفتر تحقیق قائم کیا اور موضوعات دے کر ادیبوں سے کتابیں لکھوائیں۔ بتا دیں کہ مولانا آزاد کی بہن ان کی سیکریٹری رہ چکی ہیں۔ انہیں کئی اعزازت اور خطابات سے بھی نوازا گیا تھا۔
نواب سلطان جہاں کا انتقال ۱۲؍مئی ۱۹۳۰ء کو بھوپال میں ہوا تھا اور بھوپال کی صوفیا مسجد کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا۔