عمران خان اس الیکشن کے وقت یا اس سے بہت عرصہ قبل تک میدان میں موجود نہیں تھے، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں وہ کئی ماہ سے پھانسی والی کوٹھری میں قید تھے، لیکن شہباز حکومت عوام سے اتنی بے تعلق تھی اور دولت پانے اور اسے اپنے حمایتیوں میں بانٹنے میں اتنی مصروف تھی کہ اسے یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ہر دن کے ساتھ پاکستانی ان کے نام سے چڑنے لگے تھے۔
یہ حقیقت عا م طور پر مانی جاتی رہی ہے کہ روس کے انتشار کے بعد دنیا عام طور پر یک طاقتی ہو کر ر گئی ہے، امریکہ دنیا کی واحد طاقت ہے اور اب دنیا میں اس کی رائے اور اس کی مرضی کے بغیر کسی بھی ملک کی کسی بھی سرکار کا زندہ رہنا بہت مشکل ہوگا اور دنیا نے یہ تماشہ دیکھا بھی، لیکن یہ معاملہ صرف بیسویں صدی تک محدود رہا، اکیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی دنیا نے یہ دیکھا کہ امریکہ دنیا کی واحد طاقت والا ملک نہیں رہا،آج یہ بات امریکہ میں کی جا رہی ہے کہ چین نے امریکہ کا سارا غرور توڑ دیا ہے۔ چین ایشیا ہی میں نہیں ساری دنیا میں سب سے بڑی عسکری اور معاشی طاقت ہے، یہ حقیقت سر ا ٹھا کر بول رہی ہے کہ آج پاکستان میں تمام بندھن توڑ کر وزیر اعظم بننے تک حالات بہت کچھ بدل سکتے ہیں ، پاکستان اور ترکی کے بعض معاملات میں بہت کچھ مماثلتیں ہیں ، ترک کی حکومت میں فوج کا بہت عمل دخل تھا، کہ فوج روایتی طور پر امریکہ پرمنحصر تھی اور ملکی معاملات میں بھی وہ امریکہ کی قیادت ہی قبول کرتی تھی، طیب اردگان کو اس کی وجہ سے شروع میں کافی زحمت ہوئی، لیکن طیب اردگان کی شخصیت اتنی عظیم تھی کہ فوج کا بہت بڑا حصہ ان کے ساتھ ہو گیا، پاکستان میں تو فوج ماشاء اللہ پوری طرح سیاست پر قابض تھی لیکن جب رفتہ رفتہ عمران خان کی بطور سیاسی رہنمائی غالب آنےلگی تو پاکستانی فوج کا بھی نوے فیصد حصہ ان کی رہنمائی کو ماننے لگا، اس وقت مبینہ طور پر فوج کے درجن دو درجن افسران کے سوا کوئی بھی فوجی افسر سربراہ جنرل عاصم منیر کے ساتھ نہیں ہے، ایک اور دلچسپ مماثلت ہے، ترکی کےموجودہ صدر طیب ار دگان حافظ قرآن بھی ہیں ۔ گرو پ گوگل سرچ پرجائیے اور طیب اردگان کی قرأت سنیں توآپ کو سمجھ میں آجائے گا وہ بہت خوش الحانی سے قرآن پڑھتے ہیں جنرل عاصم منیر کے بارے میں ایسی کوئی بات تو نہیں لیکن وہ حافظ بہرحال ہیں ۔
اس وقت ایشیا ہی میں نہیں ساری دنیا میں طیب اردگان اور عمران خان سیاسی مثال ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو سر اٹھا کر بول رہی ہے،پاکستان کی صورت حال ایسی ہے کہ عمران خان شاید ہی فوراً وزیر اعظم نہ بن سکیں ۔ ان پر جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ دو سو سے کچھ کم مقدمے ہیں ،الیکشن کی کامیابی کے بعد بھی ان مقدمات کے فیصل ہونےمیں کچھ وقت لگے گا، لیکن حقیقت بہر حال سامنےہے۔عمران خان اس الیکشن کے وقت یا اس سے بہت عرصہ قبل تک میدان میں موجود نہیں تھے، جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں وہ کئی ماہ سے پھانسی والی کوٹھری میں قید تھے، لیکن شہباز حکومت عوام سے اتنی بے تعلق تھی اور دولت پانے اور اسے اپنے حمایتیوں میں بانٹنے میں اتنی مصروف تھی کہ اسے یہ معلوم ہی نہ ہو سکا کہ ہر دن کے ساتھ پاکستانی ان کے نام سے چڑنے لگے تھے۔ وہ ان کا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے ، اس لئے عمران خان کے سامنے نہ ہوتے ہوئے بھی ان کے خلاف سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے عوام کو شریفوں اور زر داریوں کے نام سے چڑ ہوگئی تھی،لیکن یہ عمران خان کا کرشمہ ہی کہئے کہ اس پاکستان میں جہاں مسجدوں تک پر بم داغے جاتے ہوں اور جہاں چھوٹے چھوٹے بچوں کوبھی بے دھڑک بھون دیا جاتا تھا، وہاں ٹھیک طالبان جیسی شدت پسندی موجود تھی، عمران خان جیسے تیسے کرکے عوام کو یہ پیغام پہنچاتے رہے کہ وہ احتجاج کریں ، یہ ان کا آئینی حق ہے لیکن تشدد کو ذرا بھی سامنے نہ آنے دیں ، عمران خان کا یہ پیغام بھی لوگوں نے مان لیا کہ حکومت اور برسر اقتدار طبقہ یہی چاہتا ہےکہ عوم بے قابو ہوجائیں اور وہ مزید طاقت سے انہیں کچل سکیں ، عمران خان نے ان کی یہ سازش بھی ناکام بنا دی۔
عمران خان نے اس الیکشن میں اپنی عدم موجودگی کے باوجود کچھ یہی روح پھونکی تھی کہ عوام کا رویہ بہت بدلنے بلکہ مثبت ہونے لگا۔ مثال کے طور پر اس الیکشن میں پاکستان کی عورتوں نے جو حصہ لیا وہ بھی بے نظیر ہے، ہم نہیں سمجھتے کہ آج تک پاکستان میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد سامنے آئی ہو، یہ خواتین کسی پولیٹیکل گھرانوں سے نہیں آئی تھیں ، یہ سب انتہائی تعلیم یافتہ تھیں اور مختلف شعبوں سے وابستہ تھیں ، ان میں سے کچھ انسانی حقوق کی بعض تنظیموں سے وابستہ تھیں لیکن ان کا کوئی سیاسی پس منظر نہ تھا، یہ خواتین کبھی کسی عوامی ایجی ٹیشن کا حصہ نہیں بنی تھیں ۔حیرت کی بات ہے کہ ان خواتین میں صرف نوجوان خواتین نہیں بہت سے بوڑھی عورتیں بھی تھیں ، ایک امیدوار کی عمر تو سترسال سے بھی زیادہ تھی جن کا نام ریحانہ ڈار تھا۔ آج پاکستانی خواتین کو معلوم ہوا کہ ان میں وہ قائدانہ صلاحیتیں تھیں جن سے دنیا ناآشنا تھی، ہم اسے تمام پاکستانی خواتین کے لئے ایک نیک شگون مانتے ہیں ۔
یہی نہیں عمران خان نے اور ان کی خالص عدم تشدد پر مبنی تحریک نے پاکستان میں کئی معاشرتی تبدیلیاں بھی لائی ہیں ۔ پاکستان میں سنی اور شیعہ طبقات کا جو اتحاد ہے اسے سوچا تو جا سکتا تھا، لیکن سامنے نظر آنا ایک خواب کی حیثیت رکھتا تھا، آج پاکستان میں یوں تو بہت سے سنی دیو بندی اہل حدیث اور دوسرے لوگ تھے، لیکن ایک بہت ترقی پسند شیعہ گروپ بلکہ سیاسی جماعت وحدت المومنین گروپ شامل ہے ، اس گروپ کے مولانا ناصرعباس وہ واحد سیاسی لیڈر تھےجنہوں نے عدالت کی مدد لے کر عمران خان سے ملاقات کی تھی اور ان سے کہا کہ ان کی پارٹی ان کیلئے حاضر ہے، اس مدد کی وجہ سے عمران خان کا ایک مسئلہ حل ہو گیا، سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے آزاد ممبران وحدت المومنین کے ممبر بن جائیں گے اور عمران خان کو عورتوں اور اقلیتوں کی ریزرو سیٹیں مل جائیں گی اور ’عمران خان کی پارٹی‘ قومی اسمبلی میں دوتہائی سے بھی زیادہ سیٹوں پر قابض ہوجائے گی۔
ایک بات جان لیجئے کہ عمران خان کو تھوڑا جم جانے دیجئے اس کے بعد عمران خان غزہ اور فلسطین کے بارے میں جو آواز اٹھائے گا اسے اب کوئی کاٹ نہیں پائے گا،امریکہ بھی نہیں ۔ حال ہی میں ایک امریکن خفیہ ایجنسی نے عرب عوام سے ووٹنگ لی ہے کہ وہ دنیا کے کس لیڈر سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو سوفیصد عوام نے کہا کہ وہ صرف عمران خان سے بات کرنا چاہتے ہیں ۔شہباز خان کی نااہل سرکار نے جس میں مولانا فـضل الرحمٰن ’ جغادری ‘ لیڈر بھی تھے ایک بار بھی غزہ کا نام نہیں لیا جبکہ وزیراعظم بننے سے پہلے ہی عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہا کہ اگر و ہ اسرائیل کو منظور کرلیں تو وہ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ سب وہ حقیقتیں ہیں جو سر اٹھاکر بول رہی ہیں ۔