Inquilab Logo

بھارت جوڑو کے ساتھ ہی ملک میں تین بڑی یاترائیں ان سےعوام کو کتنا فائدہ؟

Updated: January 23, 2023, 5:11 PM IST | MUMBAI

راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی’بھارت جوڑو یاترا‘ جہاں اپنے اختتام پر پہنچ چکی ہے اور اب دوسری مہم یعنی ’ہاتھ سے ہاتھ جوڑو‘ کے مرحلےمیں داخل ہونے والی ہے، وہیں بہار میں وزیراعلیٰ نتیش کمار کی ’سمادھان یاترا‘ کے ساتھ ہی پرشانت کشور کی ’جن سوراج پد یاترا‘ بھی رواں دواں ہے۔ ان کے علاوہ مختلف ریاستوں میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی ذیلی ’یاترائیں‘ بھی چل رہی ہیں۔ زیر نظر کالموں میں انقلاب نے ان کا جائزہ لینے اور ان یاتراؤں کے مقاصد کوسمجھنے کی کوشش کی ہے

When `Bharat Jodo Yatra` reached Jammu, former Chief Minister of the state and current Member of Parliament Farooq Abdullah welcomed it; Photo: INN
’بھارت جوڑو یاترا‘ جموں پہنچی تو ریاست کے سابق وزیراعلیٰ اورموجودہ رکن پارلیمان فاروق عبداللہ نے اس کااستقبال کیا; تصویر:آئی این این

ان دنوں صرف ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک بھی راہل گاندھی کی قیادت میں جاری کانگریس کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ موضوع بحث ہے۔۷؍ ستمبر۲۰۲۲ء کو تمل ناڈو کی کنیاکماری سے شروع ہونےوالی اس یاترا کا شیڈول کے مطابق ۱۵۰؍ دنوں میں ۳۵۷۰؍کلومیٹر کی یاترا پوری ہونے کے بعد۳۰؍ جنوری کو کشمیر کے سری نگر میں ایک عوامی اجلاس کا ہونا ہے۔ اب تک اس یاترا نے  ۱۰؍ ریاستوں  کے ۵۲؍اضلاع   کااحاطہ کیا ہے۔
 ہندوستان ویسے بھی  ستیہ گرہ اور سیاسی یاتراؤں کا ملک ہے۔ یہاں پر ’چمپارن ستیہ گرہ‘ اور ’ڈانڈی یاترا‘ کو جوقبولیت ملی  ہے اور اس کے جو اثرات رہے ہیں، وہ  بعد کے برسوں میں بھی نظر آتے رہے ہیں۔ اس دوران ان یاتراؤں سے مثبت اور منفی دونوں طرح سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں۔۱۹۹۰ء میں ۲۵؍ ستمبر سے ۳۰؍ اکتوبر کے دوران لال کرشن اڈوانی کی ’رام رتھ یاترا‘ نے جہاں ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کی کوشش کی، وہیں راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘  کے ذریعہ اُسی خلیج کو پُر کرنے کی کوششیں کی جارہی  ہیں۔ اس درمیان  ۱۹۸۳ء میں چندر شیکھر، ۲۰۰۳ء میں وائی ایس راج شیکھر ریڈی، ۲۰۱۴ء میں چندرابابو نائیڈو، ۲۰۱۷ء  میں وائی ایس جگن موہن ریڈی اور ۲۰۱۷ء ہی میں کانگریس کے سینئر لیڈر دگ وجے سنگھ کی یاترائیں بھی موضوع بحث رہی ہیں۔ 
 لیکن ان تمام یاتراؤں میں راہل گاندھی کی’بھارت جوڑو یاترا‘ کو عوام میں جس طرح کی مقبولیت ملی ہے، وہ کسی اور یاترا کے حصے میں نہیں آئی ۔ اس سے سیاسی فائدہ ہوگا یا نہیں، اس سے قطع نظر اول دن سے راہل گاندھی کو عوام کی بھرپور محبت ملتی رہی ہے۔ اسی حوالے سے راہل گاندھی نے اپنی یاترا کے ساتھ راجستھان پہنچنے پر کہا تھا کہ’’ میںنفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے آیا ہوں۔‘‘گزشتہ دنوں جموں میں انہوں نے ایک عوامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عوام  سے مجھے جو محبت مل رہی ہے، وہی میں عوام میں تقسیم کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
 کانگریس اور راہل گاندھی نے بار بار اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ان کی ’بھارت جوڑویاترا‘ کا مقصد خالص انتخابی اور سیاسی نہیں ہے ،اس کے باوجود اس کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ انتخابی نتائج ہی پر مرکوز کرکے  دیکھا جارہا ہے۔  اس حوالے سے بھی دیکھا جائے تو یقینی طورپر کانگریس کو اس کافائدہ مل سکتا ہے۔ رواں سال میں جن ۱۰؍ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے  ہیں اور ان میں جن جن ریاستوںسے یہ ’یاترا‘ گزری ہے، ان میں کرناٹک ، تلنگانہ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور جموںکشمیر ہے۔ موجودہ حالات کا سیاسی جائزہ لیا جائے تو یہ بات بہ آسانی کہی جاسکتی ہے کہ اس یاترا کی وجہ سے کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور جموں کشمیر میں کانگریس کی حالت پہلے سے کہیں  بہتر ہے۔ 
 اس یاترا کی کامیابی کو اس حوالے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ اس میں ایسی کئی اہم شخصیات نے شرکت کی ہے، جنہیں عام طور پر کانگریس کا حامی نہیں قرار دیاجاسکتا یا کم از کم اس سے قبل انہوں نے کبھی کھل کر کانگریس کی حمایت نہیں کی ہے ۔ اسی طرح زمینی سطح پر کام کرنے والی کئی تحریکیں اور تنظیمیں بھی ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں شامل ہو رہی ہیں یا اس کی تائید کر رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سول سوسائٹی  سے تعلق رکھنے والے ۲۰۰؍ سے زیادہ اراکین نے کانگریس کی ’بھارت جوڑو یاترا‘کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے۔ بلاشبہ کانگریس نے ان افراد، تنظیموں اور تحریکوں سے یاترا میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے لیکن اس اپیل کو شرف قبولیت بخشنا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ فاروق عبداللہ، سنجے راؤت، آدتیہ ٹھاکرے، کمل ہاسن، پرکاش راج اور    ایم کےاسٹالن جیسی اہم سیاسی شخصیات کے ساتھ ہی رگھورام راجن،یوگیندر یادو، ارونا رائے،مرنال پانڈے، ابھیجیت سین گپتا،سیدہ سیدین حمید،گنیش دیو، دھرم ویر گاندھی، سری دھر رادھاکرشنن، انل بھاردواج، سورا بھاسکر، ریاسین ، پوجا بھٹ، تشار گاندھی، روہت ویمولا کی والدہ، آنجہانی گوری لنکیش کی بہن اور والدہ کے ساتھ ہی کئی اہم نامی گرامی شخصیات بھی اس یاترا میں شریک ہو چکی ہیں۔ ان کی شرکت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ان کی شمولیت کو کہیں نہ کہیں کانگریس کی حمایت   سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔سمادھان یاترا‘ کے دوران وزیراعلیٰ نتیش کمار نے ایک اسکول کا بھی دورہ کیاہار میں ان دنوں ایک ساتھ تین یاترائیں چل رہی ہیں۔ ایک تو ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی ذیلی یاترا ہے جس کا روٹ تقریباً ۱۲۰۰؍ کلومیٹر ہے۔ اسی کے ساتھ وزیراعلیٰ نتیش کمار کی ’سمادھان یاترا‘  اورپرشانت کشور کی ’جن سوراج یاترا‘ ہے۔ ’سمادھان یاترا‘ وزیراعلیٰ نتیش کمار کی ۱۴؍ویں یاترا ہے۔اس  میں وہ اپنے کئی کابینی ساتھیوں کے علاوہ افسران کی ایک بڑی ٹیم لے کر چل رہے ہیں تاکہ جگہ پر ہی عوامی مسائل کا ’سمادھان‘ ہوسکے۔ ابتدائی دنوں میں ۲۹؍ جنوری تک کا شیڈول جاری کیا گیا تھا لیکن ابھی تین چار دن قبل ۷؍ فروری تک شیڈول جاری کیاگیا ہے۔ آئندہ دنوں میں اس میں مزید توسیع کا بھی امکان ہے۔ اس یاترا کا بنیادی مقصدیہی بتایا گیا ہے کہ بہار کے مختلف اضلاع میں عوام جن مسائل سے دو چار ہیں، ان کی نشاندہی کی جائے اور فوری طور پر اُن کا حل بھی تلاش کیا جائے۔ اس کیلئے تین نکاتی ایجنڈہ ترتیب دیا گیا ہے۔
 اول : حکومت کے جو منصوبے جاری ہیں، ان کا جائزہ لینا
 دوم:ان کے عمل میں اگر کہیں کوئی رکاوٹ ہے تو اس کا جائزہ لینا او ر  اس کیلئے ذمہ دارافسران کو اس سے آگاہ کرنا
 سوم: ضلعی سطح پر خطے کے مسائل کا جائزہ لینا اور ان پر قابو پانے اقدامات کرنا۔
 نتیش کمار  نے ۲۰۰۵ء سے اب تک اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں ریاست میں نیائے یاترا (انصاف یاترا)،وکاس یاترا(ترقی یاترا)، دھنیہ واد یاترا (شکریہ یاترا)، پرواس یاترا(پیدل یاترا)، وشواس یاترا(اعتماد یاترا)، ادھیکار یاترا(حق یاترا)،سنکلپ یاترا(عزم یاترا)، سمپرک یاترا (رابطہ یاترا)،  نشچے یاترا(یقین یاترا)، سمیکشا یاترا(جائزہ یاترا)، جل جیون ہریالی یاترا اور سماج سدھار  یاترا نکال چکے ہیں۔
 نتیش کمار کی یہ یاترا تین فروری سےان خطوں میں داخل ہوگی جنہیں مسلم اکثریتی کہا جاتا ہے۔ شیڈول کے مطابق  ۳؍ فروری کو ارریہ میں وزیراعلیٰ کا قافلہ داخل ہوگا۔ اس کے بعد ۴؍ اور ۵؍ فروری کو وہ بالترتیب کشن گنج اور کٹیہار کا دورہ کرے گا۔  ان علاقوں میں نتیش کمار کی یاترا پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے کیونکہ گزشتہ اسمبلی انتخابات کے دوران ان علاقوں  میں ایم آئی ایم کا کافی زور  دیکھا گیا تھا۔  یہ اور بات ہے کہ ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر منتخب ۵؍ ایم ایل ایز میں سے۴؍ ایم ایل ایز اب آر جے ڈی کا حصہ بن گئے ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین کے پاس  فی الحال اخترالایمان کی صورت میں ایک ہی رکن  ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نتیش کمار اب یہاں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔اس یاترا میں دو مرتبہ یعنی ۲۳؍ جنوری سے ۲۷؍ جنوری  اور ۳۰؍ سے ۳۱؍ جنوری کا وقفہ بھی رہے گا۔ 
  جنتادل متحدہ کے قد آور  لیڈر اور سابق رکن اسمبلی کوشل یادو نے ’سمادھان یاترا‘ کی اہمیت و افادیت بتاتے ہوئے کہا کہ ’’وزیراعلیٰ کی اس یاترا سے کچھ ادھورے کام بھی پورے ہوجائیں گے جن پر کسی وجہ سے حکومت کی توجہ نہیں دی تھی۔‘‘ اس موقع پرجے ڈی یو کے ضلع سربراہ سلمان راغب  نے کہا کہ  یہ یاترا نہایت زمینی انداز میں کی جارہی ہے اور اب تک اس سے کافی فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کی سابقہ یاتراؤں کی طرح اس سے بھی ریاست کو فائدہ پہنچے گا۔
 ۲۰؍ جنوری کو وزیراعلیٰ ’سمادھان یاترا‘ کے دوران اپنی ٹیم کے ساتھ بھوجپور ضلع پہنچے تو ان کے ساتھ نائب وزیراعلیٰ اور ضلع کے نگراں وزیر تیجسوی یادو بھی موجود تھے۔ اس دوران جب وزیراعلیٰ کا قافلہ آگے بڑھا تو  وہاں راستے کے دونوں جانب موجود افراد میں سے ایک کسان زور زو ر سے اپنے مسائل بیان کرنے لگا۔   اس نے ایک ہی سانس میں اپنے کئی مسائل گنوادیئے۔ وزیراعلیٰ جب رُک کر اس کے مسائل کو سننے لگے تو اس نے کہا کہ ’’سر ! آپ وزیراعظم بنیں گے ۔‘‘ پھر وہ وزیراعلیٰ کو دعائیں دینے لگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK