Inquilab Logo

معاشی ترقی کتنی دور کتنی پاس

Updated: December 05, 2022, 10:32 AM IST | Mumbai

آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مہنگائی کے دور آتے جاتے رہے، یہ مسئلہ سیاسی احتجاج کی بنیاد بھی بنا اور انتخابی موضوع بھی مگر کسی دور میں مہنگائی نے اتنا طول نہیں پکڑا جتنا کہ موجودہ دور میں

Economic development; Photo: INN
معاشی ترقی;تصویر :آئی این این

آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مہنگائی کے دور آتے جاتے رہے، یہ مسئلہ سیاسی احتجاج کی بنیاد بھی بنا اور انتخابی موضوع بھی مگر کسی دور میں مہنگائی نے اتنا طول نہیں پکڑا جتنا کہ موجودہ دور میں۔ سرکاری و غیر سرکاری اعدادوشمار سے قطع نظر، عام آدمی کی جو حقیقی صورت حال ہے وہ عام آدمی ہی جانتا ہے، نہ تو اعدادوشمار تیار کرنے والے ماہرین اس کیفیت کو سمجھ سکتے ہیں نہ ہی حکومت، جس کے ارباب حل و عقد عام آدمی کی پریشانی اور برہمی تو دیکھ رہے ہیں مگر یا تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا یا ان کے پاس وہ مہارت نہیں ہے جس کے ذریعہ مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہی معاملہ بے روزگاری کا بھی ہے جو کورونا کی وباء سے پہلے پینتالیس سال کی بلند ترین سطح پر تھی۔ اس کیلئے فی الحال حکومت کے پاس عالمی معاشی حالات کا بہت اچھا بہانہ ہے مگر تابکے یعنی کب تک؟
 راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے دوران، جو اب راجستھان میں داخل ہونے کو ہے، یہ مسائل تقریباًروزانہ اٹھائے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس یاترا کو توقع سے پچاسوں گنا زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس سے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف عوام کے ردعمل کا اندازہ کیا جاسکتا ہے مگر، آپ دیکھئے گا، حکمراں طبقہ جس کسی الیکشن میں کامیابی حاصل کرلے گا، یہ کہتے ہوئے بغلیں بجائیگا کہ اپوزیشن بلاوجہ شور مچاتا ہے، عوام کو کسی بات کا گلہ نہیں، وہ اس کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ مگر یہ اطمینان اور یہ بہانہ بھی تابکے؟ کب تک؟ انتخابی کارکردگی کو حکومتی انتظام و انصرام کی کامیابی سمجھنا اور سمجھانا اس لئے عارضی راحت کا سامان ہے کہ اگر انتخابی کارکردگی کا پانسہ پلٹ گیا تو حکومتی کارکردگی پر کہنے کیلئے کچھ نہیں رہ جائیگا۔ حکمراں جماعت کو اس دن سے ڈرنا چاہئے۔
 اس لئے ڈرنا چاہئے کہ ایک طرف ملک کی معاشی حالت ہے جو ۲۰۱۸ء سے ابتری کی راہ پر ہے اور ہنوز سنبھل نہیں پائی ہے، عالمی معاشی سست رفتاری کی وجہ سے مزید آزمائش سے دوچار ہونے کو ہے۔ نومورا ریسرچ نے جو تصویر گزشتہ دنوں پیش کی ہے وہ تشویش کی توثیق کرتی ہے۔ اس نے ۲۰۲۳ء کیلئے ۳ء۴؍ فیصد شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے۔ مگر ایک اور ادارہ (مورگن اسٹینلے) بھی ہے جو مختلف خاکہ پیش کررہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ۲۰۳۰ء تک ہندوستان دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائیگا۔ سوال یہ ہے کہ کیسے بن جائیگا؟ کیا صرف اس لئے کہ ہندوستان کو ایک بڑے کنزیومر مارکیٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اسے حال کی کیفیت بتانے سے زیادہ مستقبل کے امکانات سمجھائے جاتے ہیں تاکہ یہ اپنا کنزیومر مارکیٹ کھلا رکھے؟ یہ ادارہ چار وجوہات کی بناء پر خوش گمان ہے۔ یہ چار ’’ڈی‘‘ ہیں: ڈیموگرافی، ڈجیٹائزیشن، ڈی کاربنائزیشن اور ڈی فاریسٹیشن۔ اس میں پہلا (ڈیموگرافی) وہی ہے جس کا ذکر ہم نے بالائی سطور میں کیا ہے یعنی بڑی آبادی کا فائدہ۔ ڈجیٹائزیشن کی شرح ۲۰۱۸ء کے مقابلے میں ضرور بڑھ گئی ہے مگر حکومت اپنے ہدف سے اب بھی دور ہے۔ رہا کاربن کی سطح کم کرنے اور جنگلات کی کٹائی روکنے کا سوال تو اس میں کوئی پیش رفت ہوئی بھی ہے تو ماہرین ہی بتا سکتے ہیں مگر معیشت کا زیادہ تعلق پہلے دو ’’ڈی‘‘ سے ہے، بعد کے دو سے نہیں۔ 
 مورگن اسٹینلے کا ہیش کردہ خاکہ خوش گمانی پر مبنی ہے۔ اگر ایسا ہوا اور معیشت میں چار چاند لگ گئے تب بھی اس کی ضمانت کون دے گا کہ معاشی بہتری کے فوائد مٹھی بھر لوگوں کو نہیں بلکہ ملک کے ایک ایک شہری کو ملے گا جو مساوات کا تقاضا ہے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK