• Sun, 21 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مخصوص انداز کی بدولت اوم پوری بالی ووڈ کے ساتھ ہی ہالی ووڈ میں بھی کامیاب رہے

Updated: September 21, 2025, 12:15 PM IST | Anis Amrohvi | Mumbai

انہیں بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا، کالج میں گئے تو ڈراموں میں اداکاری کا موقع ملا، بعد ازاں ان کا یہی شوق انہیں پونے میں ’نیشنل اسکول آف ڈراما‘ تک لے گیا جہاں انہوں نے اداکاری کے کورس میں داخلہ لیا اور پھر ۱۹۷۶ء میں ممبئی آگئے، یہاں آکر فلموں میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ فلمی خدمات کیلئے نیشنل ایوارڈ اور فلم فیئر ایوارڈ کے ساتھ پدم شری کے اعزاز سے بھی نوازے گئے۔

Om Puri has been considered one of the country`s leading film actors since the beginning. Photo: INN
اوم پوری کا شمار شروع ہی سے ملک کے صف اول کے فلمی اداکاروں میں کیا جاتا رہاہے۔ تصویر: آئی این این

فلم انڈسٹری میں سیکڑوں فنکار آتے جاتے رہتے ہیں۔ کچھ مقبولیت پاتے ہیں اور طویل عرصے تک یاد رکھے جاتے ہیں جبکہ بیشترفنکار وقت گزرنے کے ساتھ ہی فراموش کر دیئے جاتے ہیں۔ اوم پوری کا شمار ان فنکاروں میں کیا جاتا ہے جنہیں لوگ عرصے تک یاد کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوم پوری ایک بہترین اداکار کے ساتھ ہی ایک بہترین انسان بھی تھے۔ انہیں دیکھ کر ایک عام انسان، خود کو ان سے اپنے آپ کو جوڑ لیتا تھا۔ 
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ بالی ووڈ کی دنیا چمک دمک والی دنیا ہے، جس میں عامر خان، شاہ رُخ خان اور سلمان خان جیسے خوشنماچہرے والے اداکار کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ ہیرو کے طور پر فلم انڈسٹری میں قدم جمانے کیلئے لمبے تگڑے ہونے کے ساتھ ہی گورا چٹا ہونے کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر اوم پوری میں یہ ساری باتیں نہیں تھیں، اس کے باوجود وہ کامیاب تھے۔ ان کے اندر بہترین اداکارانہ صلاحیتیں تھیں جس کی وجہ سے وہ نہ صرف الگ الگ قسم کے کرداروں کو ادا کرتے رہے بلکہ بطور ہیرو بھی فلموں میں دِکھائی دیئے اور کامیاب رہے۔ 
اوم پوری کا شمار ملک کے صف اول کے فلمی اداکاروں میں کیا جاتا رہاہے۔ انہوں نے اپنی مخصوص اداکاری سے نہ صرف بالی ووڈ بلکہ ہالی ووڈ میں بھی اپنا خاص مقام بنایا ہے۔ ان کی پیدائش ایک پنجابی خاندان میں ۱۸؍اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ہریانہ کے ضلع انبالہ میں ہوئی تھی، جو پہلے برٹش زمانے میں پنجاب کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ اوم پوری کے والد کا نام ٹیک چند پوری تھا اور وہ انڈین ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ اوم پوری کی والدہ کا نام تارا دیوی ہے۔ 
اوم پوری کی ولادت کے سلسلے میں اُن کے پاس کوئی سند نہیں تھی۔ اُن کے خاندان والے بھی اُن کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں یقینی طور پر کچھ نہیں جانتے تھے۔ حالانکہ اُن کی والدہ کا کہنا تھا کہ وہ ۱۹۵۰ء میں دسہرے کے ۲؍ دن بعد پیدا ہوئے تھے۔ مشہور اداکار مدن پوری اور امریش پوری اُن کے چچازاد بھائی تھے۔ ان کا بچپن بہت غربت میں گزرا تھا، یہاں تک کہ ۶؍برس کی عمر میں انہیں ایک چائے کے ہوٹل پر برتن بھی دھونے پڑتے تھے۔ اوم پوری کا پورا نام راجیش اوم پوری تھا اور انہوں نے پنجاب میں پٹیالہ کے خالصہ کالج سے گریجویشن کیا۔ وہیں کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ہی اوم پوری کی دلچسپی اداکاری کی طرف بھی ہونے لگی تھی۔ 
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ چنڈی گڑھ میں ایک وکیل کے یہاں منشی گیری کی نوکری کرنے لگے۔ اس درمیان کالج کے ایک ناٹک میں اوم پوری کو اداکاری کرنے کیلئے دوستوں نے بلایا، جس کیلئے ا نہوں نے اپنے وکیل باس سے تین دن کی چھٹی طلب کی لیکن وکیل صاحب نے انہیں چھٹی دینے سے انکار کر دیا۔ وکیل صاحب کی یہ بات اوم پوری کو بہت ناگوار گزری اور انہوں نے وکیل صاحب سے کہہ دیاکہ ’’اپنی نوکری اپنے پاس رکھ لیں اور میرا حساب کر دیں۔ ‘‘ جب اوم پوری کے کالج کے دوستوں کو اس واقعہ کا پتہ چلا تو انہوں نے کالج کے پرنسپل صاحب سے اس بارے میں بات کی اور پرنسپل صاحب نے اوم پوری کو کالج میں لیب اسسٹنٹ کی ملازمت دے دی۔ اس ملازمت میں اوم پوری کو تنخواہ کے طور پر ۱۱۲؍ روپے ماہانہ ملتے تھے۔ 
جس دن کالج میں ڈراما تھا، اسے دیکھنے کیلئے پنجاب کے مشہور تھیٹر اداکار ہرپال ٹِوانا بھی آئے ہوئے تھے۔ اوم پوری کی اداکاری کو دیکھنے کے بعد ہرپال ٹوانا نے اُنہیں اپنے تھیٹر گروپ سے جڑنے کی پیش کش کی۔ ٹوانا کی پیشکش انہیں پسند آئی۔ اسلئے انہوں نے اداکاری کی دنیا میں شروعات کرنے کیلئے کالج کے لیب اسسٹنٹ کی ملازمت چھوڑ دی تھی۔ بعد ازاں ان کا یہی شوق انہیں ’نیشنل اسکول آف ڈراما‘ تک لے گیا جہاں انہوں نے اداکاری کے کورس میں داخلہ لے لیا۔ 
 اُن دنوں نصیرالدین شاہ اور اوم پوری ’این ایس ڈی‘ میں بیچ میٹ تھے۔ اُن دونوں کی دوستی تقریباً چالیس برس تک رہی۔ اس دَوران نصیرالدین شاہ نے کئی بار اوم پوری کی مالی مدد بھی کی۔ اِس سلسلے میں خود اوم پوری کا کہنا تھا کہ اگر نصیر مدد نہیں کرتے تو وہ کامیابی کے اِس مقام تک کبھی نہیں پہنچ پاتے۔ اوم پوری مانتے تھے کہ جب انہوں نے این ایس ڈی میں داخلہ لیا تھا، تب اُن کے اندر خوداعتمادی کی بہت کمی تھی کیونکہ اُن کی بنیادی تعلیم پنجابی زبان میں ہوئی تھی۔ این ایس ڈی میں ہی اوم پوری کی ملاقات شبانہ اعظمی سے ہوئی تھی، بعد میں ان دونوں نے ایک ساتھ ’دھاراوی (۱۹۹۲ء)، مرتیو دنڈ (۱۹۹۷ء)، البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے؟ (۱۹۸۰ء) اورسٹی آف جوائے (۱۹۹۲ء)‘ جیسی کامیاب فلموں میں یادگار کردار ادا کئے۔ 
پونے کے ’فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ‘ میں اداکاری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۷۶ء میں اوم پوری ممبئی آگئے اور کچھ دوستوں کے ساتھ ’مجمع تھیٹر‘ نام سے اپنا ایک ذاتی تھیٹر گروپ قائم کیا لیکن جہاں تک ان کی اپنی اداکاری کے سفر کی بات ہے تو انہوں نے ۱۹۷۶ء میں ایک مراٹھی ناٹک ’گھاسی رام کوتوال‘ سے شروع کیا تھا۔ اِسی دَوران اوم پوری کو بال فلم سمیتی کے ذریعہ بن رہی فلم ’چور چور چھپ جا‘ میں بھی اداکاری کرنے کا موقع ملا لیکن ان کی باقاعدہ پہلی فلم ۱۹۸۰ء میں ریلیز ہونے والی ’چن پردیسی‘ تھی جوکہ پنجابی زبان میں تھی۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد اوم پوری کو کئی ہندی فلمیں ملیں، جیسے ۱۹۸۰ء میں ہدایتکار گووند نہلانی کی ’آکروش‘ اور ۱۹۸۱ء میں ستیہ جیت رے کی ایک ٹیلی فلم ’سدگتی‘۔ اس کے ساتھ ہی اوم پوری کو ۱۹۸۰ء میں گجراتی زبان میں بننے والی کیتن مہتا کی فلم ’بھوَنی بھوائی‘ میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ حالانکہ ایک باصلاحیت اداکار کے طور پر فلم ’آکروش‘ ہی سے اوم پوری ممبئی کی فلمی دُنیا میں اپنی شناخت قائم کر چکے تھے، مگر۱۹۸۳ء میں گووند نہلانی کی ہدایت میں بننے والی فلم ’اَردھ ستیہ‘ اوم پوری کے فلمی کریئر کیلئے ایک سنگِ میل ثابت ہوئی۔ فلم ’اردھ ستیہ‘ میں اُن کا کردار سماجی اور سیاسی بدعنوانیوں کی مخالفت کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس فلم میں پولیس انسپکٹر کے کردار میں اوم پوری نے ہمیں سمجھا دیا کہ ہمارے سماج میں ’ویلن‘ کس طرح پیدا ہوتے ہیں۔ 
فلم ’اردھ ستیہ‘ اوم پوری کی ایک ایسی فلم تھی جس میں انہوں نے اپنی مخصوص اداکاری سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ ایک باصلاحیت اداکار ہیں۔ اس فلم کے ذریعہ اُن کی بہترین اداکاری کا تذکرہ نہ صرف ہندوستان میں ہوا بلکہ غیرممالک میں بھی اوم پوری نے خوب شہرت حاصل کی۔ اس فلم کو کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ اوم پوری کی کامیابی اسلئے بھی کافی اہمیت رکھتی تھی کہ کمرشیل فلموں کی کوئی بھی شرط پوری نہ کرنے کے باوجود وہ پوری طرح کامیاب ہوئے تھے۔ ان کی فلمیں باکس آفس کے معیار پر بھی پوری اُترتی تھیں اور فلم شائقین اور ناقدین کو مطمئن کرنے کے ساتھ ہی فلمسازوں  کو مالا مال کردیتی تھیں۔ 
مختلف کرداروں میں اداکاری کرتے ہوئے اوم پوری ہمیشہ الگ دکھائی دیئے۔ سنجیدہ کرداروں کی ادائیگی میں جذبات کا اُبال اُن کی فنکاری تھی۔ مزاحیہ کردار کرتے ہوئے جو فطری رنگ اُن کی اداکاری میں تھا، وہ اُن کے ہمعصروں میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ شیام بینیگل کی ہدایت میں بننے والی فلم ’آروہن‘ ۱۹۸۲ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں اوم پوری نے ایک غریب کسان کا کردار ادا کیا تھا جو بنگال کے ایک دُور دراز کے گائوں میں رہتا ہے۔ شمع زیدی کی کہانی پر بنی اس فلم کے دیگر اداکاروں میں وِکٹر بنرجی، پنکج کپور، سریلا مجمدار، جینت کرپلانی اور امریش پوری وغیرہ شامل تھے۔ اس فلم نے ہندی کی بہترین نیشنل فلم کا ایوارڈ حاصل کیا تھا، اسی فلم کیلئے ۱۹۸۲ء کا بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ اوم پوری کو ملا تھا۔ 
ہدایت کار کیتن مہتا نے ۱۹۸۷ء میں فلم ’مرچ مسالہ‘ کی ہدایت کی تھی۔ اس فلم میں نصیر الدین شاہ، سمیتا پاٹل، اوم پوری، راج ببر، سریش اوبیرائے اور دپتی نول جیسے بہترین اداکاروں نے کام کیا تھا۔ اس فلم میں اوم پوری نے مِل کے ایک ایسے چوکیدار ’ابو میاں ‘ کا یادگار کردار ادا کیا تھا جو گائوں کی ایک لڑکی سمیتا پاٹل کی عزت بچانے کیلئے اپنی جان کی پروا نہیں کرتا اور اُسے مِل میں پناہ دیتا ہے۔ اس فلم کو بطور ہدایت کار کیتن مہتا کی پہلی کامیاب فلم کہا جا سکتا ہے۔ اس فلم نے باکس آفس پر بہترین کلیکشن کے ساتھ ہی کئی اہم ایوارڈ اپنے نام کئے تھے۔ اس سے پہلے کیتن مہتا دو فلموں، ’بھوَنی بھوائی (۱۹۸۰ء) اور ہولی (۱۹۸۴ء)‘ میں ہدایتکاری کے فرائض ادا کر چکے تھے۔ 
مضمون کی دوسری اور آخری قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ کریں 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK