Inquilab Logo

اشوک کمار فلموں میں ہیرو بننےکیلئے تیار نہیں تھے لیکن ایس مکھرجی اور ہمانشو رائے کی بات ٹال نہیں سکے

Updated: March 07, 2023, 11:51 AM IST | anees amrohvi | Mumbai

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب ان کا نام کمد لال تھا اور وہ ہمانشو کی فلم کمپنی ’ بمبئی ٹاکیز‘ کی لیباریٹری میں اسسٹنٹ ملازم تھے ، دریں اثنا زیرتکمیل فلم ’جیون نیا‘ کے ہیرو نجم الحسن کو نکال کر دیویکا رانی کے مقابل اشوک کمار کو ہیرو بنا دیا گیا

Ashok Kumar`s film `Kisamat` was a huge hit and set several records of success
اشوک کمار کی فلم ’قسمت‘ کافی پسند کی گئی اور اس نے کامیابی کے کئی ریکارڈ بنائے تھے

 ؍ ۱۳اکتوبر ۱۹۱۱ء کو بھاگلپور (بہار) میں ایک وکیل کنجی لال گانگولی کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا تو ماں گوری رانی دیوی اور باپ نےاُس کا نام کمدلال کنجی لال گانگولی رکھ دیا۔ کمد کے دادا کا نام ماکھن لال تھا اور وہ اسکول میں ماسٹر تھے جبکہ والدہردا (مدھیہ پردیش) میں وکیل تھے۔ وکیل صاحب کا خاندان اصلاً تو بنگالی تھالیکنمدھیہ پردیش میں آباد تھا۔ کاروباری سلسلے میں کنجی لال گانگولی کا خاندان بھاگلپور میں قیام پذیر تھا۔ کمدلال بچپن میں بہت شرمیلا اور پُرسکون سا بچہ تھا۔ وہ اپنے تین بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
  کمد نے الہ آباد یونیورسٹی سےگریجویشن کی سند حاصل کی اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کلکتہ کے پریسی ڈینسی کالج میں وکالت میں داخلہ لے لیا۔ دوران تعلیم ہی کمد کی دوستی ششدھر مکھرجی سے ہو گئی جو بعد میں اس طرح رشتہ داری میں تبدیل ہوئی کہ کمدنے خود سے پانچ سال چھوٹی اپنی اکلوتی بہن ستی رانی کی شادی ششدھر  سے کرا دی۔یہی ششدھر مکھرجی، بعد میں ہمانشو رائے کی فلم کمپنی اور اسٹوڈیو ’بمبئی ٹاکیز‘ میں سائونڈ ڈپارٹمنٹ میں ملازم ہو گئے۔ ششدھر، جو بعد میں ایس مکھرجی کے نام سے مشہور ہوئے، سائونڈ کے شعبے میں ملازمت کے ساتھ ہی ہمانشو رائے اور دیویکارانی کے صلاح کار بھی تھے۔ ۱۹۳۴ء میں ششدھر نے اپنے سالے کمدلال گانگولی کو بھی بمبئی بلا لیا اور بمبئی ٹاکیز کی لیباریٹری میں بطور اسسٹنٹ ملازم کرا دیا۔
 ہمانشو رائے اُن دِنوں اُس وقت کے مشہور اداکار نجم الحسن کو ہیرو لے کر ایک فلم ’جیون نیّا‘ بنا رہے تھے جس کی ہیروئن ہمانشو رائے کی بیوی دیویکا رانی تھیں۔ اس سے قبل نجم الحسن بمبئی ٹاکیز کی فلم ’جوانی کی ہوا‘ (۱۹۳۵ء) میں بھی دیویکارانی کے ہیرو بن کر آچکے تھے۔ ابھی یہ فلم ’جیون نیّا‘ تھوڑی سی ہی بنی تھی کہ نجم الحسن سے دیویکا رانی کا عشق کچھ اِتنی شدّت اختیار کر گیا کہ دونوں بمبئی سے فرار ہوکر کلکتہ چلے گئے۔ ہمانشو رائے کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اپنے معاون اور قریبی دوست ششدھر کو ساتھ لے کر کلکتہ پہنچ گئے اور کسی طرح بہلا پھسلاکر دیویکارانی کو بمبئی واپس لے آئے۔ بمبئی آکر انہوںنے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ نجم الحسن کو فلم اور اسٹوڈیو کی ملازمت، دونوں سے علاحدہ کر دیا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ فلم کا ہیرو کس کو بنایا جائے۔ اسی اُدھیڑ بُن میں ان کی نظر لیباریٹری میں کام کر رہے کمدلال گانگولی پر پڑی اور انہوںنے ششدھر مکھرجی سے مشورہ کرکے کمد  کو فلم کا ہیرو بنانے کا اعلان کر دیا۔ کمدبہت کسمسائے اور گھبرائے مگر ہمانشو رائے فیصلہ کر چکے تھے۔
  کمدلال کو فلم ’جیون نیّا‘ کا ہیرو بنا دیا گیا تو ان کے سامنے بڑی پریشانی یہ تھی کہ وہ کس طرح فلم کی ہیروئن اور اسٹوڈیو کی مالکن دیویکارانی کے سامنے اظہارِ عشق کریں۔ دیویکارانی نے پہلا کام تو یہ کیا کہ کمد کو ایک نیا فلمی نام اشوک کمار دیا اور  جب کیمرے کے سامنے دیویکارانی کی موجودگی میں اشوک کمار کے پسینے چھوٹنے لگے تب انہوںنے ان کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں اداکاری کے کئی نکات سمجھائے۔ انہوںنے ہی اشوک کمار کو آنکھوں کا استعمال کرنا سکھایا اور مکالموں کی ادائیگی کے بارے میں بتایا۔ ایک طرح سے اشوک کمار کی اداکاری کی تعلیم بمبئی ٹاکیز میں ہی ہوئی۔ اس درمیان ہمانشو رائے اور دیویکارانی جب کوئی فلم دیکھنے جاتے تھے تو اشوک کمار کو بھی ساتھ لے کر جاتے تاکہ وہ اداکاری کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سیکھ سکیں۔
 اشوک کمار کی اداکاری والی پہلی فلم’جیون نیّا‘ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس کے فوراً بعد اشوک کمار کی اداکاری میں دوسری فلم ’اچھوت کنیا‘اُسی برس ۱۹۳۶ء میں ریلیز ہوئی۔ اس  میں بھی دیویکارانی اُن کی ہیروئن تھیں۔ فلم ’اچھوت کنیا‘کیلئے جب اشوک کمار کو دہرانے کی بات ہوئی تو ہمانشو رائے کی اس فلم کے جرمن ڈائریکٹر فرانز آسٹن نے یہ کہہ کر اُن کو نامنظور کر دیا کہ ان کے جبڑے بڑے اور چوکور ہیں اور عمر میں بہت چھوٹے ہونے کے علاوہ چہرے پر نسوانیت بھی ہے۔ انہوں نے اشوک کمار سے کہا تھا کہ تم واپس کلکتہ جاکر اپنی وکالت کی تعلیم مکمل کیوں نہیں کرتے؟   فلم ’اچھوت کنیا‘  موضوع کے اعتبار سے بے حد کامیاب ہوئی اور ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں میل کا پتھر ثابت ہوئی لہٰذا اشوک کمار کو بھی اس فلم سے کامیابی اور شہرت ملی اور وہ پوری طرح سے فلموں میں اداکاری کو ہی اپنا پیشہ بنا بیٹھے۔ اس فلم میں اشوک کمار نے ایک گانا بھی اپنی آواز میں گایا تھا، جس کے بول تھے ’’میں بَن کی چڑیا بن کے، بَن میں بولوں رے۔‘‘
 فلم ’اچھوت کنیا‘ نے کئی شہروں میں سلور جبلی منائی۔ اس فلم کی تعریف رابندر ناتھ ٹیگور اور پنڈت نہرو نے بھی کی تھی۔ اس میں اشوک کمار ایک برہمن خاندان کا لڑکا ہے جو ایک ہریجن اچھوت لڑکی دیویکارانی سے محبت کرتا ہے۔ اس دور کے سیاسی منظرنامہ میں بھی فلم کے اس موضوع کو عوام نے بے حد پسند کیا اور ایک طرح سے اس فلم کے ذریعہ قومی یکجہتی کا پیغام لوگوں کے دلوں تک پہنچا۔ اس کی کامیابی کے بعد اشوک  اور دیویکا کی جوڑی کافی مقبول ہوئی۔  بعد ازاں  ان دونوں کو  لے کر بمبئی ٹاکیز نے کئی فلمیں بنائیں۔ ۱۹۳۷ء میں فلم ’عزت‘ کی نمائش ہوئی اور اُسی برس فلم ’ساوتری‘ بھی نمائش کیلئے پیش کی گئی۔ ۱۹۳۸ء میں فلم ’نرملا‘ ریلیز ہوئی۔ ان تمام فلموں کو عوام نے بے حد پسند کیا مگر اس پسندیدگی کا زیادہ کریڈٹ فلم کی ہیروئن دیویکارانی کو ہی گیا کیونکہ وہ نہ صرف بہت پُرکشش شخصیت کی مالک تھیں۔ ان کی پرورش کافی حد تک ملک سے باہر ہوئی تھی اور وہ ہمانشو رائے کی بیوی اور بمبئی ٹاکیز کی مالکن بھی تھیں۔ انہوںنے فلمسازی کے مختلف شعبوں میں باقاعدہ کام کرکے بہت کچھ سیکھا بھی تھا اور ان کو خود کو پردے پر پیش کرنے کا ہنر بھی بخوبی آتا تھا۔
 ۱۹۳۸ء میں اشوک کمار کی شادی شوبھا نامی  ایک لڑکی سے ہو گئی  جن کا خاندان ان کے پڑوس ہی میں آباد تھا۔ یہ خاندان دھنباد کا رہنے والا تھا، جو بھاگل پور میں مقیم تھا۔ اُس وقت اشوک کمار فلم ’وچن‘ میں کام کر رہے تھے۔ شادی کے بعد وہ شوبھا کو بمبئی لے آئے اور ایک ٹیوشن لگاکر اُن کو تھوڑی بہت تعلیم دلوائی۔ شوبھا اور اشوک کمار کو تین لڑکیاں، بھارتی، روپا، پریتی اور ایک لڑکا اروپ کمار پیدا ہوئے۔
 ۱۹۳۹ء میں فلم ’کنگن‘ اور ۱۹۴۰ء میں فلم ’بندھن‘ کے بعد ۱۹۴۱ء میں نمائش کیلئے پیش کی گئی فلم ’جھولا‘ میں  اشوک کمار کی ہیروئن لیلا چٹنس بنیں۔ اس نئی جوڑی کو بھی کافی سراہا گیا۔ ان کی اِن تینوں فلموںنے سلور جبلی منائی اور یہ بات  ملکمیں پہلی بار ہوئی تھی۔ اب اشوک کمار کی اداکاری میں بھی پختگی آگئی تھی اور وہ ایک باصلاحیت اداکار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب  ہو گئے تھے۔ ۱۹۴۳ء میں اشوک کمار نے بمبئی ٹاکیز کی فلم ’قسمت‘ میں ایک الگ طرح کا کردار ادا کیا اور ماضی کے روایتی ہیرو کے انداز و اطوار سے بالکل الگ اپنی  پہچان بنائی۔ یہ ان کا پہلا نگیٹیو کردار تھا۔ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی۔ فلم ’قسمت‘ کلکتہ کے راکسی تھیٹر میں مسلسل چار برس تک چلی تھی۔
 ۱۹۴۰ء میں ہمانشو رائے کے انتقال کے بعد بمبئی ٹاکیز کی ساری ذمہ داری دیویکارانی پر آگئی۔ پھر انہوںنے اشوک کمار کو ایک صلاح کار کی حیثیت دے دی۔ ۱۹۳۵ء سے ۱۹۵۴ء کے درمیان صرف بمبئی ٹاکیز نے ہی تقریباً ۳۴؍ فلمیں بنائیں جن میں ۲۱؍فلموں میں اشوک کمار ہی ہیرو تھے۔ فلم ’قسمت‘ کی بے پناہ کامیابی کے بعد ۱۹۴۹ء میں بمبئی ٹاکیز کی فلم ’محل‘ آئی جس کے کہانی کار، ہدایتکار اور اسکرپٹ رائٹر کمال امروہی تھے۔ فلم ’محل‘ تک آتے آتے بھی اشوک کمار کی اداکاری میں ایک سپاٹ پن سا  تھا۔ بمبئی ٹاکیز سے وابستہ ہونے کی وجہ سے کمال امروہی سے ان کی دوستی بھی تھی لہٰذا امروہی نے ان سے کہا کہ اِس فلم’محل‘ میں وہ اشوک کمار کو کچھ مختلف انداز میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر کمال کو اشوک کمار کے مکالموں کی ادائیگی پسند نہیں تھی لہٰذا انہوں نے فلم کی شوٹنگ رُکوا دی اور تین ماہ تک وہ اشوک کمار کے ساتھ فلم کے مختلف مناظر پر اور کہانی میں اشوک کمار کے کردار کے بارے میں تبادلۂ خیالات کرتے رہے اور آخرکار جب فلم کا وہ کردار اشوک کمار کے دل ودماغ پر حاوی ہو گیا، تب  انہوں نے فلم کی شوٹنگ دوبارہ شروع کی اور تقریباً دس ماہ میں ہی فلم مکمل کرکے نمائش کیلئے پیش کر دی۔ اس فلم میں اشوک کمار کی انگلیوں میں دبی ہوئی سگریٹ کا جلتے رہنا اور اس کے جلنے سے اشوک کمار کا چونکنا اور فلم میں اشوک کمار کا چلنے کا انداز، یہ سب فلم کی خوبی بن گئی تھیں۔ یہ فلم ہندوستان کی پہلی سسپنس تھرلر فلم ثابت ہوئی اور بے پناہ کامیابی حاصل کی۔ اس فلم سے نہ صرف اشوک کمار کو ایک نئے اداکار کے طور پر پہچان ملی بلکہ فلم کی ہیروئن مدھوبالا بھی اس فلم سے بڑی اداکارائوں کی صف میں  شامل ہو گئیں اور فلم کے ٹائٹل گیت ’’آئے گا، آئے گا، آئے گا آنے والا‘‘ کو آواز دے کر لتامنگیشکر بھی فن اور شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔
Eفلم کی دوسری اور آخری قسط آئندہ ہفتے ملاحظہ کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK