Inquilab Logo

کیفی اعظمی نےمحض ۱۱؍سال کی عمرسےشعرکہناشروع کردیا تھااورمشاعروں میں بھی شرکت کیاکرتے

Updated: January 14, 2023, 10:14 AM IST | Mumbai

فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی آعظمی میںشعروشاعری کی صلاحیت بچپن ہی سے نظر آنے لگی تھی۔کیفی نے محض ۱۱؍ برس کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیئےتھے

Famous poet and lyricist Kaifi Azmi
مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی

فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی آعظمی میںشعروشاعری کی صلاحیت بچپن ہی سے نظر آنے لگی تھی۔کیفی نے محض ۱۱؍ برس کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیئےتھے اور وہ اکثر مشاعروں میں شرکت  کرنے  لگے تھے۔ لیکن بیشتر لوگ جن میںان کے والدبھی شامل تھے یہ سوچا کرتےتھےکہ کیفی اعظمی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔ایک مرتبہ بیٹے کا امتحان لینے کے لئے  ان کے والد نے انہیں ایک مصرعہ طرح دیا اور اس پر   غزل لکھنےکوکہا۔کیفی نے اسے چیلنج کے طور پر  قبول کیا اور پوری  غزل لکھ ڈالی۔ ان کی یہ غزل  کافی مقبول ہوئی جسے بعد میں مشہور گلوکارہ بیگم اختر نے اپنی آواز دی۔ غزل کا مطلع یوں ہے:۔
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
    ہنسنے سے ہو سکون  نہ رونے سے کل پڑے
 کیفی اعظمی محفلوں میں بہت شوق سے نظمیں پڑھا کرتےتھےاس کے لئے انہیں کئی مرتبہ ڈانٹ بھی کھانی پڑتی تھی جس کے بعد وہ روتےہوئے اپنی والدہ کے پاس جاتے اور کہتے ’’اماں دیکھنا ایک دن میں بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا۔‘‘
 کیفی اعظمی کی ولادت۱۴؍ جنوری۱۹۱۹ءکو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کےمجواں گاؤں  میں ہوئی تھی۔ان کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے جو انہیں اعلی تعلیم دلانا چاہتےتھےاور اسی مقصد سے انہوں نے کیفی کا داخلہ لکھنؤ کےمشہور مدرسے ’سلطان المدارس‘ میں کرادیا تھا۔ کیفی آعظمی کبھی بھی اعلی تعلیم کے خواہش مند نہیں تھے۔ مدرسہ میں اپنی تعلیم کے دوران وہاں کےغیرمنظم حالات دیکھ کر انہوں نے طلبا یونین بنائی اور طالب علموں سےہڑتال پر جانے کی اپیل کی۔ان کی یہ ہڑتال تقریباً ڈیڑھ برس تک چلی لیکن اس ہڑتال کی وجہ سے کیفی اعظمی مدرسہ انتظامیہ کیلئے مشکل بن گئےجس کی وجہ سے         ہڑتال کے خاتمہ کے بعد انہیں مدرسہ سے نکال دیا گیا۔اس ہڑتال سے کیفی اعظمی کو یہ فائدہ ہوا کہ اس وقت کے چند ترقی پسند مصنفین ان کی قیادت سےکافی  متاثر ہوئےاور انہیں کیفی میں ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا ۔ان لوگوں نے انہیں حوصلہ دیا اورہرممکن مدد دینے کی پیشکش کی۔اس کے بعد ایک طالب علم لیڈراطہر حسین  نے  ایک  شاعرکیفی اعظمی کے طور پر جنم لے لیا۔
   ۱۹۴۲ءمیںکیفی اعظمی اردو اور فارسی کی اعلی تعلیم کیلئےلکھنؤ اور الہ آباد بھیجے گئے لیکن انہوں نےکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کرکے پارٹی کارکن کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اورپھر’بھارت چھوڑو‘تحریک میں شامل ہو گئے۔ 
 ان کی پہلی نظم ’سرفراز‘لکھنؤ میں شائع  ہوئی۔ انہوںنےروزنامہ اخبارکیلئے مزاحیہ اورطنزیہ شاعری شروع کی۔اس کےبعد اپنے گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش نظر کیفی اعظمی نےفلموں کیلئے  نغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔کیفی اعظمی نے سب سے پہلے فلمسازشاہد لطیف کی فلم ’بزدل‘ کیلئے ۲؍ نغمےلکھےجس کےعوض انہیں ایک ہزارروپے ملے۔ اس کے بعد انہوں نے۱۹۵۹ءمیںآئی فلم کاغذ کے پھول کیلئے’وقت نے کیا کیا حسیں ستم‘جیسا سدا بہار نغمہ تحریرکیا۔ اس کے بعد ۱۹۶۵ء میںفلم ’حقیقت‘ کےنغموںبالخصوص ’کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو‘ کی کامیابی کے ساتھ  وہ  کامیابی کی بلندیوں پر پہنچے گئے۔کیفی اعظمی نےفلم’گرم ہوا‘کی کہانی ڈائیلاگ اور اسکرین پلےلکھےجس کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔فلم  ’ہیررانجھا‘ کے منظوم  مکالموں کے ساتھ ساتھ انہوں  نے شیام بینیگل کی فلم ’منتھن‘کی  اسکرپٹ بھی لکھی۔ تقریباً ۷۵؍برس کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجوا ں میں ہی رہنےکافیصلہ کیا۔ اپنے خوبصورت نغموںسے سامعین کو مسحور کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی ۱۰؍ مئی ۲۰۰۲ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

kaifi azmi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK