Inquilab Logo

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

Updated: February 07, 2020, 9:12 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

ہم ’’مرے دیس کی دھرتی سونا اگلے ‘‘ میں  بھی پورا پورا یقین رکھتے ہیں مگرایک رپورٹ کے مطابق ایک ہزار افراد پر کم سے کم ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے مگر ہندوستان میں ۱۴۵۶؍ افراد پر ایک ڈاکٹر ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شاعر کے خواب کی تعبیر مودی جی کے دور اقتدار میں تلاش کرنا کتنا غلط ہے۔

نرملا سیتا رمن بجٹ پیش کرنے سے قبل۔ تصویر: پی ٹی آئی
نرملا سیتا رمن بجٹ پیش کرنے سے قبل۔ تصویر: پی ٹی آئی

خاتون وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے ۷۳؍ برسوں میں کی گئی ۹۱؍ بجٹ تقریروں میں سب سے طویل تقریر کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا۔ آخر کے ۲؍ صفحے وہ نہیں پڑھ سکیں کہ سکت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ ۲؍ گھنٹے ۴۱؍ منٹ کی طویل تقریر میں  انھوں نے سنسکرت، تمل اور کشمیری کے کچھ اشعار بھی پڑھے۔ اب تک بجٹ کی تقریر کے دوران زیادہ تر اُردو ہی کے اشعار پڑھے جاتے تھے۔ نرسہما رائو کے دور میں جب ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک میں  معاشی آزاد روی کا تجربہ کرنے کا اعلان کیا تو اُردو کے ہی شعروں  سے اپنی تقریر میں جان پیدا کی تھی۔ مگر اس بار نرملا سیتا رمن سے ایک الگ قسم کا کرشمہ ہوا۔ محترمہ نے کشمیری شاعر دینا ناتھ کول ’’ ندیم ‘‘ کی ایک نظم پڑھی جس کا مطلب ہے کہ ’’ ہمارا وطن کھلتے ہوئے شالیمار باغ جیسا ہے۔ ہمارا وطن ڈل جھیل میں  کھلتے کنول جیسا ہے۔ نوجوانوں  کے گرم خون جیسا ہے میرا وطن تیرا وطن ہمارا وطن‘‘۔ ’’ندیم‘‘ کول کا تخلص ہے، اس تخلص سے جہاں  یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بجٹ تقریر میں  اُردو کا شعر نہ پڑھے جانے کے باوجود اُردو نے اپنی مقبولیت کا احساس دلایا وہیں یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاعر کشمیریت اور کشمیری ثقافت کا کس درجہ علمبردار ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ کول شیخ عبداللہ اور فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے ہمنوا رہے ہیں جو اس وقت نظر بند ہیں ۔
 اسی طرح جب انھوں  نے تمل شاعر ترو ونّور کے شعر پڑھے جن کا مطلب ہے کہ ایک اچھے ملک میں  پانچ خصوصیات ہوتی ہیں ۔ (۱) بیماریاں نہیں ہوتیں (۲)پیسہ یعنی دولت ہوتی ہے (۳)خوشحالی ہوتی ہے (۴) اچھی فصل ہوتی ہے اور جگہ کو تحفظ حاصل ہوتا ہے تو دائو اُلٹا پڑگیا۔ وہ کہنا یہ چاہتی تھیں کہ وزیر اعظم مودی جی کی پالیسیوں  کے سبب ہندوستان ان تمام خوبیوں  کا حامل ہوگیا ہے مگر شعروں  کا مطلب سنتے ہی اپوزیشن نے ہنگامہ کردیا کہ ملک میں  معاشی، سیاسی اور سماجی سطح پر جو ابتری پھیلی ہوئی ہے اس نے بہتوں کی نیند حرام کردی ہے۔
 ’’ شعروں  کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے ‘‘ کی یہ بہت اچھی مثال تھی۔ اپنے وطن کے اچھے ہونے میں  کوئی شک نہیں ۔ ہم ’’مرے دیس کی دھرتی سونا اگلے ‘‘ میں  بھی پورا پورا یقین رکھتے ہیں مگر یہاں کے مختلف خطوں ، طبقوں اور علاقوں میں تحفظ کا جومسئلہ پیدا ہوتا جارہا ہے یا ملک میں  بیماریوں  کا جو قہر ہے اس کا احساس خود وزیر مالیات کو بھی ہے اس لئے انھوں  نے ضلع اسپتالوں میں میڈیکل کالج بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس ملک میں  ڈاکٹروں کی نہایت کمی ہے۔ صحت کی عالمی تنظیم کے مطابق ایک ہزار افراد پر کم سے کم ایک ڈاکٹر ہونا چاہئے مگر ہندوستان میں ۱۴۵۶؍ افراد پر ایک ڈاکٹر ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ شاعر کے خواب کی تعبیر مودی جی کے دور اقتدار میں تلاش کرنا کتنا غلط ہے۔
 سیتا جی نے خواتین اور لڑکیوں کیلئے کئی اعلان کئے ہیں جن کے اچھے نتائج برآمد ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے مگر خواتین کیلئے بری خبر یہ ہے کہ جڑائو زیورات مہنگے ہوجائیں گے۔ نوٹ بندی کے دور میں  بھی حکومت نے اعلان یہ کیا تھا کہ اس سے کالے دھن پر کنٹرول کرنے اور چھپے ہوئے کالے دھن کو باہر لانے میں  مدد ملے گی مگر ہوا یہ تھا کہ محنت مشقت کرکے گھر چلانے والی خواتین نے جو بچت کی تھی یا اپنے شوہروں کی کمائی میں سے جو تھوڑا بہت الگ رکھا تھا وہ نوٹ بندی کے سبب ان کیلئے ایک مصیبت بن گیا تھا۔ اب زیورات کے مہنگے ہونے کی ضرب بھی انھیں پر پڑے گی۔ ہاں ، ایک بات اچھی ہوئی کہ وزیر مالیات نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک ’’ٹاسک فورس ‘‘ تشکیل دیں  گی جو یہ طے کرے گی کہ لڑکیوں کی شادی کی عمر کیا ہو؟ ۱۹۷۸ء میں  شاردا ایکٹ میں ترمیم کرکے شادی کی عمر ۱۵؍ سال سے بڑھا کر ۱۸؍ سال کردی گئی تھی مگر کم عمر مائوں  کو جن اذیتوں سے گزرنا پڑتا تھا یا بچہ جنتے ہوئے اب بھی وہ جن خطرات سے دو چار ہوتی ہیں ان کی تفصیل بہت تکلیف دہ ہے اور پھر ملک میں خواتین میں پڑھائی اور ملازمت کا رجحان جس طرح بڑھ رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ لڑکیوں کیلئے ۱۸؍ سال کی عمر شادی کے لائق نہیں  ہوتی۔ اس مسئلہ میں  جذباتی انداز سے نہ سوچا جائے تو نرملا سیتا رمن کے خیالات سے اتفاق کرنا پڑے گا۔ اگر ٹاسک فورس لڑکیوں کی شادی کی عمر میں  کچھ اضافہ کردیتی ہے تو اس میں  کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مگر ملک میں  خواتین اور کم عمر لڑکیوں کیخلاف جرائم جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں ان پر بھی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ لگتا ہے صرف قانون سے یہ مسئلہ نہیں حل ہوگا اس کیلئے طرزِ فکر اور طرزِ زندگی میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ عصمت دری اور عصمت فروشی کی نئی نئی صورتیں  سامنے آرہی ہیں جن میں بعض بہت گھنائونی بھی ہیں ۔
 ’’ بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو ’’ نعرے کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوا ہے۔ پرائمری سطح پر لڑکیوں کا تناسب ۹۴ء۳۲؍ فیصد اور لڑکوں کا تناسب ۸۹ء۲۸؍ فیصد رہا ہے۔ سیکنڈری سطح پر یہ تناسب لڑکیوں کے ۸۱ء۳۲؍ کے مقابلے لڑکوں کا ۷۸ء۵۴؍ فیصد ہے۔ اسی طرح ہائر سیکنڈری سطح پر لڑکیوں کے ۵۹ء۷۰؍ کے مقابلے لڑکوں کا تناسب ۵۷ء۵۴؍ فیصد ہے یعنی لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں  زیادہ پڑھ رہی ہیں ۔ یہ اچھی علامت ہے مگر اعلیٰ تعلیم میں اب بھی لڑکیوں کے معاشی تحفظ کے ساتھ سماجی تحفظ دینے کی ضرورت برقرار ہے۔ بچوں ، دودھ پلانے والی مائوں اور نوعمر لڑکیوں میں غذائیت کی کمی پورا کئے جانے کی ضرورت بھی خصوصی توجہ کی مستحق ہے۔ یہ بات تسلی بخش ہے کہ نرملا سیتا رمن نے بجٹ میں غذائیت کی کمی کو دور کرنے کیلئے ۳۵۶۰۰؍ کروڑ اور خواتین کی فلاح کے منصوبوں کیلئے ۲۸۶۰۰؍ کروڑ روپے مختص کئے ہیں ۔ مگر یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ یہ روپے خرچ کیسے ہوتے ہیں ؟ اور ان کے مطلوبہ نتائج برآمد ہوتے ہیں یا نہیں ۔ اقلیتوں ، درج فہرست جماعتوں کی خواتین کی آرزوئوں کو پورا کرنا حکومت نے اپنا مقصد قرار دیا ہے۔ اچھا ہوتا کہ ہر سال وزیر مالیات یہ بتاتیں یا بتاتے کہ ہم آئندہ اس مد میں  اتنا خرچ کریں گے اس سے پہلے یہ بتاتے یا بتاتیں کہ پچھلے مالی سال میں  جو روپے مختص ہوئے تھے وہ پوری طرح خرچ ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے ہیں اور جو روپے خرچ ہوئے وہ واقعی مستحقین تک پہنچے ہیں  یا نہیں  پہنچے ہیں ۔
  وزیر مالیات کے پیش کئے ہوئے بجٹ میں خواتین کیلئے بہت کچھ ہے مگر اندیشے بھی بہت ہیں ۔ شاید وزیر مالیات کا ذہن بھی ان اندیشوں سے پاک نہیں تھا اس لئے ان کے پڑھے ہوئے اشعار سے ہی ان کے دعوئوں اور مستقبل کے خوابوں کی نفی ہوگئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK