Inquilab Logo

گیان واپی تنازع: کیا کوئی قابل قبول حل نکلے گا؟

Updated: May 22, 2022, 10:56 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

اکثر لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا بنارس کا مسجد مندر تنازع بھی ایودھیا کی راہ پر جائیگا؟ اس سوال کے پس پشت جو اندیشہ ہے اسے خارج نہیں کیا جاسکتا۔

gyanvapi
گیان واپی

گیان واپی مسجد کا ’مسئلہ‘ اتنا سنسنی خیز بنادیا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اگر دہائیوں تک نہیں تو چند برس تو یقیناً موضوع بحث اور وجہِ کشیدگی بنارہے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایودھیا کے مسئلہ نے ہمیں کئی دہائیوں تک پریشان رکھا۔ خدا نہ کرے کہ اب کوئی مسئلہ اس طرح عوامی آزمائش کا سبب بنے مگر جب آثار کچھ اور ہی ہوں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا توقع کی جانی چاہئے؟ برکھا دت نے حیدر آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف لاء کے وائس چانسلر فیضان مصطفیٰ سے انٹرویو کیا تو اُنہوں نے اس کیس کے قانونی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔عام خیال یہ ہے کہ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون ۱۹۹۱ء کی وجہ سے مسجد کی حفاظت ممکن ہے مگر فیضان مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ ایسا ہی ہو یہ ضروری نہیں ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون کو مسترد کرسکتا ہے کیونکہ اس میں عدالتی نظر ثانی (جوڈیشیل رویو) کی گنجائش نہیں ہے۔ بہ الفاظ دیگر، ججوں کو اس معاملے پر فیصلہ دینے سے باز رکھا گیا ہے کہ کوئی عبادت گاہ جس حیثیت سے اب موجود ہے وہ ماضی میں کس حیثیت کی حامل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کاشی یعنی بنارس کا ایشو بھی ایودھیا کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
 دوسری بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو جس طرح قانون بنانے کا اختیار ہے اسی طرح قانون بدلنے یا ختم کرنے کا بھی ہے لہٰذا حکمراں جماعت چاہے تو اس قانون کو ختم کرسکتی ہے۔ بی جے پی کے کچھ لوگ اس کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ چونکہ حکمراں جماعت کسی دوسری پارٹی کی حمایت سے جاری نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی طاقت بھی کسی قانون کو وضع کرنے یا منسوخ کرنے کے لئے کافی ہے اس لئے قانون کی منسوخی عمل میں آسکتی ہے اس میں حکمراں جماعت کو کوئی دقت نہیں ہوگی اگر وہ ایسا کرنے کے درپے ہوئی۔ یہ دو وجوہ بیان کرنے کے ساتھ فیضان مصطفیٰ نے یہ بھی کہا کہ قانوناً مسلمانوں کے پاس کچھ زیادہ متبادلات نہیں ہیں اس لئے ایک ہی صورت نکل سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ فریقین میں مصالحت ہوجائے۔ 
 کچھ ایسی ہی بات گزشتہ دنوں سینئر صحافی سعید نقوی نے کہی جب وہ بنگلور انٹرنیشنل سینٹر تشریف لائے تھے۔ اس کالم نگار کے ساتھ دوستانہ گفتگو کے دوران اُنہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ کچھ اور ہے۔ ہندوؤں کو دراصل یہ گلہ ہے کہ پاکستان اسلامی ملک بن گیا جبکہ ہندوستان سیکولر قرار پایا، ہندو راشٹر نہیں بنا۔ اب اگر یہ ہندو راشٹر بن جائے تو اکثریتی طبقے کا گلہ جاتا رہے گا۔ اُس صورت میں بہت ممکن ہے کہ بہتر ہندوستان تشکیل پائے جس کی مثال برطانیہ کی ہوگی جو بنیادی طور پر بادشاہت ہے جس کا سربراہ یا بادشاہ کلیسا سے تعلق رکھتا ہے مگر اسی ملک میں رِشی سوناک اور ساجد جاوید جیسے لوگ اعلیٰ سرکاری مناصب پر فائز ہیں جبکہ ہندوستان میں ایسا نہیں ہوتا۔
 فیضان مصطفیٰ اور سعید نقوی کی رائے مخلصانہ ہے اور ان کے کے علم ودانش سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اُن کے خیالات کو مسترد کرنا مناسب نہیں بلکہ بہتر ہوگا کہ اُنہیں مسترد کرنے کے بجائے جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اُس پر غوروخوض ہو، مگر، مَیں اس مسئلہ کے دیگر پہلو کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ کیا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ملک کے ہندوؤں کو اپنے آئین ہی سے گلہ ہے؟ (جس نے ملک کو سیکولر مزاج بخشا ہے)؟ اس سے ملتا جلتا میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ ماضی میں جو کچھ ایودھیا میں ہوا اور اب جو کاشی میں ہورہا ہے کیا اس کے پس پشت اکثریتی فرقے کا وہی گلہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے؟
 شاید اس کا جواب اثبات میں ہے۔ یہ بات مَیں اُن واقعات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے آس پاس کے واقعات کو عدالت میں پہنچنے والے اس نئے تنازع (گیان واپی) سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کریں تو بہت سی چیزیں واضح ہوجائینگی۔ ۲۰۱۴ء، بالخصوص ۲۰۱۹ء سے ایسے کئی حکومتی اقدامات ہوئے ہیں جن کا براہ راست تعلق مسلمانوں سے ہے۔ تین طلاق کا معاملہ، دفعہ ۳۷۰؍ کا معاملہ، بیف کا تنازع، حجاب کی مخالفت،   منادر کے آس پاس کے مسلم خوانچہ فروشوں کا بائیکاٹ،کووڈ کے پھیلاؤ کیلئے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش اور مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں پر بلڈوزر کا چلایا جانا وغیرہ۔ پورا ملک پچھلے ۳۶؍ مہینوں سے انہی موضوعات کو میڈیا کی سرخیوں میں دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم فیضان مصطفیٰ اور سعید نقوی کے خیالات سے استفادہ کرنا چاہیں تو محسوس ہوگا کہ شاید یہ سارے معاملات یا واقعات محض اس لئے رونما ہورہے ہیں کہ ملک کے اکثریتی طبقے کو وہ گلہ ہے جو بالائی سطور میں بیان کیا گیا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان واقعات کے پس پشت مغل حکمرانوں کے خلاف پایا جانے والا شکوہ ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ مَیں اس سوال کا جواب دینے کے بجائے چاہتا ہوں کہ ہم سب خود سے یہ سوال کریں تو بہتر ہوگا کہ اگر ہندوستان کو ہندو راشٹر بنادیا گیا یعنی اسے سیکولر بنادینے کی ’’غلطی‘‘ درست کرلی گئی تو کیا اِس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک ہونے لگے گا؟ کیا ہمیں یہ اعتراف نہیں کہ کوئی مسلمان اِس ملک میں وزیر اعظم بننے کی آرزو نہیں کرسکتا جیسا کہ سوناک اور جاوید کو برطانیہ میں حاصل ہوا؟ کیا ملک کا نام بدلنے سے وہ زمینی حقائق بدل جائینگے جن کے سبب مسلمان حاشئے پر لادیئے گئے؟ مَیں پھر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس سوال پر غوروخوض کی ضرورت ہے۔
 اب ایک اور نکتے کو سمجھئے۔ ملک کے ہر شہری کو اُس کی مذہبی شناخت تک محدود کردینا اور سماج کو ہندو اور مسلم کے درجوں میں بانٹ دینا بھی تو مسئلہ کا حل نہیں۔ سب کی ایک شناخت کا جو معاملہ ہے وہ قدیم تہذیبوں میں ہوا کرتا تھا۔ جمہوریت میں سب سے اہم اکائی فرد ہے جسے حقوق حاصل ہیں اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان حقوق کا احترام کرے۔ اسی لئے بنیادی حقوق کا تعلق بھی فرد (اور اس حوالے سے افراد سے) ہے۔ ہمارا آئین کہتا ہے کہ برابری کے حق سے کسی کو بھی محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ آئین یہ بھی کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جاسکتا۔ جب جمہوریت کا اصرار ان باتوں پر ہے یعنی فرد کے حقوق، فرد کی آزادی وغیرہ پر تو میرے مذکورہ بالا دانشور دوستوں کے خیالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ ان حالات میں فیصلہ بی جے پی کو کرنا ہے جو اقتدار میں ہے اور اب تک کی تمام مہموں اور پالیسیوں کی محرک رہی ہے، کہ وہ عیاں کرے کہ اس کا اپنا مطمح نظر کیا ہے اور وہ کیا چاہتی ہے۔ اس کی اپنی منصوبہ بندی کیا ہے؟ وہ کیا شے یا ہدف ہے جس کو پالینے سے ملک میں کشیدگی، منافرت اور تشدد کا ماحول ہمیشہ ہمیش کیلئے ختم ہوجائیگا؟ اس سوال کے جواب میں حکمراں جماعت جو کچھ بھی کہے گی وہ سننے لائق ہوگا۔n

gyanvapi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK